موازنہ لاہور و اسلام آباد

جب سے اسلام آباد شفٹ ہوا ہوں، زندگی بے رنگ سی ہوگئی ہے۔ ایسا نہیں کہ اسلام آباد میں کوئی رنگ نہیں، اسلام آباد تو رنگوں سے بھرا ہوا شہر ہے، چاروں طرف سے پہاڑیوں اور سبزہ زاروں سے گھرا ہوا۔ صرف یہی نہیں وہاں تو انسانوں کے علاوہ سور بھی کئی علاقوں میں نظر آتے ہیں، جو صرف رات کو نکلتے ہیں۔ دن کے اوقات میں دفتروں میں کام کرتے ہوں گے۔ سور تو خیر لاہور میں بھی دکھائی دیتے ہیں دو تین سوروں کو تو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ میں اپنی اس عادت سے بہت تنگ ہوں کہ لکھتے وقت کدھر کا کدھر نکل جاتا ہوں۔ میں بتارہا تھا کہ جب سے اسلام آباد شفٹ ہوا ہوں زندگی کچھ بے رنگ سی ہوگئی ہے، وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ساری عمر لاہور میں گزری ہے، چنانچہ میں نے تو ایک دفعہ یہ بھی لکھا تھا کہ میں لاہور میں نہیں، لاہور مجھ میں رہتا ہے، تاہم پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح لاہور میں بھی میرا کیمپ آفس ہے، چنانچہ دوسرے شہروں کی طرح لاہور میں بھی آنا جانا لگا ہی رہتا ہے، مگر میں محفل باز اور محفل ساز قسم کا آدمی، لاہور میں تھا تو دوستوں کوا یک جگہ جمع کرکے دھما چوکڑی مچالیا کرتا تھا۔

یہاں دھماچوکڑی شریفانہ معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ ’’شریفانہ استعمال ‘‘ذرا ملاحظہ کریں، یعنی جگتیں لگا لگا کر ایک دوسرے کو ’’لہولہان‘‘کردینا، مگر یہ ’’خونریزی‘‘ اس نوعیت کی ہوتی تھی کہ’’زخم خوردہ‘‘ ہنس ہنس کر دہرا ہوجاتا تھا۔ اب لاہور آنے کا میرا کوئی باقاعدہ شیڈول نہیں ہے، چنانچہ کبھی میں دستیاب نہیں ہوتا اور کبھی وہ بے تکلف دوست کہیں مصروف ہوتے ہیں، جو ہنسنے ہنسانے کے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، تاہم یہاں ایک وضاحت کردوں کہ ہم لوگ ایک دوسرے سے صرف چھیڑ چھاڑ ہی نہیں کرتے بلکہ بہت نازک مسائل پر بھی کھل کر بات کرتے ہیں۔ ایسے مسائل پر بھی جن پر گفتگو بلاوجہ منع ہے، جب تک ہم کسی بات کو سمجھیں گے ہی نہیں اور اس پر مکالمہ نہیں کریں گے، تو حقیقت تک ہماری رسائی کیسے ہوگی، یہ الگ بات کہ حقیقت بذات خود ابھی تک حقیقت کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے۔ میرا بیٹا یاسر پیرزادہ عیدین کے دوسرے دن ایک اسی طرح کے’’اجتماع‘‘کا اہتمام کرتا ہے مگر افسوس کہ سال میں صرف دو عیدیں ہوتی ہیں۔

اب آپ بجاطور پر بوجھ سکتے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ اسلام آباد میں ممکن نہیں جو آپ اس شہر کو بے رنگ کہہ رہے ہیں۔ لاحول ولا، میں نے اگر یہ لکھا ہے تو اسلام آباد سے معذرت خواہ ہوں، اسلام آباد میرے دوستوں کا شہر ہے، مگر اب وہاں احمد فراز نہیں ہے، ممتاز مفتی نہیں ہیں، قدرت اللہ شہاب نہیں ہیں، محمد منشا یاد نہیں ہے، صدیق سالک نہیں ہے، ان میں سے شہاب صاحب کے علاوہ سب سے بےتکلفی کا تعلق تھا، شکر الحمد للہ کہ ابھی تک اس شہر میں مسعود نقی، فتح محمد ملک، عرفان صدیقی، قاسم بھیگو اور دوسرے سینئر لکھنے والے موجود ہیں۔ انعام الحق جاوید میرے دل کے بہت قریب ہیں۔ رشید امجد بیمار ہیں، جلیل عالی میرا کلاس فیلو ہے، مگر ’’اینگری اولڈ مین‘‘ کی طرح مجھ سے لڑتا رہتا ہے۔ مظہر الاسلام اسلام آباد میں ہوتے ہوئے بھی اسلام آباد میں نہیں ہے۔ محمد اظہار الحق آدھا پاکستان اور آدھا بیرون ملک رہتا ہے، البتہ نوجوان دوست کثیر تعداد میں ہیں مگر ان سے وہ کچھ کہا اور سنا نہیں جاتا، جس سے محفل میں رنگ آتا ہے۔ اوپر سے دفتری مسائل کچھ ایسے ہیں جو اس سے پہلے نہ کبھی دیکھے اور نہ سنے تھے۔ وقت آنے پر اس کی تفصیل ضرور بیان کروں گا۔

قارئین کو ایک سوال اور کرنے کا حق حاصل ہے اور وہ یہ کہ جناب یہ تو آپ کا ذاتی احوال ہے ہم نے آپ سے کب کہا تھا کہ لاہور اور اسلام آباد کا موازنہ کرکے دکھائیں۔ بات یہ ہے کہ عوام کو سوال کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن انہیں جواب دینا یا نہ دینا دوسرے کی مرضی پر منحصر ہے۔ اب ساری قوم پوچھ رہی ہے کہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والے نواز شریف کو محض اس بنا پر وزارت عظمیٰ سے نااہل کیوں قرار دیا گیا کہ ان کے بیٹے کی کمپنی نے ڈیڑھ دو لاکھ روپے بطور تنخواہ ان کے لئے مختص کئے ہوئے تھے جو انہوں نے کبھی نہیں لئے مگر انہوں نے ٹیکس گوشوارے میں اس رقم کا ذکر کیوں نہیں کیا؟سوال کرنا آپ کا اختیار ہے، آپ کرتے رہیں مگر اس کا جواب آپ کو ’’صدیوں تک‘‘ نہیں ملے گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے