رابعہ کنول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں ۔۔۔ دوستی کا ،آپ جہاں بھی جیسے ہوں جس بھی ملک کے ہوں ، کسی بھی مذہب فرقے سے تعلق رکھتے ہوں غریب ہوں امیر ہوں اچھے ہوں برے ، چھوٹےہوں یا بڑے ، مرد و عورت ہو،دوستی کبھی نہیں دیکھتی ،،،
دوستی اختلافات اور اتفاقات کو یکجا رکھنے کا بہترین جذبہ ہے ، باہمی اتفاق اور ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کا ذریعہ ہے۔جہاں آپ اپنے دوست کا خیال کرتے ہیں وہیں غلط بات پر اسے کوستے بھی ہیں ، لیکن جذبہ محبت تعلق برقرار رہتا ہے۔
آج آپ بھی اس خوبصورت دن ،اپنے دوست کوکوئی بہترین سا تحفہ دیں ، دعا دیں اوراسے احساس دلائیں کہ وہ کبھی اکیلا نہیں۔
کیا خوبصورت بات ہے کہ انسان اپنے دوست سے پہچانا جاتا ہے
ارے بھئی دوست /سہیلی ایک ہی بات ہے ،
خواتین دل چھوٹا ہرگز نہ کریں کہیں باہر اچھی سے فلم دیکھیں ، گول گپے کھائیں ، سوشل میڈیا پر شئیر کریں یا ساتھ پکنک پر جائیں اور اپنی دوستی انجوائے کریں
بچہ پارٹی تو روز ہی فرینڈشپ ڈے مناتی ہے ، کبھی گلی میں مل کر کھیل لیا، کبھی لنچ شئیر کرلیا، کبھی گالیاں مار کٹائی ناراضی اور تھوری دیر میں پھر ویسے ہی ،،
اور ہاں ۔۔۔ آپ اس موقع پر دوستی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی ایونٹ بھی آرگنائز کرسکتے ہیں ،
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے دوستوں کو سراہانے اور دوستی کوعالمی سطح پر منانے کا فیصلہ 2011 میں کیا گیا ۔ اس دن کو عالمی سطح پرمنانے کا مقصد لوگوں ، ملکوں ، تہزیبوں اور انفرادی سطح پر امن کوششوں کو فروغ دینا اور مختلف کمیونیٹیز کے درمیان رابطے/ پل تعمیر کرنا تھا۔
حکومتیں ، بین الاقوامی تنظیمیں، سول سوسائٹی کی جانب سے تقریبات ، سرگرمیاں کرائیں ، اور بین الاقوامی کمیونٹی کو مذاکرات کے ذریعے ایک پیج پر لائیں ، ، یکجہتی دکھانا، باہمی افہام وتفہیم اور مفاہمت کو فروغ ملے ۔ انہی سب باتوں کی حوصلہ آفزائی کے لیے اقوام متحدہ نے اس دن کا منانے کا فیصلہ کیا،
30 جولائی کو "انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کا عالمی دن” بھی منایا جاتا ہے
اس دور جدید میں تقریبا 25 لاکھ افراد غلامی کے چنگل میں پھنسے ہیں، جن میں خواتین وحضرات کے ساتھ بچے بھی شامل ہیں، اور کچھ مفاد پرست انہیں بیچ دیتے ہیں ، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان افراد کا تعلق کس شعبے ، مذہب یا ملک سے ہے صرف یہی نہیں وہ انہیں دوسرے ملکوں کو بیچتے ہیں ، اس عمل کو انسانی اسمگلنگ کہا جاتا ہے ،دنیا کے ہر ملک میں ایسی گندی مچھلیاں ہیں جو اپنے ہی ملک کو کھوکھلا کررہی ہیں، گزشتہ دنوں آپ کو خبر ملی ہوگی کہ یورپ جانے کی کوشش میں 7سو کے قریب افراد سمندر میں غرق ہوگئے ، دو یا تین دن بعد پھر 2 تین سو افراد کے ڈوبنے کی اطلاعات آئیں ،، پھر معلوم ہوا کہ 6 سے 7 ہزار افراد دوسرے ملکوں کو جانے کی کوشش کررہے تھے ، اور کئی دن کی مسافت کے بعد بحیرہ روم پہنچے۔صرف یہی نہیں چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں ان کوسوار کیا گیاتھا، جن کے پاس کھانے پینے کو ختم ہوچکا تھا، اور کشتی پانی کے زور پر اپنی مدد آپ کے تحت یہاں پہنچی تھی ، کشتی میں کوئی عملہ یا کپتان نہیں تھا۔۔
آپ جانتے ہیں ایساکیوں ہے ،،، اس لیے جناب کہ کپتان رات کے اندھیرے میں انہیں سمندر کے بیچوں بیچ چھو ڑکر فرار ہوگئے تھے ، اور یہ کسی ایک دن ، ہفتہ ، ماہ یا سال کی بات نہیں ، بلکہ یہ تو گزشتہ کئی سالوں سے ہوتا آرہا ہے ،، ان میں سے کچھ کے بارے میں تو پتا چلا کہ کپتا ن نے یا تو کشتی الٹ دی ،یا سورا خ کردیا جس کے باعث حادثات ہوئے، اطلاعات یہ بھی تھیں کہ بھوک سے پریشان لوگوں نے اک دوسرے کو نوچنا کھانا شروع کردیا تھا، کشتی میں بھوک سے مرنے والوں کو جمع نہیں کرسکتے تھے اسلیے انہیں سمندر برد کردیا جاتا۔۔
آپ کو سب بتانے کی وجہ یہ ہےکہ یہ لوگ اپنے ملک میں آئی پریشانی سے گھبر ا کر، بہتر روزگار کی تلاش میں اپنوں سے دور ہجرت کی سوچی ، اور برے لوگوں کے ہتھے چڑھ گئے ، جنھوں نے انہیں چندٹکوں /روپوں/ ڈالر ۔۔۔کی خاطر بیچ ڈالا اور اسمگل کرکے دوسرے ملک کا جھانسہ دے کرسمندر میں ڈوبا دیا،، اور ان کے گھروالوں کو سبز باغ دکھا کرلوٹ لیا۔۔
ا نہیں باتوں سے بچنے کے لیے سن 2010 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے حکومتوں پر زور دیا کہ اس دن کو عالمی سطح پر منایا جائے، انسانی اسمگلنگ کے خلاف حکومتی سطح پر دنیا بھر میں تعاون کیاجائے اور اسکے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں، بلکہ لوگوں/عوام میں آگہی پیدا کی جائے ان کے حقوق بتائےجائیں انسانی اسمگلنگ کے شکاروں میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہوتی ہے۔