پڑھے لکھوں سے ہوشیار رہیں

اپنی ہم عمر خاتون کو آنٹی کہہ کر پکارنا سراسر خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے، خودکش بمباری پہ اگر کوئی تل جائے تو ایسی حرکت سرزد ہو جاتی ہے، مجھ سے بھی ہوگئی، انجانے میں نہیں جانتے بوجھتے ہوئے۔ محترمہ غلط سمت سے موڑ کاٹتی رہی تھیں، میں نے بھی گاڑی سامنے لاکھڑی کی تاکہ انہیں غلطی کا احساس دلایا جا سکے، نہایت بیزاری سے انہوں نے مجھے گزر جانے کا اشارہ کیا جیسے مجھ پہ احسان فرما رہی ہوں، اچھی خاصی ماڈرن، بظاہر پڑھی لکھی خاتون تھی، میں نے بھی جواباً شیشہ نیچے کیا اور ’’تھینک یو آنٹی‘‘ کہہ کر گاڑی نکال لی۔ دل کو ایسی فرحت ملی کہ اب تک سرور ہے۔
دن میں بیسیوں مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ٹریفک کے اشاروں کی خلاف ورزی کرکے دندناتے ہوئے نکل جاتے ہیں مگر مجال ہے کہ ماتھے پہ شرم سے پسینہ آجائے یا انہیں کوئی حیا محسوس ہو یا ندامت کی ہلکی سی جھلک اِن کے چہروں پہ نظر آجائے! اگر کبھی انہیں ٹوکا جائے یا احساس دلانے کی کوشش کی جائے تو جواب میں یہ ایسا رویہ اپناتے ہیں جیسے قانون کی پاسداری کرکے آپ حماقت کے مرتکب ہوئے ہیں وہ نہیں۔ پاکستان کے پڑھے لکھے اور بیوروکریٹک شہر کے سب سے بہترین کلب کی پارکنگ میں معذوروں کی گاڑیوں کے لئے جگہ مختص ہے، مگر کسے پروا ہے، جس پڑھے لکھے کا دل کرتا ہے وہاں گاڑی کھڑی کرتا ہے اور لہراتا ہوا کلب میں داخل ہو جاتا ہے۔ ان کی ڈگری اگر چیک کی جائے تو کوئی کولمبیا یونیورسٹی کا گریجویٹ نکلے گا تو کوئی ایم آئی ٹی کا انجینئر۔ کسی گدھا گاڑی کا ڈرائیور اگر یہ کام کرے تو سمجھ بھی آتی ہے کہ اُس غریب کے دماغ میں ہر وقت یہ سوچ سوار رہتی ہے کہ اگلے وقت کی روٹی کے پیسے کہاں سے آئیں گے مگر اس 20فیصد مراعات یافتہ طبقے کو کیا کہیں جو سوسائٹی کے20فیصدغریبوں کے مقابلے میں پانچ گنا وسائل کھا جاتا ہےمگر پھر بھی زہر اگلتا رہتا ہےاور تھکتا نہیں۔
بات فقط ٹریفک کے قوانین کی نہیں، اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور ایسی تمام باتوں کی فہرست بنا لیں جن پر ہم دن رات کڑھتے ہیں اور اس نظام کو کوسنے دیتے ہیں۔ گندگی، بجلی چوری، ٹیکس چوری، بدتہذیبی، بینکنگ فراڈ، کرپشن، سرکاری اداروں کی نااہلی جتنا چاہیں اس فہرست کو طویل کر لیں اور ساتھ ہی اس بات کا تعین بھی کریں کہ ان مکروہات میں زیادہ حصہ پڑھے لکھوں کا ہے یا ان پڑھ طبقے کا! گردے نکال کر بیچنے والے ڈاکٹروں سے لے کر اربوں کے قرضے معاف کروانے والوں تک اور نااہلی کے اعلیٰ درجے پر فائز سرکاری افسران سے لے کر آئی ٹی کی مدد سے فراڈ کرنے والے نوجوانوں تک، کون ہے جو پڑھا لکھا نہیں! ایک سادہ سا تجربہ کریں۔ کسی بھی شعبے کے ڈگری یافتہ نوجوان کو کوئی کام دے کر آزمائیں، اسے کچھ رقم بطور ایڈوانس دیں اور پھر دیکھیں کیا وہ وعدے کے مطابق کام مکمل کرتا ہے یا آپ کی رقم لے کر غائب ہو جاتا ہے۔ ایک دودھ پیتا بچہ بھی آپ کو اس تجربہ کا انجام بتا دے گا۔ چلیں ملک توڑنے والوں کی ہی ایک فہرست بنا لیں اور وہ تمام نام شامل کر لیں جن پر سچا جھوٹا الزام ہے۔ کیا اِن میں سے کوئی ایک بھی ایسا تھا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھا؟ سب کے سب ایک سے بڑھ کر ایک علامہ اور غیر ملکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل، شیکسپیئر کے ڈراموں کے حافظ، اور نتیجہ کیا نکلا اس ’’تعلیم یافتگی‘‘ کا ملک توڑ کے ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ ایک فہرست ملک کے تمام ڈکٹیٹرز کی کابینہ کے ممبران کی بھی بنائی جا سکتی ہے۔ کوئی ایسا ماہر معاشیات تھا کہ ورلڈ بینک والے بلائیں لیتے تھے تو کسی کے پاس اقوام متحدہ کا اقامہ تھا، کوئی آئی ایم ایف کا داماد تھا تو کسی کی قانون کی ڈگریوں کی تعداد اُن روٹیوں سے زیادہ تھی جو غریب آدمی ایک وقت میں کھا سکتا ہے۔ آئین شکن آمروں کی گود میں بیٹھنے والے یہ سب پڑھے لکھے تھے، ان میں کوئی ان پڑھ نائی، موچی، دھوبی، بھنگی یا خاکروب نہیں تھا۔ دراصل ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ اعلیٰ کالجوں اور جامعات سے ملنے والی سند حاصل کرنے والے انسان تعلیم یافتہ تو ہوتے ہی ہیں مگر ساتھ ہی ان میں آٹومیٹکلی شعور بھی آجاتا ہے۔ اس پڑھی لکھی منطق کی رو سےسرکاری افسران کو مستعد ہونا چاہئے، پڑھے لکھوں کے پوش علاقوں کو صفائی ستھرائی کا ماڈل ہونا چاہئے، یونیورسٹی کے نوجوانوں کو حسن و اخلاق کا پیکر ہونا چاہئے جبکہ عبدالستار ایدھی کو جاہل کہنا چاہئے کہ ان کے پاس کیمبرج یا آکسفورڈ کی ڈگری نہیں تھی۔ تیس برس سے بچوں کو اسلام آباد کے پارک میں پڑھانے والا کوئی ہاورڈ کا سند یافتہ نہیں بلکہ ایک معمولی سکول سے فارغ التحصیل نان گزیٹڈ نوکری پیشہ شخص ہے جو اپنی تنخواہ کا ایک تہائی حصہ اِن بچوں کی تعلیم پر خرچ کر دیتا ہے۔
چلئے ہمارا تو پورا معاشرہ ہی ڈنگر ہے، کیا پڑھے لکھے اور کیا ان پڑھ، سو اپنے محبوب ملک امریکہ چلتے ہیں۔ صدر جارج بش کی قیادت میں جس امریکی کابینہ نے عراق پر حملے کی منصوبہ بندی اس بنیاد پر کی کہ وہاں ایٹمی ہٹھیار ہیں، جو بات بعد میں جھوٹ ثابت ہوئی، اس میں ڈونلڈ رمزفیلڈ، کولن پاؤل، کونڈولیزا رائس اور رابرٹ گیٹس جیسے لوگ شامل تھے۔ کیا اِس سے زیادہ پڑھی لکھی قیادت ممکن ہو سکتی ہے؟ نتیجہ۔ لاکھوں انسانوں کی موت۔ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
جی نہیں، مقدمہ یہ نہیں کہ بچوں کو تعلیم نہ دی جائے۔ اسکول کالج کی تعلیم آغاز ہے، انجام نہیں۔ ڈگری اچھی ہو تو زندگی بہتر گزر سکتی ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان دوستی، شعور، دانائی، شائستگی، ایمانداری اور اخلاق بھی ڈگری کے ساتھ مفت مل جاتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر دنیا میں کوئی مسئلہ باقی نہ رہتا۔ یہ خصوصیات پڑھے لکھے شخص میں بھی ہو سکتی ہیں اور کسی ان پڑھ میں بھی، کوئی بھی فرشتہ نہیں ہوتا، بشری کمزوریاں ہر کسی میں ہوتی ہیں، مگر پڑھے لکھوں پر قانون کی عمل داری اور اخلاق برتنے کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کسی کالج کا نوجوان جب اپنے مخالف نقطہ نظر کے لوگوں کو ماں بہن کی گالیاں دے گا تو اسے ہم شعور نہیں جہالت کہیں گے اور ایسے رویے کا جواز فراہم کرنے والے کو امام الجاہلین۔
اور مقدمہ یہ بھی نہیں تمام پڑھے لکھے لوگ ہی ملک میں ہونے والی تمام خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ بے شک جان بچانے والے ڈاکٹر پڑھے لکھے ہیں اور سرحدوں کی حفاظت پر مامور فوجی بھی، جانفشانی سے کام کرنے والے سرکاری اہلکار بھی پڑھے لکھے ہیں اور سائنسی ایجادات کرنے والے بھی۔ یہ لوگ اگر نہ ہوں تو ملک کا انتظام و انصرام ہی نہ چل پائے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشرے کے ان پڑھ طبقے کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے کہ اُن کی ’’جہالت‘‘ کی وجہ سے نظام میں بہتری نہیں آتی، یہ فرسودہ اور بدبودار دلیل دراصل نظام کو اکھاڑنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے مگر اسے استعمال کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں آئین کی بالادستی کی جدوجہد ہمیشہ ان پڑھ عوام نے کی ہے، پڑھے لکھے تو آمروں کی گود میں انگوٹھے چوستے رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اِن پڑھے لکھوں کا اب نشہ ٹوٹ رہا ہے، عوام کو اِن سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے