سر رہ گزر …خود مختاری پر ڈرون حملے؟

آزادی کا مطلب خود مختاری ہے، اگر آزاد ہو کر بھی ہماری سرزمین پر بن بلائے کوئی امدادی کارروائی کرے تو بھی یہ قابل قبول نہیں، ہم تفصیل میں، مجبوریوں، نالائقیوں کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے مگر امریکی ڈرون حملے کسی طور بھی روا نہیں، حکومت پاکستان کیوں نہیں کہہ سکتی کہ آئندہ اگر امریکی ڈرون نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو اسے موقع پر ہی گرا دیا جائے گا اور پوچھنے کی بھی کیا ضرورت ہے، آخر سی آئی اے کون ہوتی ہے جو ڈرون حملوں میں توسیع کا مطالبہ کر رہی ہے، کم از کم اب تو ہمارے حکمراں اتنی ہمت اور جرأت پیدا کریں کہ وہ کسی کی زمینی، فضائی، بحری مداخلت کو فی الفور روک سکیں، اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو ہماری نئی نسل جس کے سامنے ہم آزادی و خود مختاری کے دعوے کرتےہیں، احساس غلامی کا شکار ہو جائیں گے، جب پاکستان کی فوج ایک فعال مشاق اور مکمل فورس ہے، اور اس نے دہشت گردی کوشکست دے دی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ امریکہ دہشت گردوں کے تعاقب کے بہانے پاکستان کو اپنے لئے افغانستان بنانا چاہتا ہے۔ ہماری دانست میں امریکی عزائم کچھ اور ہیں۔ بلکہ دہشت گردی کا موجد وہ خود ہے، امریکہ پہلے کہیں ایسے حالات پیدا کرتا ہے اور پھر مرہم پٹی کے لئے اندر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ کامیاب آپریشن پاک فوج کر رہی ہے پھر بھی پاکستان نے امریکہ سے عسکری مدد نہیں مانگی تو یہ آئے دن ڈرون ہماری فضائوں میں کیوں داخل ہوتے ہیں، اس طرح ہماری بہادر افواج کی ساکھ پر بھی حرف آتا ہے کیا امریکہ ہمارے لوگوں کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کی ہمیں ضرورت ہے۔
اچھا ہوا امریکہ پہچانا گیا
اخبارات دیر سے ملے، ہم امریکی ڈرون حملوں پر لکھ چکے تھے مگر جب یہ خبر پڑھی کہ پاکستان کے خلاف اقدامات، امریکی تیاریاں، غیر نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کر کے دہشت گردی کا پشت پناہ قرار دے کر امداد میں مزید کمی، کچھ حکام پر پابندیوں، یکطرفہ ڈرون حملوں کے لئے مشورے تو خدا شاہد ہے تن بدن میں آگ لگ گئی، کام بھی لے لیا، معاوضہ بھی بند کر دیا، اور معاوضہ تو وہ کیا دیتا زبانی شاباش کے بجائے دہشت گردی کا پشت پناہ بھی قرار دے دیا اب امریکہ کی بغل میں بھارت بیٹھ گیا ہے، اور وہ یہود و ہنود جیسی حرکتوں پر اتر آیا ہے، ٹرمپ کی آمد ہی دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کرنے کے لئے ہوئی ہے، اب بھلا اسی میں ہے کہ پاکستان ایک ایسا بلاک بنائے جس میں اس کے دوست اور امریکہ کے ’’گُجے‘‘ دشمن بھی شامل ہوں، اس خطے میں امریکہ مخالف جذبات کی کمی نہیں، ذرا سی قومی غیرت و حمیت کو بروئے کار لایا جائے تو بڑی آسانی سے امریکہ کو طالع آزمائی بلکہ پنجہ آزمائی میں ناکوں چنے چبوائے جا سکتے ہیں، یہی موقع ہے جو خود امریکہ نے اپنے مشیرمودی کے کہنے پر پاکستان اور اس جیسے متاثرین امریکہ ممالک کو فراہم کر دیا ہے، لوہا گرم ہے اسے ایک بلاک میں ڈھالنا مشکل نہیں، امریکہ بھی بھارت ٹائپ کا ڈھول ہے تھپڑ کھا کر بجتا ہے، آج کا امریکی بیان پڑھنے کے بعد اب سارے لحاظ، سارے عہد و نیاز اور ہماری دوستی کے سارے دلبرانہ انداز ختم، امریکہ کے پاس ہمیں دینے کو کچھ نہیں، اس نے آج تک ایک ہی کام کیا ہے کہ پاکستان کو آگے نہیں بڑھنے دیا، کیا احمق تھے ہمارے وہ حکمراں جنہوں نے امریکہ کا فرسٹ لائن اتحادی بننے کی حماقت کی، پاکستان کسی ڈرون کو اڑنے سے پہلے گرائے، راستے بند کرے، دیکھتے ہیں اس کے یہ کم ظرف اتحادی اسے کہاں سے گزار کر اس خطے میں آنے دیتے ہیں۔
٭٭٭٭
دردِ دل دردِ دانت
دردِ دل تو کچھ شاعرانہ سا درد ہے، جو شوقیہ پیدا کیا جاتا ہے، اور اس کے لوازمات سے لذت یاب ہوا جاتا ہے، مگر یہ دردِ دانت تو خالص زمینی حقیقت ہے بلکہ کسی قدر کمینی بھی، کہ اس کی ہر ٹیس بڑی درد ناک ہوتی ہے اور اس پر کوئی ٹوٹکا کوئی منتر کوئی ورد بھی اثر انداز نہیں ہوتا،
دردِ دانت بھی دردِ دل میں شامل کر لو
اور بڑھتا ہے درد میں جب درد ملے
انسان کے دانت میں درد ہو اور ایسے میں یار بیمار پرسی کو آ جائے، اور تیمار داری پر بھی اتر آئے تو پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں حسرت لئے اسے دیکھ کر دل ہی دل میں یوں کہتے ہیں؎
تماشا کرو، محو ’’تیمار داری‘‘
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
زندگی میں پہلی بار دانت کے درد سے ٹاکرا ہوا، نگوڑے نے آنے کی خبر بھی نہ دی، اور غم یار کی طرح اچانک یوں دہن میں گھس کر بیٹھ گیا کہ بات بھی تو اشاروں سے کی، اپنا پورا مائوتھ پیس پھوڑا سا بن گیا ہے اور رات بھر پکتا رہا، ایسے میں فراز کے لئے اشاروں ہی میں دعائے مغفرت کی کہ اس نے شاید دانت درد کی شدت میں کہا ہو گا؎
یہ دہن زخم کی صورت ہے مرے چہرے پر
یا اسے بھر یا طاقتِ گویائی دے
بہرحال آج لفظ لفظ، درد درد ہے، ہم نے آخری ٹوٹکا بھی آزمایا کہ اپنے لان میں کھڑے نیم کے پتے بھی چبا لئے، درد ایسا کہ نیم کی کڑواہٹ کو بھی حلقہ 120کی شکست کے مشابہ بنا دیا، دوست تو دوست، دشمن کو ماسوا بھارت یہ ضرور ہو جو دانت تو کجا ہمارے پورے وجود کا دشمن ہے۔
٭٭٭٭
حلقہ 120، جیت ہار قریب قریب!
….Oچوہدری شجاعت:ن لیگ جیتے یا ہارے نواز شریف واپس نہیں آئیں گے۔
یہ اطمینان ظاہر کرتا ہے کہ پرانے سیاسی کھلاڑی نے واقعی مٹی ڈال دی ہے۔ اب کوئی بھی مرزا یار کھلا ڈُلامٹر گشت کر سکتا ہے۔
….Oمریم نواز:نواز شریف نیب کورٹ میں پیش نہیں ہوں گے گرفتار کرنا ہے تو کر لو۔
گویا وہ اب واپس نہیں آئیں گے؟
….Oوزیراعظم اور ڈار لندن پہنچ گئے ،
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا!
….Oحلقہ 120میں کانٹے دار مقابلہ،
بلا فکر نہ کرے بعض اوقات ہار بھی جیت ہوتی ہے،
….Oامریکہ کی پاکستان پر سخت پابندیوں کی تیاری۔
پاکستان امریکہ پر سخت ترین پابندیوں کی تیاری کرے، ورنہ مودی آگے آگے اور بینڈ ماسٹر ٹرمپ پیچھے پیچھے۔
….Oحلقہ 120کتنا ہلکا تھا اب کتنا بھاری ہو گیا، بہرحال اس حلقے کی یہ اہمیت اور اس کے بارے یہ تشویش ہی فریقین کی ہار ہے، چاہے کوئی ایک جیت بھی جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے