بدھ کی صبح جب العربیہ اردو پر نگاہ ڈالی تو اپنی آنکھو ں پر یقین نہیں آیا یہ یقینا ایک غیرمعمولی خبر تھی اور تاریخی بھی‘میں گزشتہ دو سال سے سعودی عرب میں مقیم ہوں سعودی خواتین کی ڈرائیونگ کے حوالے سے بہت کچھ سننے اور پڑھنے کو ملا چند دن قبل سعودی خواتین کو عوامی تقریبات میں شرکت کی اجازت سے مجھے تھوڑی حیرانگی ہوئی تھی لیکن اس خبر نے حیرانگی ختم کر دی اس فیصلے کودنیا بھر میں سراہا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سعودی معاشرہ جسے ہمیشہ سے قدامت پسند معاشرہ کہا جاتا ہے اسی معاشرے کی عوام نے بھی اس فیصلے کی بھر پور تائید کی۔
دنیا اس پابندی کی آڑ میں اسلام اور اسلامی تعلیمات پر تنقید کرتی تھی جبکہ سعودی حکومت کی جانب سے کبھی ڈرائیونگ کو غیر شرعی نہیں کہا گیا ہاں البتہ کچھ معاشرتی مجبوریوں کی بنا پر اس پابندی کو طویل عرصہ برقرار ضروررکھا گیا‘لیکن اب اس نئے فیصلے نے ثابت کر دیا کہ سعودی عرب قدامت پسند معاشرہ نہیں کم سے کم اتنا تو ہر گز نہیں جتنا کہ دنیا کو بتایا جا رہا ہے۔
کچھ اسلامی ممالک اور ایران نواز پاکستانی علماء سعودی حکومتکے اس فیصلے کو اسلام اور سعودی عرب کیلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہم نے اس سے پہلے بھی سعودی خواتین کو حجاب اور حدود میں رہتے ہوئے مختلف فرائض سر انجام دیتے دیکھا ہے‘ میں نے نقاب پہنے عورتوں کو سڑکوں پر قہوہ بیچتے دیکھا‘مارکیٹوں میں سٹال لگائے دیکھا اور اس کہ علا وہ مختلف مقامات پر مختلف ذمہ داریا ں نبھاتے دیکھا کیا یہ سچ نہیں کہ ملک میں سرکاری ملازمین کی تعداد کا 42فیصد خواتین ہیں! لہذا جو علماء اس فیصلے کو بے حیائی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں وہ محض اپنی انا یا کسی اور کو فائدہ پہنچا رہے ہیں‘دنیا اس فیصلے کو کیسے دیکھتی ہے یا اس فیصلے کا دوسرے ممالک پر کیا اثر پڑتا ہے اس سے سعودی عرب کو سروکار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ کوئی بھی ریاست اندرونی معاملات طے کرتے وقت قومی مفاد مد نظر رکھتی ہے نہ کہ بیرونی خوشنودی۔
حقیقت یہی ہے کہ اگر چند بنیادی خامیوں کو دور کر لیا جائے تو اس فیصلہ سے سعودی عرب پر مثبت نتائج مر تب ہو نگے‘ عوام کا خود پر اعتماد بڑھے گا اور محدود آمدن والے سعودی گھرانے اپنے اخراجات میں کمی کر سکیں گے‘ اگر اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنا لیا گیا تو ایک اندازے کے مطابق 25ارب ریال جو تنخواہوں کی مد میں ڈرائیوروں کو ادا کئے جاتے ہیں اگلے پانچ سالوں میں یہ رقم نصف رہ جائے گی‘تیل کی مسلسل گرتی قیمتوں کے باعث سعودی عرب کی کمزور معیشت کیلئے یہ رقم بہت بڑا سہارا ہوگی۔
پاکستان کی طرح سعودی عرب کی آبادی کا اکثریتی حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کو باعزت روزگار کی فراہمی سعودی حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری ہر گزرتے وقت کیساتھ حکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلینج بنتی جارہی ہے نوجوان ولی عہد کی آمد نے نوجوانوں میں ایک امید پیدا کی اور اس امید کر برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ غیر معمولی فیصلے کئے جائیں۔
اگر سعودی معاشرہ اس فیصلے کو جذب کر لیتا ہے تو خواتین ڈرائیونگ کو کاروباری مقاصد کیلئے بھی استعما ل کر سکتی ہیں جس سے حکومت پر دباؤ کم ہوگا اور خواتین کی بہت بڑی تعداد ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہو جائے گی‘جہاں تک سوال ہے بیرون ممالک کے ملازمین کا جن میں اکثریت کا تعلق ایشائی ممالک سے ہے تو انہیں اس حقیقت کو تسلیم کر نا ہر ہوگا کہ ہر حکومت کی پہلی ترجیح اپنے شہری ہوتے ہیں اور سعودی حکومت پر کسی بھی طرح یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ پاکستانی یا ہندوستانی شہریوں کو روزگار فراہم کرے سعودی حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے ایشائی حکومتیں (لوٹ مار ہی جن کا مقصد ہے) کو سعودی حکومت کے فیصلے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں اور تارکین وطن کو اپنی حکومتوں سے یہ مطالبہ کر نا ہوگا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔