جشن منائو پاکستانیو

محب ِوطن پاکستانیو ! عزیز ہم وطنو! وقت کا بہتا دھار ا آپ کی دہلیز پردوخوش خبریاں لاچکا ۔ گو مہربان نے آتے آتے بہت دیر کردی، لیکن درست آید۔ بدقسمتی سے کچھ بلاوجہ کے ناقد، خواہ مخواہ بال کی کھال اتارنے والے اور ناعاقبت اندیش نکتہ چیں ان اہم اور دور رس نتائج کے حامل واقعات کو سراہنے سے قاصر ہیں ۔ انہیں اپنی موشگافیوں میں مگن رہنے دیں۔۔۔’’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہیں‘‘، دیگر ہم وطنوں کو یقین کرنے میں کوئی حرج مانع نہیں ہونا چاہئے کہ ان کے مذموم ارادوں کی ملجگی رُت ناکام ہوگی ۔سچائی کی روشنی ہر سو بکھرے گی۔ کیوں نہیں؟ میڈیا کے آفتاب ہمارے افق پر ضوفشاں ہیں۔ اضافی کمک کے لئے دیگر اینکروں اور میڈیا مالکان کی حمایت حاصل کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ کار ِ جہاں دراز ہر گز نہیں ہے ؟
تو لیجیے، خوشیوں کی مہک میں بسی جڑواں خبروں کی رونمائی ملاحظہ فرمائیں ۔ پہلی یہ کہ قومی سیاسی منظرنامے سے شریفوں کی اجارہ داری ختم ہوا چاہتی ہے ۔ ان کا بوریا بستر لپیٹنے کے منصوبے پر کئی برسوں سے کام جاری تھا۔ فصل کی آبیاری تادیر کی گئی، اب الحمدﷲ ثمربار ہوا چاہتی ہے ۔ اور دوسری خو ش خبری مرکزی سیاسی دھارے میں ملی مسلم لیگ(ایم ایم ایل ) اور لبیک یارسول اﷲﷺ پارٹی(ایل وائی آر اے)کی آمدہے۔ اور انہیں تہہ دل سے خوش آمدید کہا جاتا ہے ۔ خدا کے فضل و کرم سے پر خلوص افراد کی انتھک محنت رنگ لائی ، اور آج کسی پریشانی کے بغیر ،یہ دونوں امکانات حقیقت کا روپ دھارتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب ملک کے مقدر کا ستارہ جگمگا اٹھے گا ۔ صرف کٹھور ذہن ، اور جن کے دلوں پر تعصب نے مہرلگادی ہے اور وہ اس عظیم ملک کو ان راہوں پر پھلتے پھولتے نہیں دیکھنا چاہتے ، ہی اس پیش رفت کو داد و تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھ رہے ۔ حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سفر بھلاکون روک سکتا ہے ؟ تاریخ کا نیا دور ہماری نظروں کے سامنے ہے ۔ اب یہ قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
شریفوں کو خو ش گمانی ہے کہ وہ بلند پرواز شہباز ہیں۔ لیکن نہیں، اُن کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے ۔ نیب کو بڑے شریف اور اُن کے تینوں بچوں کی شہ رگ پر گرفت جمانے کا براہ ِراست حکم دے دیا گیا ہے ۔ جن ریفرنسز کا اُنہیں سامنا ہے ، ان سے گلوخلاصی محال سمجھیں ۔ یا تو اُن سب کو جیل جانا پڑے گا، یا وہ ملک کی سیاست سے ہمیشہ کے لئے باہر ہوجائیں گے ۔ کیا دل پذیر نظارہ تھا جب نیب اُن کی اور فنانس منسٹر کی جائیداد وں پر نوٹس چسپاں کررہا تھا ۔ کہاں ہے وہ بھولی بھالی محترمہ جو این اے 120 کی معمولی سی جیت پر خود کو فاتح عالم سمجھ رہی تھی؟یا ڈار جو کئی ماہ تک کچھ اہم فائلز دبائے بیٹھا تھا جیسے تمام پتے اُس کے ہاتھ میں ہوں؟
اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ اُنہیں اٹھنے کا موقع نہ دیا جائے، نیب ریفرنسز کے علاوہ حدیبیہ پیپر ملز کیس بھی کھولا جائے گا۔ اور یہ شہباز شریف اور اُن کے بیٹے کے لئے خطرے کی ایک گھنٹی ہے ۔ نوجوان شریف کو فوری طور پر فیصلہ کرتے ہوئے اپنی راہوں کا انتخاب کرنا ہوگا ۔ کوئی مناسب سی مفاہمت سیاسی دستر خوان پر اُن کا دانہ پانی کچھ دیر مزید باقی رکھ سکتی ہے ۔ لیکن اگر تذبذب یا سرکشی دکھائی توان کا وہی حشر ہوگا جو اُن کے بھائی کا ہونے والا ہے ۔ ماڈل ٹائون کیس کو مت بھولیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی رپورٹ کی کوئی قانونی اہمیت نہ ہو لیکن اس کی وجہ سے عوامی جذبات بھڑک سکتے ہیں ۔ اس کی تمازت وزیر ِاعلیٰ کو برداشت کرنی پڑے گی۔ امید کی جانی چاہئے کہ شہباز شریف چوہدری نثار علی خان کے صائب مشورے کے مطابق عقل کا دامن تھامتے ہوئے اپنے بھائی کے جذباتی فیصلوں پر کان نہیں دھریں گے ۔
عزیز ہم وطنو! یہ تفصیل آپ کو باور کرانے کے لئے کافی ہونی چاہئے کہ شریف خاندان کا سیاسی دور لد چکا ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ ان کی حکومت کا کیابنے گا؟ یہ ابھی بھی اقتدار میں ہے ۔ یقینا ایسا ہی ہے ، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بارش کی پھوار سے چٹانوں کا کیا بگڑتا ہے؟ وزیر ِاعظم شاہد خاقان عباسی ، اُن کی کابینہ اور ن لیگ کے ارکان ِ اسمبلی اور ان کی پنجاب حکومت کی نظروں کے سامنے شریفوں کی اتھارٹی تحلیل ہورہی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیں لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی ۔ یہ ایک دل خوش کن منظر ہے ،اور اسی سے قومی سیاست میں استحکام آئے گا۔
تاہم حقیقی گہریابی ایم ایم ایل اور ایل وائی آر اے کی سیاسی میدان میں آمد ہے ۔ اور کیا خوب آمد ہے ! چشم ماروشن ، دل ماشاد۔ عوام کی طرف سے ان کے امیدواروں کی پذیرائی بے حد حوصلہ افزا ہے ۔ ان ضمنی انتخابات نے اُنہیں اپنا جوش وجذبہ ، اپنی تنظیمی صلاحیتیں اور قبلہ حافظ سعید اور ممتاز قادری کے ساتھ اپنی اپنی وابستگی دکھانے کا اچھا موقع فراہم کردیا ۔ قائد ِاعظم محمد علی جناح کے ساتھ ان نوجوان رہنمائوں کی تصاویر سیاسی منظر نامے کے نئے خدوخال واضح کرتی ہیں۔ الحمدﷲ۔
عزیز ہم وطنو! ہم ایک دیرینہ سوال کے حتمی جواب کے قریب ہیںکہ پاکستان کی سیاست کن راہوں پر گامزن ہونی چاہئے ۔ ہم نے نام نہاد لبرل ازم، آئین کی کھوکھلی سربلندی، نیم فوجی حکومت اورمنقسم اتھارٹی کو موقع دے کر دیکھ لیالیکن یہ تجربات اس عظیم قوم کی حقیقی صلاحیتیں نکھارنے اور سامنے لانے میں ناکام رہے ۔ اب ایم ایم ایل اور ایل وائی آر اے اس نیک مقصد کے لئے میدان میں آگئی ہیں۔ ان کی وجہ سے گلوں میں رنگ بھریں گے، باد نوبہار چلے گی ، اور یوں گلشن کا ’’کاروبار ‘‘چلے گا۔ بچھائی جانے والی نئی سیاسی بساط پر تمام فرقوں کو اُن کی طاقت کے مطابق جگہ دی جائے گی۔ اس طرح سیاسی اور مذہبی قوتوں کے درمیان طاقت کا توازن قائم ہوگا۔ کوئی چھوٹا موٹا انتشار ہوا تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ فرقہ واریت کو اداروں تک رسائی دے کر میزانیہ برابر کیا جاسکتا ہے۔ اگر این اے 120 میں یہ تجربہ کامیابی سے ہوسکتا ہے تو قومی بساط پر کیوںنہیں؟
اور پھر جمہوریت کا حسن تمام جماعتوں کو موقع فراہم کرنے میں ہے ۔ انتخابی معرکے میں شریک ہوکر خالی ہونے والی جگہ پر کی جائے گی۔ یہ جماعتیں تو ویسے بھی خصوصی اہمیت کی حقدار ہیں۔ یہ نیک، محب ِوطن، جذباتی اور خدا ترس ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی تمام شرائط پر پورا ترتی ہیں۔ چونکہ اُن کے پاس فنڈز کی کمی نہیں، اس لئے وہ عوام کی دولت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گی ۔ ان کے مرکزی سیاسی دھارے میں قدم رکھنے سے ہم پالیسی سازی اور نظام کے بارے میں فیصلے کرنے کی راہ میں درپیش دیرینہ مسائل حل کرلیں گے ۔
اپنے ارکان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر یہ پارٹیاں پورے جوش و خروش سے کئی ایک پالیسی معاملات پر اثر انداز ہونے کے قابل ہوجائیں گی ۔ اور ان کی موثر معاونت کے ذریعے ہم بھارت کے خلاف ٹھوس طرز عمل اختیار کرسکیں گے ۔ جب یہ گروپ ہمارے پیچھے(یا آگے ) ہوں گے تو ہم اپنی کشمیر پالیسی میں جان ڈالتے ہوئے مقبوضہ علاقوں کو بھارتیوں کے ناپاک ہاتھوں سے چھین لیں گے ۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اگر جنگ پاکستانی سرزمین کی طرف آتی ہے تو یہی گروہ حتمی طور پر ہمارا ہاتھ بٹائیں گے ۔ اگرکسی نے ہماری دھرتی کو میلی آنکھ سے دیکھا تو حقیقی اور پاکباز مجاہدین پاکستانی سرزمین کو واشنگٹن کی فورسز کا قبرستان بنادیں گے ۔
افغانستان کی عقل ٹھکانے آنے میں دیر نہیں لگنی چاہئے۔ جب عوامی جذبات ان جماعتوں کے کنٹرول میں ہوں گے ، ان کی سیاسی مقبولیت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہوگااور ان کی خداداد حب الوطنی کے ہوتے ہوئے سول ملٹری اختیارات کا منحوس تنازع ہمیشہ کی موت مرچکا ہوگاتو ہماری مغربی سرحدیں خودبخود محفوظ ہوجائیں گی ۔ افغان طالبان پہلے ہی افغانستان میں بھارت اور داعش کے اثر کو پیچھے دھکیل کر اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ مذکورہ پارٹیوں کا منہاج شمال مغرب میں تزویراتی گہرائی کو مزید توانا کرے گا۔ نیز مشرق ِوسطیٰ اور یمن سے واپس لوٹنے والی مجسم انتہا پسندی بھی ان جماعتوں کی صفوں میں جذب ہوجائے گی ۔ داخلی طور پر یہ جماعتیں پورے معاشرے کو مضبوط نظریاتی صفوں میں کھڑا کردیں گی، اور یوں معاشرے میں سرایت کرجانے والے مغربیت کے تباہ کن اثرات سے حتمی طور پر نمٹ لیا جائے گا۔
وہ قومی نظریے کی کشتی کے ناخدا بن کر یہ پارٹیاں عظیم رہنما، جنرل ضیا الحق کے افکار و کردار کی روشنی میں ملک کی درست سمت رہنمائی کریں گی ۔ صرف یہی نہیں، یہ جماعتیں قائد اعظم، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کا نیا تاریخی چہرہ پیش کریں کرتے ہوئے عوام کی دیرینہ غلط فہمیوں کا ازالہ کردیں گی ۔ سیاسی میدان میں ان کی کامیابی کے لئے، اے عزیز ہم وطنو، آپ کو بھی پوری لگن اور توانائی سے محنت کرنی ہوگی۔ یہ لوگ قیمتی اثاثے ہیں۔فی الحال یہ ن لیگ کے پر کاٹ کرایک قابل ِ تحسین فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر قومی اسمبلی کے 26حلقے ایسے ہیں جہاں سے ن لیگ دس ہزارووٹوں سے کم مارجن کے ساتھ جیتی تھی ۔ صوبائی اسمبلی کی ایسی کانٹے دار نشستوں کی تعداد اس سے دگنی ہے ۔ تو یہ کیمسٹری پی ٹی آئی کے استحکام کا باعث بنے گی۔
اگلے مرحلے میں یہ جماعتیں ایک منہ زور طاقت بن کر اپنی موجودگی دکھائیں گی، اور ان کی لہر کے سامنے کون کھڑا ہوگا؟اور یہ وہ لمحہ ہوگا جب پاکستان پر کامیابی و کامرانی کا سورج جگمگا اٹھے گا۔ افق کی تابانی اس امید کو بڑھا رہی ہے ۔ اس طلوع سحر میں معاون قوتیں لائق تحسین ہیں۔ عزیز ہم وطنو! خوش بختی کی صبح قریب ہے ۔ سانس روک کر ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھو۔ خدا کا شکر ادا کرو ، اُس کے سامنے سجدہ ٔ شکر بجالائو،ہمت کرو ، ایک قدم اور۔ آزادی کی منزل قریب ہے ۔ ایک قوم مزید کیا تمنا کرسکتی ہے ،اور کوئی کسی قوم کے لئے اور کیا کرسکتا ہے ؟ این سعادت بزور بازو ’’است ‘‘۔
محب ِوطن پاکستانیو ! عزیز ہم وطنو! وقت کا بہتا دھار ا آپ کی دہلیز پردوخوش خبریاں لاچکا ۔ گو مہربان نے آتے آتے بہت دیر کردی، لیکن درست آید۔ بدقسمتی سے کچھ بلاوجہ کے ناقد، خواہ مخواہ بال کی کھال اتارنے والے اور ناعاقبت اندیش نکتہ چیں ان اہم اور دور رس نتائج کے حامل واقعات کو سراہنے سے قاصر ہیں ۔ انہیں اپنی موشگافیوں میں مگن رہنے دیں۔۔۔’’اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہیں‘‘، دیگر ہم وطنوں کو یقین کرنے میں کوئی حرج مانع نہیں ہونا چاہئے کہ ان کے مذموم ارادوں کی ملجگی رُت ناکام ہوگی ۔سچائی کی روشنی ہر سو بکھرے گی۔ کیوں نہیں؟ میڈیا کے آفتاب ہمارے افق پر ضوفشاں ہیں۔ اضافی کمک کے لئے دیگر اینکروں اور میڈیا مالکان کی حمایت حاصل کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ کار ِ جہاں دراز ہر گز نہیں ہے ؟
تو لیجیے، خوشیوں کی مہک میں بسی جڑواں خبروں کی رونمائی ملاحظہ فرمائیں ۔ پہلی یہ کہ قومی سیاسی منظرنامے سے شریفوں کی اجارہ داری ختم ہوا چاہتی ہے ۔ ان کا بوریا بستر لپیٹنے کے منصوبے پر کئی برسوں سے کام جاری تھا۔ فصل کی آبیاری تادیر کی گئی، اب الحمدﷲ ثمربار ہوا چاہتی ہے ۔ اور دوسری خو ش خبری مرکزی سیاسی دھارے میں ملی مسلم لیگ(ایم ایم ایل ) اور لبیک یارسول اﷲﷺ پارٹی(ایل وائی آر اے)کی آمدہے۔ اور انہیں تہہ دل سے خوش آمدید کہا جاتا ہے ۔ خدا کے فضل و کرم سے پر خلوص افراد کی انتھک محنت رنگ لائی ، اور آج کسی پریشانی کے بغیر ،یہ دونوں امکانات حقیقت کا روپ دھارتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب ملک کے مقدر کا ستارہ جگمگا اٹھے گا ۔ صرف کٹھور ذہن ، اور جن کے دلوں پر تعصب نے مہرلگادی ہے اور وہ اس عظیم ملک کو ان راہوں پر پھلتے پھولتے نہیں دیکھنا چاہتے ، ہی اس پیش رفت کو داد و تحسین کی نظروں سے نہیں دیکھ رہے ۔ حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سفر بھلاکون روک سکتا ہے ؟ تاریخ کا نیا دور ہماری نظروں کے سامنے ہے ۔ اب یہ قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
شریفوں کو خو ش گمانی ہے کہ وہ بلند پرواز شہباز ہیں۔ لیکن نہیں، اُن کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے ۔ نیب کو بڑے شریف اور اُن کے تینوں بچوں کی شہ رگ پر گرفت جمانے کا براہ ِراست حکم دے دیا گیا ہے ۔ جن ریفرنسز کا اُنہیں سامنا ہے ، ان سے گلوخلاصی محال سمجھیں ۔ یا تو اُن سب کو جیل جانا پڑے گا، یا وہ ملک کی سیاست سے ہمیشہ کے لئے باہر ہوجائیں گے ۔ کیا دل پذیر نظارہ تھا جب نیب اُن کی اور فنانس منسٹر کی جائیداد وں پر نوٹس چسپاں کررہا تھا ۔ کہاں ہے وہ بھولی بھالی محترمہ جو این اے 120 کی معمولی سی جیت پر خود کو فاتح عالم سمجھ رہی تھی؟یا ڈار جو کئی ماہ تک کچھ اہم فائلز دبائے بیٹھا تھا جیسے تمام پتے اُس کے ہاتھ میں ہوں؟
اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ اُنہیں اٹھنے کا موقع نہ دیا جائے، نیب ریفرنسز کے علاوہ حدیبیہ پیپر ملز کیس بھی کھولا جائے گا۔ اور یہ شہباز شریف اور اُن کے بیٹے کے لئے خطرے کی ایک گھنٹی ہے ۔ نوجوان شریف کو فوری طور پر فیصلہ کرتے ہوئے اپنی راہوں کا انتخاب کرنا ہوگا ۔ کوئی مناسب سی مفاہمت سیاسی دستر خوان پر اُن کا دانہ پانی کچھ دیر مزید باقی رکھ سکتی ہے ۔ لیکن اگر تذبذب یا سرکشی دکھائی توان کا وہی حشر ہوگا جو اُن کے بھائی کا ہونے والا ہے ۔ ماڈل ٹائون کیس کو مت بھولیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی رپورٹ کی کوئی قانونی اہمیت نہ ہو لیکن اس کی وجہ سے عوامی جذبات بھڑک سکتے ہیں ۔ اس کی تمازت وزیر ِاعلیٰ کو برداشت کرنی پڑے گی۔ امید کی جانی چاہئے کہ شہباز شریف چوہدری نثار علی خان کے صائب مشورے کے مطابق عقل کا دامن تھامتے ہوئے اپنے بھائی کے جذباتی فیصلوں پر کان نہیں دھریں گے ۔
عزیز ہم وطنو! یہ تفصیل آپ کو باور کرانے کے لئے کافی ہونی چاہئے کہ شریف خاندان کا سیاسی دور لد چکا ۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ ان کی حکومت کا کیابنے گا؟ یہ ابھی بھی اقتدار میں ہے ۔ یقینا ایسا ہی ہے ، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بارش کی پھوار سے چٹانوں کا کیا بگڑتا ہے؟ وزیر ِاعظم شاہد خاقان عباسی ، اُن کی کابینہ اور ن لیگ کے ارکان ِ اسمبلی اور ان کی پنجاب حکومت کی نظروں کے سامنے شریفوں کی اتھارٹی تحلیل ہورہی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہ تسلیم کرنے میں تامل سے کام لیں لیکن اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی ۔ یہ ایک دل خوش کن منظر ہے ،اور اسی سے قومی سیاست میں استحکام آئے گا۔
تاہم حقیقی گہریابی ایم ایم ایل اور ایل وائی آر اے کی سیاسی میدان میں آمد ہے ۔ اور کیا خوب آمد ہے ! چشم ماروشن ، دل ماشاد۔ عوام کی طرف سے ان کے امیدواروں کی پذیرائی بے حد حوصلہ افزا ہے ۔ ان ضمنی انتخابات نے اُنہیں اپنا جوش وجذبہ ، اپنی تنظیمی صلاحیتیں اور قبلہ حافظ سعید اور ممتاز قادری کے ساتھ اپنی اپنی وابستگی دکھانے کا اچھا موقع فراہم کردیا ۔ قائد ِاعظم محمد علی جناح کے ساتھ ان نوجوان رہنمائوں کی تصاویر سیاسی منظر نامے کے نئے خدوخال واضح کرتی ہیں۔ الحمدﷲ۔
عزیز ہم وطنو! ہم ایک دیرینہ سوال کے حتمی جواب کے قریب ہیںکہ پاکستان کی سیاست کن راہوں پر گامزن ہونی چاہئے ۔ ہم نے نام نہاد لبرل ازم، آئین کی کھوکھلی سربلندی، نیم فوجی حکومت اورمنقسم اتھارٹی کو موقع دے کر دیکھ لیالیکن یہ تجربات اس عظیم قوم کی حقیقی صلاحیتیں نکھارنے اور سامنے لانے میں ناکام رہے ۔ اب ایم ایم ایل اور ایل وائی آر اے اس نیک مقصد کے لئے میدان میں آگئی ہیں۔ ان کی وجہ سے گلوں میں رنگ بھریں گے، باد نوبہار چلے گی ، اور یوں گلشن کا ’’کاروبار ‘‘چلے گا۔ بچھائی جانے والی نئی سیاسی بساط پر تمام فرقوں کو اُن کی طاقت کے مطابق جگہ دی جائے گی۔ اس طرح سیاسی اور مذہبی قوتوں کے درمیان طاقت کا توازن قائم ہوگا۔ کوئی چھوٹا موٹا انتشار ہوا تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ فرقہ واریت کو اداروں تک رسائی دے کر میزانیہ برابر کیا جاسکتا ہے۔ اگر این اے 120 میں یہ تجربہ کامیابی سے ہوسکتا ہے تو قومی بساط پر کیوںنہیں؟
اور پھر جمہوریت کا حسن تمام جماعتوں کو موقع فراہم کرنے میں ہے ۔ انتخابی معرکے میں شریک ہوکر خالی ہونے والی جگہ پر کی جائے گی۔ یہ جماعتیں تو ویسے بھی خصوصی اہمیت کی حقدار ہیں۔ یہ نیک، محب ِوطن، جذباتی اور خدا ترس ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکلز 62 اور 63 کی تمام شرائط پر پورا ترتی ہیں۔ چونکہ اُن کے پاس فنڈز کی کمی نہیں، اس لئے وہ عوام کی دولت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گی ۔ ان کے مرکزی سیاسی دھارے میں قدم رکھنے سے ہم پالیسی سازی اور نظام کے بارے میں فیصلے کرنے کی راہ میں درپیش دیرینہ مسائل حل کرلیں گے ۔
اپنے ارکان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر یہ پارٹیاں پورے جوش و خروش سے کئی ایک پالیسی معاملات پر اثر انداز ہونے کے قابل ہوجائیں گی ۔ اور ان کی موثر معاونت کے ذریعے ہم بھارت کے خلاف ٹھوس طرز عمل اختیار کرسکیں گے ۔ جب یہ گروپ ہمارے پیچھے(یا آگے ) ہوں گے تو ہم اپنی کشمیر پالیسی میں جان ڈالتے ہوئے مقبوضہ علاقوں کو بھارتیوں کے ناپاک ہاتھوں سے چھین لیں گے ۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اگر جنگ پاکستانی سرزمین کی طرف آتی ہے تو یہی گروہ حتمی طور پر ہمارا ہاتھ بٹائیں گے ۔ اگرکسی نے ہماری دھرتی کو میلی آنکھ سے دیکھا تو حقیقی اور پاکباز مجاہدین پاکستانی سرزمین کو واشنگٹن کی فورسز کا قبرستان بنادیں گے ۔
افغانستان کی عقل ٹھکانے آنے میں دیر نہیں لگنی چاہئے۔ جب عوامی جذبات ان جماعتوں کے کنٹرول میں ہوں گے ، ان کی سیاسی مقبولیت کا جادو سرچڑھ کر بول رہا ہوگااور ان کی خداداد حب الوطنی کے ہوتے ہوئے سول ملٹری اختیارات کا منحوس تنازع ہمیشہ کی موت مرچکا ہوگاتو ہماری مغربی سرحدیں خودبخود محفوظ ہوجائیں گی ۔ افغان طالبان پہلے ہی افغانستان میں بھارت اور داعش کے اثر کو پیچھے دھکیل کر اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ مذکورہ پارٹیوں کا منہاج شمال مغرب میں تزویراتی گہرائی کو مزید توانا کرے گا۔ نیز مشرق ِوسطیٰ اور یمن سے واپس لوٹنے والی مجسم انتہا پسندی بھی ان جماعتوں کی صفوں میں جذب ہوجائے گی ۔ داخلی طور پر یہ جماعتیں پورے معاشرے کو مضبوط نظریاتی صفوں میں کھڑا کردیں گی، اور یوں معاشرے میں سرایت کرجانے والے مغربیت کے تباہ کن اثرات سے حتمی طور پر نمٹ لیا جائے گا۔
وہ قومی نظریے کی کشتی کے ناخدا بن کر یہ پارٹیاں عظیم رہنما، جنرل ضیا الحق کے افکار و کردار کی روشنی میں ملک کی درست سمت رہنمائی کریں گی ۔ صرف یہی نہیں، یہ جماعتیں قائد اعظم، علامہ اقبال اور سرسید احمد خان کا نیا تاریخی چہرہ پیش کریں کرتے ہوئے عوام کی دیرینہ غلط فہمیوں کا ازالہ کردیں گی ۔ سیاسی میدان میں ان کی کامیابی کے لئے، اے عزیز ہم وطنو، آپ کو بھی پوری لگن اور توانائی سے محنت کرنی ہوگی۔ یہ لوگ قیمتی اثاثے ہیں۔فی الحال یہ ن لیگ کے پر کاٹ کرایک قابل ِ تحسین فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر قومی اسمبلی کے 26حلقے ایسے ہیں جہاں سے ن لیگ دس ہزارووٹوں سے کم مارجن کے ساتھ جیتی تھی ۔ صوبائی اسمبلی کی ایسی کانٹے دار نشستوں کی تعداد اس سے دگنی ہے ۔ تو یہ کیمسٹری پی ٹی آئی کے استحکام کا باعث بنے گی۔
اگلے مرحلے میں یہ جماعتیں ایک منہ زور طاقت بن کر اپنی موجودگی دکھائیں گی، اور ان کی لہر کے سامنے کون کھڑا ہوگا؟اور یہ وہ لمحہ ہوگا جب پاکستان پر کامیابی و کامرانی کا سورج جگمگا اٹھے گا۔ افق کی تابانی اس امید کو بڑھا رہی ہے ۔ اس طلوع سحر میں معاون قوتیں لائق تحسین ہیں۔ عزیز ہم وطنو! خوش بختی کی صبح قریب ہے ۔ سانس روک کر ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھو۔ خدا کا شکر ادا کرو ، اُس کے سامنے سجدہ ٔ شکر بجالائو،ہمت کرو ، ایک قدم اور۔ آزادی کی منزل قریب ہے ۔ ایک قوم مزید کیا تمنا کرسکتی ہے ،اور کوئی کسی قوم کے لئے اور کیا کرسکتا ہے ؟ این سعادت بزور بازو ’’است ‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے