سر رہ گذر ……. تعلیم اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ

پارلیمانی سیکرٹری نے پنجاب اسمبلی میں اعتراف کیا کہ کالجوں، یونیورسٹیوں میں 3ہزار سے زائد اسامیاں خالی پڑی ہیں، اس پر ن لیگ کے غیاث الدین نے کہا، اگر یہ حال ہے تو پنجاب میں تعلیم کا اللہ ہی حافظ ہے، اسی سیشن کے دوران پی ٹی آئی کے محمود الرشید نے کہا:بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا بم عوام پر گرا دیا۔ آخر یہ اضافے کا بم کہیں تو گرانا تھا، اس لئے پورے پنجاب میں گرایا گیا، اس لئے عوام، خواص کی بات نہیں، اصل بات تو یہ ہے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کا بم فوری طور پر گرایا گیا، چونکہ غریب عوام کی چھت کمزور اور امیر عوام کی چھت مضبوط ہوتی ہے اس لئے غریب کو بم موصول ہو جاتا ہے، امیر بل کے لئے دل خراب نہیں کرتا اپنا پھولا ہوا والٹ کھولتا ہے ملازم کو رقم اور بل پکڑاتا ہے کہ ہمارے شایان شان آیا، خدایا تیرا شکر ہے کہ مجھے کسی غریب کی صف میں کسی ایاز کے ساتھ کھڑا ہونے سے بچا لیا، یہ لذتیں صرف ہمارے ہاں دستیاب ہیں ورنہ امیر ملکوں کے امیروں کو تو دولت پا کر بھی کوئی دولتی مارنے پر آمادہ نہیں ہوتا چہ جائیکہ اسے بنظرِ حسرت دیکھے، وہاں کے غریبوں کو جمعہ کی شام ہفتہ وار معاوضہ جب مل جاتا ہے تو یوں نعرئہ مستانہ بلند کرتا ہے کہ جیسے اسے دو جہاں مل گئے ہوں، وہاں حکمرانی میں بھی چنداں سواد نہیں، وزیر نگلیا تے ککھ نہ ہلیا، یہ مزے تو ہمارے ہاں ملتے ہیں کہ اکثر بڑے بڑے کالم نگار ایک لڑکے وزیر کی خوش گفتاری کے گن گاتے ہیں، اس لئے کہ وہ وزیر صاحب چاکری کا ہنر جانتے ہیں، سمجھ نہیں آتی کہ قلم کا قصور ہے یا صاحب قلم کا، بہرحال پاکستان میں وزیر بننے کا اپنا ہی مزا ہے کہ جسے کوئی وصف کے نہ ہونے کے باعث پوچھتا تک نہیں جونہی حلف اٹھاتا ہے، بعض کانے قلم بھی اٹھ جاتے ہیں، اور خوشامد کی دوات میں ڈبو ڈبو کر بانقطہ جملے کسی بھی وزیر کی تعریف میں لکھ دیئے جاتے ہیں تاکہ قیامت کے روز سند رہیں۔
وما علینا
چوہدری شجاعت حسین:اسحاق ڈار خزانہ ساتھ لے گئے، نیا وزیر کیا مکھیاں مارے گا، خزانہ تو وہی ہے کہ جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا، البتہ خزانہ کے اندر جو موجود ہوتا ہے اسے لے اڑنے والے جب سابق ہو جاتے ہیں تو وہ خزانے پر بیٹھے ہوئے خالی خولی پھنکاریں مارتے ہیں، ہمارا خزانہ تو خزاں کا موسم ہےکہ قوم پر اس کے ہوتے ہوئے کبھی بہار نہیں آتی، اسحاق ڈار بڑے اپڈیشک ہیں اپنے ذرائع سے معلوم کر لیا کہ پیچھے ان کے لئے کیا کچھ کا اہتمام ہو چکا ہے، اس لئے وہ وہیں لندن میں اور ان کے اثاثے وطن میں منجمد ہو گئے، اور باقی حضرات و خواتین بھی نقطۂ انجماد پر پہنچنے کے باوجود وطن عزیز کو مطلوب ہیں، اس وقت لندن میں ایک انار کے گرد سو بیماروں کا ہجوم ہے، اور یہاں ہر پاکستانی ایک حقیقی بیمار کے لئے لب بہ دعا ہے، اور ان شاء اللہ یہ دعائیں رائیگاں نہیں جائیں گی بیمار کو افاقہ ہو چکا ہے، وقت اصل موضوع تک جانا قضا ہو جاتا ہے کہ راستے میں کتنے ہی خوبصورت مندر نظر آ جاتے ہیں اور ہم دیویوں دیوتائوں کی پراتھنا میں اس طرح محو ہو جاتے ہیں کہ میخانے کا راستہ بھی بھول جاتے ہیں، صنم ہائے بتکدہ تھوڑے تو نہیں ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں، مسلم لیگ قاف کبھی چوہدری برادران کی مشرف لیگ ہوا کرتی تھی اب وہ کوہ سے اتر کر قاف کی قاش کو چپکے، چپکے چپکے، حکمرانوں کو کھجلاتے رہتے ہیں۔
آواز سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا
کتے بھونکتے رہتے ہیں مگر قافلے چلتے رہتے ہیں، ٹرمپ کی تقریر پر شمالی کوریا کا ردعمل ٹرمپ نے اگر یہ جملہ سنا تھا تو کاش وہ امریکہ کے صدر نہ بنتے، مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے، ہم نے تو یہ کہاوت بھی سنی ہے کہ کتوں کو بلائیں نظر آتی ہیں تو وہ بھونکتے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ شمالی کوریا کا قافلہ کسی ہولناک جنگ کا باعث ہے، اگر وہ اپنے طور پر اپنے لوگوں کے لئے بہتری ترقی اور عروج کی منزل پانا چاہتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے، جب دنیا میں دو سپر طاقتیں ہوا کرتی تھیں تو ایک توازن بہرحال موجود تھا، سوویت یونین کو ختم کرنے کے لئے امریکہ نے پاکستان کا کاندھا استعمال کیا تھا، مگر تب سے اب تک امریکہ ہی ہم سے ڈو مور کا تقاضا کر رہا ہے، مگر ہمارے ہاں نہ کبھی ڈرون گرایا گیا اور نہ کبھی نومور کہا گیا، نتیجہ یہ ہے کہ ہم نے جب کہا انکل سام! بزم ناز چاہئے غیر سے تہی تو اس ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں، جب کوئی پھول کو دھاگے میں پروتا ہے تو کچھ پتیاں گر جاتی ہیں ہم نے بھی غالب کے ساتھ ستم ظریفی کی کہ ان کے شعر کو اپنی تحریر میں سمویا تو اس کے مصرعوں سے کچھ انگ الگ ہو گئے، بہرحال دیوان موجود ہے اور رسائی کا حق بھی سب کو حاصل ہے شمالی کوریا کا کارواں ٹرمپ صاحب چلنے دیں، اس کا امریکہ کو فتح کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، ویسے بھی اکلوتی سپر پاور کو زیب نہیں دیتا کہ کوریا کے ایک ٹکڑے سے اس کا صدر ہل جائے اور ایک دم اس کا حقہ پانی بند کرنے کا ڈھنڈورا پیٹنے لگے، ٹرمپ اپنی ٹانگ امریکہ تک محدود رکھیں شمالی کوریا کے معاملات میں نہ ہی اڑائیں کہیں وہ بیساکھی صدر بن کر نہ رہ جائے، ویسے زمانہ بدل رہا ہے، ایک ریڑھی والا گاڑی والے سے کہہ دیتا ہے لینا ہے تو لو ورنہ آگے بڑھو یہ تو پھر بھی ایک ملک ہے، شمالی کوریا کے عوام نے اپنے سربراہ حکومت پر کوئی اعتراض نہیں کیا پھر سپر پاور کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے اچھی خاصی دھونس ہے یہ بھی جاتی رہی تو ڈونلڈ ٹرمپ کا کچھ بگڑے نہ بگڑے بے گناہ معصوم امریکیوں کو شمالی کوریا کہیں کاٹ نہ لے، شمالی کوریا یوں ہی نہیں اونچا اڑ رہا کوئی ہوا ہے جو اسے اونچا اڑاتی ہے۔
موسیقی کانوں کی غذا ہے
….Oمریم اورنگزیب:کئی برس گزر جانے کے بعد بھی میڈم نور جہاں سُروں کی ملکہ ہیں،
اللہ تعالیٰ غریق رحمت کرے ملکہ ترنم آج بھی اپنے گائے ہوئے گیتوں کے حوالے سے یاد آتی ہیں، اب ان کو دعائے مغفرت کی ضرورت ہے۔
….Oجامعہ کراچی سے انصار الشریعہ کے مزید 3دہشت گرد گرفتار۔
دینی مدارس بلاوجہ دہشت گردی کے لئے بدنام ہیں، دہشت گردی دینی نہیں دنیوی درس گاہوں میں پلتی ہے، اب یوں کہا جائے کہ یونیورسٹیوں کے نصاب پر نظرثانی کی جائے، دینی مدرسوں یا یونیورسٹیوں میں دہشت گردی نہیں پڑھائی جاتی، حقیقت تو یہ ہے کہ دہشت گرد کہیں بھی ہو سکتا ہے اس لئے کسی ایک ادارے پر الزام دھرنا روا نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے