تین دن اور تین شہر

امریکا میں زندگی کا ڈھانچہ کچھ اس طرح کا ہے کہ تقریبات صرف جمعہ ہفتہ اور اتوار کو ہی ممکن ہوتی ہیں کہ باقی دنوں میں اگلا دن Working Day ہونے کی وجہ سے سب لوگ اپنے اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں۔ سو پروگرام کے مطابق ہمیں جمعہ 8 ستمبر کو البینی، ہفتے کو نیوجرسی اور اتوار کو ورجینیا میں ہونا تھا۔ یہ تینوں شہر ایک دوسرے سے تین تا چار گھنٹے کی ڈرائیو پر تھے اور یہ اہتمام ہماری خصوصی فرمائش پر کیا گیا تھا کہ یہاں کے ہوائی اڈوں کی مشقت اور پروازوں کی طوالت آدمی کا بھرکس نکال دیتی ہے۔

ہمارے نیویارک کے ہوٹل سے البنی کا فاصلہ تین گھنٹے بتایا گیا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ البینی نیویارک ریاست کا صدر مقام ہے جب کہ ہم پندرہ بار امریکا آنے کے باوجود اب تک یہ کریڈٹ نیویارک شہر ہی کو دیتے چلے آرہے تھے۔ یہاں یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ غزالی ٹرسٹ کی طرف سے برادرم ڈاکٹر اشتیاق گوندل کو ہمارا شریک سفر اور پروگرام منیجر ہونا تھا جنھوں نے حج سے واپس آکر ایک دن بعد ہمیں نیویارک میں جائن کرنا تھا مگر ان کی علالت کی وجہ سے یہ ذمے داری برادرم وقاص انجم جعفری کو اٹھانا پڑی جو 24 گھنٹے کے نوٹس پر قطر ایئرویز کی فلائٹ لے کر 7 ستمبر کو شام بمشکل پہنچ پائے۔ یعنی انھیں جیٹ لیگ کے دوران ہی اگلا سفر کرنا پڑا اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ اب مواصلاتی رابطے بہت بہتر اور تیز رفتار ہوگئے ہیں مگر ایک دن کے لیے ہی البینی کے ہوٹل بیسٹ ویسٹرن والے ہمیں 33 برس قبل کے پہلے امریکی دورے کی فضا میں واپس لے گئے کہ جب کالنگ کارڈ کے ذریعے کئی کئی بار کی کوشش کے ذریعے گھر والوں سے رابطہ ہوتا تھا۔

ہوا یوں کہ ہوٹل والوں کا وائی فائی سسٹم کسی نامعلوم وجہ سے ایسا بگڑا کہ ہماری وہاں سے روانگی تک بحال نہ ہوسکا جو فی زمانہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں تقریباً ایک ناممکن سی بات ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ واٹس ایپ کے ذریعے قائم ہونے والا پاکستان سمیت عالمی رابطہ ایک دم ٹھپ ہوگیا اور ایک بار پھر یہ اندازہ ہوا کہ ٹیکنالوجی نے کس بری طرح سے آج کے انسان کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ البینی میں پاکستانی کمیونٹی تقریباً دس ہزار کے قریب ہے۔ سو پروگرام میں خوب رونق رہی۔

اگلا ’’پڑاؤ‘‘ نیوجرسی تھا جہاں کئی بار جانا ہوچکا تھا کہ ’’اپنا‘‘ کے مشاعرے اور اردو ٹائمز والے خلیل الرحمن کی دو ادبی کانفرنسوں کے علاوہ میاں عبدالشکور کے الفلاح اسکالر شپ اور غزالی والوں کے فنڈ ریزر کے حوالے سے بھی یہاں کے احباب سے ملاقات رہی ہے مگر سب سے زیادہ پکا اور مستقل حوالہ برادرم کیپٹن خالد شاہین بٹ کا ہے۔ جن کا دفتر اور ریستوران تو نیویارک میں تھے مگر رہائش نیوجرسی میں تھی۔

گزشتہ کچھ عرصے سے وہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے نمائندے کے طور پر اوورسیز پاکستانیوں کے معاملات کو غیر معمولی کامیابی سے چلارہے ہیں۔ سو اب ان کا زیادہ وقت پاکستان میں ہی گزرتا ہے۔ اس اعتبار سے گزشتہ بیس برس میں یہ پہلا موقع تھا جب ہم ان کی پرخلوص میزبانی سے محروم رہے۔

دوسری غیر حاضری ہیلپنگ ہینڈ کے نمائندے ثاقب عتیق کی تھی جو گردے کی بیماری کے باعث اسپتال میں ایڈمٹ تھے اور جن کا محبت کا نام خالد مسعود نے آقائے مشکوک رکھا ہوا ہے ان کی کمی اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوئی کہ ان کا جونیئر اسٹاف اپنی ناتجربہ کاری کے باعث تقریب کا صحیح طرح سے انتظام نہ کرسکا اور اگرچہ ادارے کے بہت سینئر عہدیدار شاہد حیات صاحب ڈیٹرائٹ سے خاص طور پر خود وہاں پہنچے مگر محفل جم نہ پائی جس سے اندازہ ہوا کہ ادارے کتنے بھی مضبوط کیوں نہ ہوں ان کی اصل قوت ان کو چلانے والے افراد ہی ہوتے ہیں۔ تقریب چونکہ ہمارے ہوٹل کے ہال میں ہی تھی اس لیے دو تین گھنٹے آرام کا موقع بھی مل گیا۔

سفیر پاکستان برادرم اعزاز احمد چوہدری اور سفارت خانے کے بہت سے افسران شریک محفل ہوئے۔ یہ تقریب بلاشبہ اب تک کی دونوں تقریبات سے ہر اعتبار سے بہت بہتر تھی۔ تمام سیٹس پہلے سے فروخت ہوچکی تھیں جب کہ پچاس سے زیادہ لوگوں کے لیے فوری اور اضافی انتظام کرنا پڑا اور یوں تقریب کے دونوں حصے یعنی غریب بچوں کے لیے فنڈریزنگ اور مشاعرہ ایک سے ایک بڑھ کر کامیاب رہے۔

مشاعرے کی نظامت فرخ سہیل گوئندی کی بہن اور میری اردو سائنس بورڈ کی شریک کار بینا گوئندی نے کی جب کہ حال ہی میں امریکا شفٹ ہونے والی عزیزہ نورین طلعت عزیز نے بھی اپنا خوب صورت کلام سنایا۔ سامعین کی مسلسل فرمائشوں کی وجہ سے مجھے اور انور کو معمول سے زیادہ پڑھنا پڑا اور اس سفر میں پہلی بار ہمیں بھی سنانے کا لطف آیا۔ دوپہر کا کھانا سفیر پاکستان کی رہائش گاہ پر تھا جو کسی زمانے میں پاکستان کا سفارت خانہ ہوا کرتی تھی ان سے ادب کے ساتھ ساتھ پاک امریکا تعلقات کے بعض اہم پہلوؤں پر بھی گفتگو ہوئی۔ جو پر لطف ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد معلومات افزا بھی تھی اور کم از کم میرے لیے یہ بات ایک اطلاع تھی کہ امریکا میں صدر کا براہ راست انتخاب تو چار سال کے بعد ہی ہوتا ہے مگر وہاں کی پارلیمنٹ کی مدت دو برس ہے۔

اب چاہے کوئی ممبر بیس سال تک اس کا ممبر رہے مگر اسے ہر دو سال بعد دوبارہ منتخب ہوکر آنا پڑتا ہے۔ ورجینیا سے واشنگٹن کا درمیانی فاصلہ بیس میل کے لگ بھگ ہے اور غالباً ان کی سرحدوں کو دریائے پوٹامک کے کنارے ہی متعین کرتے ہیں۔ ایئرپورٹ کے راستے میں سعودی عرب کی بنائی ہوئی پہلی مسجد میں رک کر ظہر اور عصر کی نماز پڑھی گئی۔ معلوم ہوا کہ اس کے لیے قالین شاہ ایران نے فراہم کیے تھے اور اس کی تکمیل 1949ء یعنی 1378 ہجری میں عیدمیلادالنبی کے روز ہوئی تھی۔

امریکن ایئرلائن کی پرواز نے واشنگٹن سے ساڑھے پانچ بجے ٹیک آف کرکے تقریباً آٹھ بجے لاس اینجلس پہنچنا تھا۔ مگر اصل میں اس کا دورانیہ ساڑھے پانچ گھنٹے کا تھا کہ بیچ میں تین گھنٹے وقت کا فرق بھی پڑتا ہے یعنی اب ہم وقت کے اعتبار سے پاکستان سے پورے بارہ گھنٹے پیچھے ہوجائیں گے۔ افسوس کہ یہ فرق صرف وقت کے الٹ پھیر تک محدود ہے اور اس کا کوئی تعلق دونوں ملکوں کی ترقی سے نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے