کاش اے کاش

ہزار بار آپ کا تجزیہ غلط ثابت ہوا۔ حیرت ہے کہ آپ لوگ سوچتے کیوں نہیں۔ ہر بار بہت جانفشانی سے بڑھیا کی طرح سوت کاتا اور ہر بار ادھیڑ کر پھینک دیا۔ کاش‘ اے کاش!
تحریکِ انصاف پہ حافظ سلیمان بٹ کی ایسی یلغار؟۔ پی ٹی آئی کے جلسوں کا ماحول شائستگی مجروح کرتا ہے۔ مگر کیا وہی ذمہ دار ہے؟ سلمان بٹ مردانہ وجاہت کا نمونہ تھے‘ چھا جانے والی گھن گرج۔ جذبات پہ مگر قابو نہیں۔ ایک بار محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر کے بارے میں ایسا جملہ کہہ دیا کہ شہر سکتے میں تھا۔
اپنے کارکنوں کی تحریک انصاف نے تربیت نہ کی۔ قال اللہ اور قال الرّسول کی گردان کرنے والے‘ اگر اس قدر نچلی سطح پر اتر آئیں؟
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے‘ وہی مال ندارد
مسلسل ناکامی‘ توڑ پھوڑ دیتی ہے؟ ایک اور المیے کا اشارہ بھی اسی میں ہے‘ خبطِ عظمت اور زُعمِ تقویٰ۔ خود تنقیدی جو کر نہیں سکتے‘ ان کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ تمام انسان خطار کار ہیں۔ بچتے وہ ہیں‘ اپنی غلطی جو مان لیں۔
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
جماعت اسلامی ایک عام سی پارٹی نہیں۔ 1971ء کے مشرقی پاکستان میں اس کے ایثار کی داستاں‘ ہمیشہ جگمگاتی رہے گی۔ ملاّ کی طرح‘ اشتراکی گروہ بھی جھوٹ گھڑنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ ڈھول پیٹتے رہے کہ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی نے ترقی پسند دانشوروں کو قتل کیا… سفید جھوٹ۔ کوئی ایک بھی وہ ثابت نہ کر سکے۔ فیضؔ نے کہا تھا
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دّھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
سفاک اور منتقم مزاج حسینہ واجد کے عہد میں ایک کے بعد‘ جماعت اسلامی کا دوسرا لیڈر جان ہار گیا۔ کسی نے سجدۂ سہو نہ کیا‘ سر اونچا رکھا۔
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن‘ مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
عہدِ آئندہ کے تیور پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ بھارتی سامراج کی وحشیانہ بھوک‘ ایک دن بنگلہ دیش اور پاکستان کو قریب لائے گی۔ یہ ان کی تقدیر ہے۔ اس روز یہ شہدا سرفراز ہوں گے۔وادیِٔ کشمیر کے خس و خاشاک میں آگ اسی نے بھڑکائی۔ بھارت اس میں جل رہا ہے۔ خود مختار کشمیر کا تصور اسی میں بھسم ہوا۔ سید علی گیلانی سے یہ ناچیز ناخوش ہے۔ ان کا نام لے کر‘ اس عاجز کی کردار کشی کی گئی۔ واقعہ یہی ہے کہ آزادی کی تحریکوں میں ان کا ثانی کوئی نہیں۔ اٹل اور کھرے‘ بہادر اور بے باک۔ ان نادر و نایاب انسانوں میں سے‘ ایک جن کا یقین موت کو حقیر بنا دیتا ہے۔
ہو اگر خود نگرو‘ خود گرو خود گیرِ خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
قربانی سبھی نے دی۔ اس شعر کے مصداق مگر علی گیلانی ہیں۔
کار آفریں‘ کار کشا‘ کار ساز
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
کون دوسرا ہے‘ جو جان ہتھیلی پہ رکھ کے جیا ہو۔ آتش و آہن کے طوفانوں میں‘ جس نے کبھی آنکھ نہ جھپکی ہو۔ عہدِ جاہلیت کے عرب شاعر‘ کسی خیرہ کن قادرالکلام سے مسحور ہو جاتے تو ازراہِ اکرام سجدہ کرتے۔ علی گیلانی بھی ایک آدمی ہیں۔ غلطیاں کی ہوں گی اور شاید بہت سی۔ ان کی ستائش میں مگر لفظ کم پڑتے ہیں۔ ایک اور میدان ایسا ہے‘ جماعت اسلامی کو‘ جس پر داد دینا ہی پڑتی ہے۔ یہ فروغِ علم کی دنیا ہے۔ اس وقت جب تعلیم محض کاروبار ہو گئی۔ بعض بعض تو ایسے ہیں کہ والدین کی کھال اتار لیتے ہیں۔ کتنے ہی ادارے‘ ان لوگوں نے قائم کئے‘ جہاں کوئی معاوضہ نہیں یا برائے نام۔ ریڈ کارپوریشن‘ تعمیر ملت فائونڈیشن اور غزالی فائونڈیشن۔ میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ غزالی فائونڈیشن کے اساتذہ کی تربیت میں وہی کورس ہے‘ جو برطانیہ میں۔ اپنی نورِ نظر کو اس مقصد کیلئے مجھے دس ہزار ڈالر بھجوانا پڑے تھے۔
اس کے باوجود سیاسی میدان میں‘ جماعت اسلامی اس قدر پست و پامال کیوں ہے؟ 452 ووٹ‘ خدا کی پناہ 452۔ ایک آدھ نہیں اور ایک آدھ بار نہیں‘ اس قدر ہولناک تباہی‘ پے در پے غلطیوں کے بعد آتی ہے۔ کوئی بھی ناانصاف ہو سکتا ہے مگر انسانوں کا خالق نہیں۔ اس کا فرمان یہ ہے: لیس للانسان الاّماسعیٰ۔ انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے‘ جس کی انہوں نے جستجو کی۔ اور یہ فرمایا کہ اس کی صفت رحم‘ صفت عدل پہ غالب ہے۔ اور یہ ارشاد کیا: تم ہی غالب رہو گے‘ اگر تم مومن ہو۔ سوچتے کیوں نہیں‘ وہ غور کیوں نہیں کرتے؟
جماعت اسلامی کے ایک کارکن نے لکھا ہے: ہمارا پڑھا لکھا دیانت دار امیدوار نہیں ہارا۔ حسنِ اخلاق کا نمونہ ہے۔ ووٹر ہار گئے۔ ارے بھائی کچھ عرصہ پہلے تک اس دیار کا وہ مکین تھا ہی نہیں بلکہ رام گلی کا۔ وہ گلیارہ جہاں میاں محمد شریف مرحوم نے کھرب پتی بننے کا خواب دیکھا تھا۔ اس حلقے میں ان کے شناسا ہی کم تھے۔ سیاست تو نام ہی گھلنے ملنے کا ہے۔ ایثار‘ تحمل‘ تدبر‘ حکمت اور تنظیم کے ساتھ۔
یہی سب سے بڑی خرابی ہے‘ زعمِ تقویٰ۔ ہم اچھے لوگ ہیں‘ لوگ ہماری پیروی کریں۔ خدا کی مخلوق تو پیمبروں پر ٹوٹ کر نہیں گرتی۔ آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔ پے در پے غلطیاں آپ نے کی ہیں۔ سید منور حسن مدظلہ العالیٰ نے فرمایا: حکیم اللہ محسود شہید ہے‘ سینکڑوں بے گناہ جس نے قتل کیے تھے۔ ہزاروں اور لاکھوں کو کاٹ ڈالنے کے آرزومندوں کا جو حبیب تھا۔ اسی پر اکتفا نہیں‘ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے مسترد کر دیا تو اگلے سالانہ اجتماع میں ارشاد کیا:” ملک بھر میں قتال کا کلچر عام کرنیکی ضرورت ہے‘‘۔ غور فرمائیے‘ ”قتال کا کلچر‘‘۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا فتویٰ موجود ہے کہ جہاد صرف ریاست کر سکتی ہے‘ وہ بھی اعلانِ عام کے بعد۔ جماعت اسلامی کے امیر کو معلوم ہی نہ تھا کہ قتال نہیں‘ اصل چیز جہاد ہے اور جہاد کا مطلب‘ اپنے باطن میں پر پھیلاتی تاریکیوں کے خلاف جدوجہد۔ بدبخت خارجی کا خنجر جسم میں اتر ا تو سیدنا علیؓ ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے کہا: فزت برب الکعبہ۔ رب کعبہ کی قسم‘ میں کامیاب ہو گیا۔ اس سے پہلے نہیں۔
سینیٹر سراج الحق بھلے آدمی ہیں۔ بات مگر تلخ ہے اور بہت ہی تلخ۔ ذرا تحقیق کیجئے کہ عصر حاضر کے خارجیوں سے ان کے مراسم ہیں یا نہیں؟۔ معاف کیجئے‘ یہ اس خطّے اور ماحول کا اثر ہے‘ جس میں وہ پلے بڑھے۔ ابھی ابھی جناب امیرالعظیم نے ناچیز کو اسی کا جملہ یاد دلایا‘ ”آدمی اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہوتا ہے۔‘‘
ایک آدھ نہیں‘ سینکڑوں واقعات ہیں۔ لکھوں تو ایک سنسنی خیز کتاب ہو جائے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جناب حافظ ادریس نے وائس چانسلر علاّمہ علائوالدین صدیقی پہ حملہ کیا تو سید مودودیؒ نے کہا تھا: میری عمر بھر کی کمائی انہوں نے برباد کر دی۔ بے گناہ محمد امین نام کے ایک لڑکے کو‘ دو گھنٹے تک جمعیت کے نوجوان بے دردی سے پیٹتے رہے۔ مرحوم خرم مراد کے پاس میں اسے لے گیا۔ سخت صدمے کا وہ شکار ہوئے۔ سب سے بڑھ کر 2007ء میں عمران خان والا واقعہ۔ کوئی اختلاف‘ کوئی مسئلہ اور نہ کوئی تنازعہ۔ اس کے باوجود ایسی بے رحمی‘ اس قدر سفاکی؟ یادیں ہیں کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہیں۔ یوں لگا کہ میرے دونوں ہاتھ اور لباس جاگتے جاگتے سرخ لہو سے بھر گئے۔
اللہ کے آخری رسولؐ سے‘ رحمتہ اللعالمین سے تو یہ کہا گیا: ہم نے آپ کو داروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔ اسلامی تحریکیں ٹھیکیدار کیوں بن جاتی ہیں؟۔ سرکارؐ بشارت دیا کرتے۔ آپ دھمکی دیتے اور تحقیر فرماتے ہیں۔
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں‘ مسلماں ہونا
ہزار بار آپ کا تجزیہ غلط ثابت ہوا۔ حیرت ہے کہ آپ لوگ سوچتے کیوں نہیں۔ ہر بار بہت جانفشانی سے بڑھیا کی طرح سوت کاتا اور ہر بار ادھیڑ کر پھینک دیا۔ کاش‘ اے کاش!
پس تحریر: اگر اندیشہ نہ ہوتا کہ 2007ء کی طرح طعنہ زنی کی برسات ہو گی‘ وقت رائیگاں ہو گا تو شاید اس موضوع پر ایک مقالہ لکھنے کی کوشش کرتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے