قبائلی عوام اور پاکستان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان،پاکستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی میں پاکستان کے بارے میں ہرزہ رسائی کے بعد جمعہ کو پاکستانی حدود میں قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں ڈرون حملہ کیا گیا،ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں کئے جانے والے اس پہلے ڈرون حملے میں حقانی گروپ سے تعلق رکھنے والے تین افراد کی ہلاکت کا دعوی کیا گیا ہے۔ کرم ایجنسی وفاق کے زیر انتظام یہ قبائلی علاقےیعنی فاٹا کا حصہ ہیں جس کے قبائلی عوام کودہائیوں سےلاقانونیت،ناانصافی اورعد مسا و ا ت کا نشانہ بننے کی وجہ سے مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سینیئرصحافی دوست سلیم صافی نے روہنگیا مسلمانوں سے تشبیہہ دے ڈالی ہے۔ یہ وہی فاٹا ہے جسے عملی طور پر پاکستان کا حصہ بنانے کیلئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم کی گئی اصلاحات کمیٹی نے ایک سال قبل اپنی رپورٹ میں خود اعتراف کیا تھا کہ نائن الیون کی پاداش میں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد فاٹا ایک باغی علاقے کے طور پر ابھرا ہے،اسی علاقے کو دہشت گردوں کی تربیت اور ان کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی کے باعث پاکستان اور عالمی امن کیلئے خطرہ بھی قرار دیا گیا،اس رپورٹ میں یہاں تک کہا گیا کہ فاٹا نے پاکستان کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے اس لئے جامع اصلاحات کے تحت اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کر کے قومی دھارے میں شامل کیا جانا ضروری ہے۔ حالیہ مردم شماری کے عبوری نتائج میں فاٹا کی آبادی کو پچاس لاکھ ظاہرکیا گیا ہے۔

افغانستان سے ملحقہ 27 ہزار 200 مربع کلومیٹر پر محیط شمال مغربی علاقہ فاٹا بنیادی طور پرسات ایجنسیوں باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل ہے، پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت،ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان اضلاع سے متصل چھ قبائلی علاقے بھی فرنٹیئر ریجنز کے نام سے فاٹا کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ سویت یونین اور برطانوی راج تک اس علاقے کو زیر تسلط لانے کیلئے ان گنت مہم جوئی اور قبائلیوں کی مزاحمت تاریخ کا حصہ ہیں۔ برطانوی راج نے قبائلی عوام پر اپنا تسلط مضبوط بنانے کیلئے ایجنسیاں قائم کیں اور 1878 میں پہلی بار خیبر ایجنسی وجود میں لائی گئی،اس کے بعد 1892 ءمیں کرم ایجنسی جبکہ مالاکنڈ،ٹوچی اور وانا کے نام سے 1896 ءمیں ایجنسیاں قائم کی گئیں۔ ایک فرد کی سزا پورے قبیلے کو دینے کا کالا قانون فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز(ایف سی آر) بھی برطانوی راج میں پہلی بار 1876 ءمیں نافذ کیا گیا اور انتظامی افسران کی گرفت اور مضبوط کرنے کیلئے 1901ءمیں نظر ثانی شدہ ایف سی آرلاگو کرتے ہوئے شمال مغربی سرحدی صوبہ تشکیل دیا گیا۔ انتظامی امور کو فرد واحد کے ذریعے بروئے کار لانے کی آمرانہ سوچ نے پولیٹیکل ایجنٹ کے عہدے کو متعارف کرایا۔ قبائلی عوام کی بد قسمتی تو یہ رہی کہ قیام پاکستان کے وقت انہوں نے توایک مفاہمت کے ذریعے خود کو وطن عزیز میں شامل کردیا لیکن حکومتیں آتی اور جاتی رہیں،قبائلی عوام کو عملی طور پر پاکستانی کا حصہ نہ بنایا گیا، استعماری دور کے نظام کو برقرار رکھتے ہوئے قبائلی ایجنسیوں کے امور کو پولیٹیکل ایجنٹ کے ذریعے ہی چلایا جاتا رہا۔ فاٹا میں عمل داری کیلئے کبھی فاٹا ریگولیشن متعارف کرانے کاتجربہ کیاگیا تو کبھی پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2015ءکے ذریعے وقت گزارو پالیسی اختیار کی گئی۔ ذوالفقار بھٹو کے دور میں جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرنے سے فاٹا سیکرٹریٹ کے طویل مدتی منصوبے کی تیاری تک مجموعی طور پر 13بار اصلاحات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن قبائلی عوام کو ان کا حق نہ مل سکا۔ فاٹا کوخیبر پختونخوا میں ضم کرنے کیلئے وفاقی کابینہ نے چھ ماہ قبل مارچ میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں قائم فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری دی تو انہی صفحات پہ تحریر کیا تھا کہ خدارا اس بار قبائلی عوام کی امید کا دیا بجھنے نہ د پاجائے۔ افسوس کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف ایک بار پھر مصلحتوں کا شکار ہو کر مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی باتوں میں آگئے۔ پہلے دو ماہ قانون سازی کو موخر رکھا گیا اور جب فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ نے دھرنے کی دھمکیاں دیں تو سفارش کردہ جامع قانون سازی کی بجائے قومی اسمبلی میں صرف قبائلی رواج ایکٹ پیش کر کے قبائلی عوام کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کی کشش کی گئی۔ اس بل کو بھی قائمہ کمیٹی کے سپرد کر کے حکومت پاناما میں کھو گئی۔ فاٹا کو دہشت گردوں سے پاک کرنے والی مسلح افواج کے سربراہ نے فاٹا اصلاحات پر عمل درآمدکیلئے قائم کی گئی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں اس عمل کوتیز کرنے کی ضرورت پر زوردیا اور فیصلہ کیا گیا کہ قبائلی عوام کو غلامی میں جکڑنے والے قانون ایف سی آر سے فوری نجات دلائی جائے گی۔ اسی فیصلے کی روشنی میں وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ اوراسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار فاٹا تک وسیع کرنے اور ایف سی آر کے خاتمے کیلئے ایک نئے قانون کے مسودے کی توثیق کرتے ہوئے اسے فوری طورپر پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی۔اس بل کو جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں پیش بھی کر دیا گیا ہے جبکہ اسے مزید جائزے کیلئے قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کو بھجوا دیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ نے آئین کے آرٹیکل 247 کے تحت ریگولیشن ایکٹ کے ذریعے ملک بھر کی طرح فوجداری اور دیوانی تقریبا ڈیڈھ سو قوانین کوفاٹا میں بھی نافذ کرنے کی منظوری دی۔ قبائلیوں کو اس نئی پیش رفت پر بھی متعدد تحفظات ہیں اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے بلائی گئی اے پی سی میں انہوں نے ایک بار پھر فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے اور فاٹا اصلاحات پر مکمل عملدرآمد کرنے کا مطالبہ دہرایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ سماعت کو قبائلی علاقوں تک وسعت دینے اور ایف سی آر کے خاتمے سے قبائلی عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن ہو جائے گا۔

یہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے کی طرف پہلا قدم ہے جس کا انہیں خیر مقدم کرتے ہوئے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کیلئے جدوجہد جاری رکھنی چاہئے۔ بے شک فاٹا اصلاحات میں سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیارفاٹا تک بڑھانے کی سفارش کی گئی تھی تاہم بعض قانونی اور آئینی پیچیدگیوں کے باعث فی الحال اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ اختیاربڑھایا جا رہا ہے جسے فاٹا کے کے پی میں انضمام کے بعد پشاور ہائی کورٹ سے تبدیل کردیا جائے گا۔ فاٹا میں سماجی اور اقتصادی ترقی کیلئے دس سالہ ترقیاتی منصوبے کی بھی منطوری دی جا چکی ہے تاہم اس پر فوری عمل درآمد کا آغاز ضروری ہے جس کے تحت فاٹا کو وفاقی قابل تقسیم پول میں دستیاب وسائل سے سالانہ تین فیصد یعنی 90 ارب روپے فراہم کئے جانے ہیں جو کہ موجودہ 21 ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے الگ ہوں گے۔اسی دس سالہ ترقیاتی منصوبے پر عمل درآمد کیلئے گریڈ بائیس کے چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی بھی اصلاحات میں شامل ہے۔ پانچ سالہ عبوری عرصے کے دوران تمام آئی ڈی پیز کی واپسی،تعمیرنو،بلدیاتی اداروں کے قیام،قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصا لیویز کی استعدادکارمیں اضافے،کمپیوٹرائزڈ زمینی ریکارڈ کی تیاری،ایف سی کو سرحدی انتظام کیلئے مزید مضبوط کرنے جیسے کٹھن اقدامات شامل ہیں۔ان تمام اقدامات کے بعد ہی فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کیلئے آئینی طور پر تیار کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ اوراسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ فاٹا تک بڑھانے اور ایف سی آر کے خاتمے کے ذریعے وفاقی حکومت نے عسکری حکام کے ساتھ تفصیلی مشاورت کے بعد فاٹا اصلاحات پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جو بہت خوش آئند ہے۔تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم فوری طور پر قبائلی عوام کے نمائندوں کو اعتماد میں لیں تاکہ وہ ان اقدامات پر شک کرنے کی بجائے فاٹا اصلاحات پرعمل درآمد کیلئے وفاقی حکوت کے ہاتھ مضبوط کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے