ڈسپلن

مجھے قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ تقریب یوں شروع ہوگی، میرا خیال تھا کہ پہلے تمام لوگ اپنی نشستوں پر براجمان ہوجائیں گے پھر مہمان خصوصی تشریف لائیں گے، انہیں سیلوٹ کیا جائے گا اوراس کے بعد باقاعدہ آغاز ہوگا، دعوت نامے پر جو عبارت لکھی تھی اُس سے تو میں یہی سمجھ سکا تھا۔ مگرایسا نہیں ہوا۔ جب تمام وزرا، افسران، غیرملکی سفیر اور دیگر مہمانان اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے تو ٹھیک آٹھ بجے ملی نغموں کی دھن بجنا شروع ہوئی، ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا معصوم بچے اور بچیاں پاکستان کے چاروں صوبوں کا قومی لباس پہنے ہاتھوں میں دیئے اٹھائے قطار اندر قطار پنڈال میں داخل ہو رہے ہیں، انہیں دیکھتے ہی پورا مجمع اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑا ہوا، ہاتھ سیلوٹ کے لئے اٹھ گئے، نگاہیں جھک گئیں، وہ ہمارے دلوں میں اترتے چلے گئے۔ یہ شہدا کے بچے تھے، کسی نے روایتی بلوچی لباس پہن رکھا تھا تو کسی نے سبز اور سفید شلوار قمیص، کوئی پھول سی بچی تھی تو کوئی ہیرے کا ٹکڑا، اِن کے پیچھے شہدا کے ماں، باپ، بھائی، بہن اور دیگر عزیز و اقارب تھے۔ یہ تھے یوم شہدا کی تقریب کے مہمان خصوصی جن کے بارے میں دعوت نامے پر درج تھا کہ جب مہمان خصوصی آئیں تو لوگ اٹھ کر اِن کا استقبال کریں اور ایسا ہی ہوا، جب تک یہ بچے بچیاں اور اِن کے والدین اپنی نشستوں پر نہیں بیٹھ گئے ہم لوگ کھڑے رہے، ملی ترانے بجتے رہے، یوں لگا جیسے فرشتے آسمان سے اتر آئے ہوں۔ اِن میں سے کسی کا جوان بیٹا وزیرستان میں شہید ہوا تھا تو کسی جوان بیوہ کا سہاگ لاہور میں اجڑا تھا، کوئی ارض پاک کے لئے بلوچستان کی وادیوں میں شہید ہوا تھا تو کسی بوڑھی ماں کی امید کی شمع کراچی میں بجھی تھی۔ چہرے سے نور برسنا صرف سنا تھا، اُس روز اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔

یوم دفاع کی تقریب کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ لفظ ہوگا ’’ڈسپلن‘‘۔ دعوت نامے پر جامع ہدایات درج تھیں اور من و عن اُن پر عمل ہوا، جی ایچ کیو کے لان میں ہزاروں افراد نے اس تقریب میں شرکت کی مگر کہیں بھی ہڑبونگ یا بد نظمی کی جھلک نظر نہیں آئی، مہمانوں کو کیٹگری کے مطابق دعوت نامے تقسیم کئے گئے تھے جن میں ہر دعوت نامے کا مخصوص رنگ تھا، اُس رنگ کے مطابق ہر مہمان کو کارڈ دیا گیا، اسی کے مطابق تقریب میں شرکت کا وقت بتایا گیا اور پھر اسی رنگ کی نشستوں پر جگہ مخصوص کی گئی، تاش کے پتوں کی ترتیب کی طرح آٹھ ہزار لوگ وسیع و عریض لان میں سما گئے۔ آغاز میں صبا حمید اور فردوس جمال نے میزبانی سنبھالی، فردوس جمال نے گھن گرج کر آغاز کیا مگر انہیں بہت کم موقع ملا حالانکہ اِن کی کارکردگی دیگر نوجوان کمپئیرز سے کہیں بہتر رہی۔ تقریب میں شہدا اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جو ملی ترانے اور نغمے پیش کئے گئے وہ بلامبالغہ ایک سے بڑھ کر ایک تھے، اپنوں سے بچھڑنے کا غم کس قدر اندوہناک ہوتا ہے یہ وہی جانتا ہے جس کا کوئی پیارا بھری جوانی میں چلا جائے، اِس غم کو وطن کی محبت کے ساتھ پرو کر پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں مگر بلاشبہ انسانی جذبات کے اِن دونوں پہلوؤں کو نہایت شاندار طریقے سے اجاگر کیا گیا۔ ایک مختصر سی فلم میں شہدا کے لواحقین کے انٹرویو دکھائے گئے، میرے یار کیپٹن مبین شہید کی ماں کی جھلک بھی اُن میں نظر آئی۔ آنکھیں کیسے پُرنم نہ ہوتیں۔ ایسے لاتعداد ہیرو اِس مٹی میں پیدا ہوئے اور اسی مٹی میں دفن ہو گئے جن کا قرض ہم نہیں چکا سکتے۔ وردی میں ملبوس ایک خوبرو جوان کو وہیل چیئرپر دیکھا، کسی معرکے میں وہ غازی ٹھہرا تھا، ہم آنکھیں جھکا کر گزر گئے۔

تقریب کی دو باتیں ایسی تھیں جو قدرے بہتر انداز میں ہو سکتی تھیں، پہلی، کشمیر کی پروجیکشن۔ کشمیر پر ایک خوبصورت ملی نغمہ دکھایا گیا جس کے اختتا م پر کچھ اعداد و شمار بھی تھے جنہیں شاید ہی کوئی پڑھ سکا ہو، یہ تقریب ایک شاندار موقع تھا دوست ممالک کے سفیروں کے سامنے کشمیر کا مقدمہ ایک موثر انداز میں پیش کرنے کا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کشمیر پر ایک مختصر سی انگریزی زبان کی ڈاکومینٹری چلائی جاتی جس میں صرف حقائق، اعداد و شمار اور غیرملکی میڈیا کی ویڈیو فوٹیج کی مدد سے پاکستان اپنا کیس بناتا تاکہ غیرملکی مندوبین اسے آسانی سے سمجھ بھی پاتے۔ بھارت کا مقدمہ کشمیر اس وقت کمزور ترین لمحات سے گزر رہا ہے، بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تو کالج یونیورسٹی جاتی لڑکیاں تک مزاحمت کا استعارہ بن گئی ہیں، جن ہاتھوں میں مہندی رچائی جانی چاہئے وہ ہاتھ بھارتی قابض فوجیوں پر پتھر برساتے ہیں، کیا گزری ہوگی اُن کشمیریوں پر کہ جن کی نہتی بچیاں بھی اب بھارتی فوجیوں سے دوبدو ہونے کے لئے تیار ہیں، تحریک کا یہ ایک بالکل نیا اور انوکھا پہلو ہے، انگریزی میں جسے unprecedentedکہتے ہیں۔ تقریب کی دوسری بات قومی ہیرو ز کی طرف سے شہدا کے خاندانوں کو پھول پیش کرنا تھا، اِس کام کے لئے جن ہیروز کا انتخاب کیا گیا، سوائے حسینہ معین کے، تمام کا تعلق کھیل اور شوبز سے تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہیرو نہیں ہو سکتے، مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ ادب، سائنس اور تعلیم کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہیروز یہ نیک فریضہ انجام دیتے! ہمایوں سعید کے لئے قومی ہیرو کا لفظ استعمال کرنا ایسے ہی ہے جیسے ڈانلڈ ٹرمپ کو سائنس دان کہہ کر اس سے فزکس کا نوبیل انعام دلوانا۔
تقریب کے اگلے روز اخبارات کی سرخیاں تھیں ’’جہاد کا حق صرف ریاست کو ہے!‘‘ نہایت خوبصورت بات ہے، سارا فساد ہی یہ ہے کہ انفرادی یا گروہی سطح پر کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے طور پر لشکر بنا کر اعلان جہاد کرتا پھرے۔ مگر یہ مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ دنیا بھر میں جو گروہ دہشت پھیلا رہے ہیں اُن کے نظریاتی اساتذہ، جو اپنے ملک میں بھی موجود ہیں، ڈنکے کی چوٹ پر انہیں یہ رٹاتے ہیں کہ چونکہ اسلامی ریاست اپنے فرض سے غافل ہو گئی ہے اور وہ غیرمسلم افواج کے ساتھ اتحاد بنا چکی ہے اور چونکہ اس اسلامی ریاست کے شہری بھی اسلامی شعائر کی پابندی نہیں کرتے لہٰذا ایسی ریاست کو اسلامی کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے شہریوں کو مسلمان مانا جا سکتا ہے۔ یہ ہے وہ بیانیہ جو ریاست کے اندر افراد اور گروہوں کو پرتشدد کاروائیوں پر اکساتا ہے اور یہی وہ بیانیہ ہے جس کی روشنی میں ہمارے جوان اور شہری شہید کئے جاتے ہیں اور ہم سوچتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو مارکیٹوں اور درباروں میں دھماکے کرتے ہیں۔ جب تک اس بیانئے کا رد نہیں ہوتا، تب تک یہ جنگ طویل ہوتی جائے گی۔

پاکستان کے طاقتور ادارے بلاشبہ پاکستان کی سلامتی کے ضامن ہیں مگر جیسے دنیا بھر میں سیکنڈ لائن آف ڈیفنس ہوتی ہے ایسی ہی ہمارے ہاں بھی ہونی چاہئے، کسی ایک ادارے پر پورے ملک کی سیکورٹی کا دارومدار درست نہیں اور اس کا حل یہ ہے کہ ریاست کے دیگر اداروں پر بھی بھروسہ کیا جائے تاکہ دفاع کی دوسری لائن بھی ناقابل تسخیر بن جائے، یہ اسی صورت ممکن ہے اگر تمام ریاستی ادارے آئینی حدود میں رہنے کا عملی مظاہرہ کریں۔ یہی اصل ڈسپلن ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے