بیل اور چھکڑے میںپہچان:خارجہ پالیسی اور داخلی بندوبست

خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔ چالیس برس پہلے افغان مزاحمت کے تناظر میں امریکہ دوستی اور سوویت یونین کی مخالفت پر مبنی خارجہ پالیسی مرتب کی گئی تھی۔ ان برسوں میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ ایک اہم مرحلہ یہ تھا کہ ضیا آمریت نے اپنی خارجہ پالیسی سے مطابقت رکھنے والا سیاسی اور معاشرتی بیانیہ مرتب کیا۔ اس داخلی نمونے کے اہم نکات یہ تھے۔ (1) قانون کو مذہبی تشریح کے ماتحت کر دیا گیا۔ اس سے ریاست کی عملداری بری طرح متاثر ہوئی اور غیر ریاستی عناصر نے قانونی اور انتظامی اداروں کو یرغمال بنا لیا۔ (2) معاشرے میں امتیاز اور تفرقے کو ایک اصول کے طور پر آگے بڑھایا گیا۔ اس سے تین طبقات کو بے حد نقصان پہنچا۔ پاکستان کی عورتیں عملی طور پر دوسرے درجے کی شہری بن گئیں۔ اقلیتوں کو فیصلہ سازی سے باہر کر دیا گیا۔ محنت کش طبقات سیاسی طاقت سے محروم ہو گئے۔ عدم تحفظ کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ کمزور طبقات اپنے سیاسی شہری اور معاشی حقوق کے لئے آواز اٹھانے سے قاصر ہو گئے۔ (3) نصاب تعلیم میں ایسی ترامیم کی گئیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی عملی طور پر ناخواندہ سوچ کا اسیر ہو گیا۔ (4) زبان اور فرقے کی بنیاد پر متشدد گروہوں اور تنظیموں کی سرپرستی کی گئی۔ (5) سیاسی عمل کو بے دست و پا کیا گیا۔ علانیہ موقف اور حقیقی پالیسی میں کچھ تلبیس اور اوٹ تو بہرصورت باقی رہتی ہے لیکن دستور کی کار فرمائی میں ایسی غیر سیاسی مداخلت کی گئی جس سے سیاسی قیادت کے ہاتھ پاؤں کٹ گئے۔ غور فرمائیے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو طالبان کی حمایت کرنا پڑتی تھی۔ نوے کی دہائی میں کس کے منہ میں دانت تھے کہ غیر ریاستی عناصر سے جواب دہی کرتا۔

تاریکی کے اس منطقے میں ہماری دو نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ ان میں سے پہلی نسل اب پچاس کے پیٹے میں ہے۔ اس نسل سے تعلق رکھنے والے تدریس سے منسلک ہیں، انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں، صحافت سے وابستہ ہیں یا ریاستی اہلکار ہیں، بہرصورت کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ اس نسل نے اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی دو عملی کے بیانیے میں کی ہے۔ ذاتی اور اجتماعی زندگی کا باہم تعلق کمزور ہوتے ہوتے معدوم ہو گیا ہے۔ جیب میں اعلی تعلیمی اسناد ہیں، زبان پہ پرجوش نعرے ہیں اور ہاتھ میں یورپ کے ویزے کی درخواست تھام رکھی ہے۔ برسراجلاس ایک پالیسی بیان کی جاتی ہے، پہلو کے کمرے میں کچھ اور مسکوٹ کی جاتی ہے اور بالکل پیچھے والے کمرے میں کچھ اور کھچڑی پکائی جاتی ہے۔ ہم نے فرض کر لیا تھا کہ اپنے علانیہ موقف کی آڑ میں مفروضہ مفادات کو آگے بڑھائیں گے۔ ایک زندہ معاشرے میں مفادات کی تشریح پر پیدا ہونے والے اختلافات کو تقدیس، ریاستی جبر اور استحصالی معاشی مفادات کی مدد سے کچل کر رکھ دیں گے۔ کیا تھا شعر کو پردہ سخن کا، یہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا… دوسرے ہماری بات کیا مانتے، ہم اپنی ہی سخن سازی کے اسیر ہو گئے۔ سائنس کے کمرہ جماعت میں جو پڑھایا، وہ تقدیس کی تردامنی میں رنجک چاٹ گیا، معبد میں جو درس دیا تھا، وہ معروض کی دھوپ میں کملا گیا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری حقیقی استعداد میں تبدیلی آئی ہے۔ اگر آپ کو اختلاف ہے تو یہ دیکھ لیجئے کہ سید ابولاعلیٰ مودودی کی نشست پر سراج الحق رونق دے رہے ہیں۔ جہاں خلیفہ عبدالحکیم کو علم کے موتی بانٹنا تھے، وہاں آج کے اینکرز بیٹھے ہیں۔ شیخو پورہ کے شیخ محمد رشید صاحب کی بجائے ہمیں راولپنڈی کے شیخ رشید سے واسطہ ہے۔ شیر باز مزاری کی فراست اب کسے یاد ہو گی، ہماری سماعت کا امتحان تو شیریں مزاری لیتی ہیں۔ اردو اخبار میں حمید جہلمی صحافت کرتے تھے، شان خدا ہے، آج زمانہ آیا ہم بے ہنروں کا… ہمارے وائس چانسلر پروفیسر حمید احمد خان تھے۔ اب ہمارے وائس چانسلر کو ہتھکڑی لگائی جاتی ہے اور ہمارا صدر شعبہ ’اہم انکشافات‘ کرتا ہے۔ چالیس برس پہلے ہم نے جو نقشہ بنایا تھا کہا جاتا ہےاس میں سعودی عرب کی معاونت کو اہم مقام حاصل تھا۔ اب ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات کیا اسی نہج پر ہیں۔ عصر حاضر کے بقراط ہمیں چین اور روس کی کہانی سنانا چاہتے ہیں۔ ان ممالک نے اعلی ترین سطح پر اپنا موقف برکس اعلامیے میں رکھ دیا۔ خارجہ پالیسی لفظوں کے طوطا مینا اڑانے کا نام نہیں۔ ملک کے اندر جو فصل کاشت کی جائے گی، اس پر خارجہ پالیسی کے برگ و بار نامیاتی طور پر ظاہر ہو جائیں گے۔
ہمیں پانچ نکات پر توجہ دینی چاہیے۔ کتاب کے اندر اور کتاب سے باہر کی دنیا میں فاصلہ کم کرنا چاہئے۔ ہمیں علمی خسارے کا سامنا ہے۔ مطلب یہ کہ ہم علم کی تخلیق میں حصہ دار نہیں ہیں۔ اگر ہم علم کے خسارے پر قابو پا لیتے ہیں تو تجارتی خسارہ خود بہ خود کم ہو جائے گا۔ دوسرے ہمیں شہری آزادیوں کا تحفظ کرنا چاہئے۔ شہری آزادی، آئین کی پاسداری اور قانون کی عملداری سے تعلق رکھتی ہے۔ آئین نے کچھ بنیادی حقوق کی ضمانت دی ہے۔ ان حقوق کو پامال کرنا اپنی جڑیں کھودنے کے مترادف ہے۔ تیسرا یہ کہ ہمیں معاشرے میں عورتوں کے لئے مساوی حقوق، رتبے اور مواقع کا دروازہ کھولنا چاہئے۔ صنفی مساوات میں پسماندہ رویوں کے ساتھ ترقی یافتہ معاشرہ تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔ چوتھے یہ کہ ہمیں یہ طے کر لینا چاہئے کہ قوم کے مفادات کا تعین عوام کی رائے سے ہو گا۔عوام کی رائے محض سروں کی گنتی یا ووٹوں کی تعداد سے تعلق نہیں رکھتی۔ ہمارا ملک ایک وفاق ہے۔ عوام کی رائے کا مطلب ملک کے تمام حصوں، گروہوں اور طبقات کی آواز کو بامعنی طریقے سے فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہے۔ آخری عرضداشت یہ کہ اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہئے۔ خواجہ آصف 2017 میں یہ صائب تجویز دے رہے ہیں۔ 24اکتوبر 2013ء کو دورہ امریکہ سے واپسی پر نواز شریف نے ٹھیک یہی لفظ استعمال کیے تھے، ’اپنے گھر کو ہم نے خود خراب کیا ہے اور ہمیں خود اسے ٹھیک کرنا ہے۔‘ اگر ہم پاکستان کے حقیقی مفادات پر توجہ نہیں دیتے تو کوئی باہر سے آ کر ہماری مدد نہیں کرے گا۔

ستمبر 2017ء میں اپنی پالیسیوں پر غور کرتے ہوئے ادراک کرنا چاہیے کہ ہمارا اسکرپٹ کمزور ہو گیا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ کا جمہوری اور سیاسی معنوں میں نواز شریف حکومت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کا سوال نہیں، ہمیں پاکستان کے تمام داخلی، معاشی اور سیاسی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مربوط حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے۔ اکیس کروڑ لوگوں کو پالنا اور اس قابل بنانا ہے کہ وہ اقوام عالم میں اپنی صلاحیت، استعداد اور پیداوار کی بنیاد پر احترام جیت سکیں۔ تین دہائی پہلے اختر حسین جعفری نے لکھا تھا۔
لکھو کہ اب بھی وہاں چھتوں پر مدافعت کے علم گڑے ہیں
لکھو کہ جلتے ہوئے پلوں سے گزرنا دشوار ہو گیا ہے
… …

لکھو کہ اب تک برون مکتب کھڑے ہوئے ہیں
کمک پہ آئے ہوئے معلم
خلافِ سطرِ نصاب ہے خود کلام لوحوں پہ نوکِ شمشیر کی لکھائی
مری رسد، میری جستجو، میرے نام لکھو ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے