دوا کے بغیر مسئلہ حل ہوگیا

’’اس بیماری میں مریض کچھ بھی سمجھ نہیں پاتا اور الٹ behave کرتا ہے۔ مثلاً نارمل لوگوں کو جب کوئی زخم، گھاؤ، کٹ وغیرہ لگتا ہے تو وہ فوراً مرہم پٹی کریں گے، دوائی لگائیں گے اور چوٹ والے حصے کو آرام پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ جبکہ یہ لوگ پتا ہے کیا کرتے ہیں؟‘‘ ڈاکٹر نے آنکھیں پھیلا کر سسپنس بڑھایا۔
’’کیا؟‘‘ وہ بھی متجسس ہوئی۔
’’یہ مریض زخم کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن مرہم نہیں لگاتے، نہ کسی کو لگانے دیتے ہیں۔ بلکہ اسے چھیلتے ہیں، کھرچتے ہیں؛ ناخنوں سے، دانتوں سے اور…‘‘

’’اوف ف ف!‘‘ لڑکی نے تصور کرتے ہوئے جھرجھری لی، ’’بس کیجیے! مجھے میرے مسئلے کا حل بتائیے۔ آپ نے کیا عجیب پاگلوں والی بیماری سنانا شروع کردی۔‘‘
’’میں ایک ڈاکٹر ہوں اور نئی معلومات شیئر کرنا فرض سمجھتا ھوں تاکہ لوگوں میں آگہی پیدا ھو۔‘‘
’’ٹھیک ہے، مگر میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے ناں! مجھے کہیں جانا بھی ہے۔‘‘
’’تو…‘‘ ڈاکٹر نے کڑے تیو سے گھورا۔
’’تو مجھے میرے مسئلے کا حل بتائیے،‘‘ اس نے زچ ہو کر کہا۔
’’تو بیٹا وہی تو بتا رہا ہوں کہ تم بھی اسی بیماری کا شکار ہو۔‘‘
’’ہائیں… کیا، کیا مطلب؟‘‘ وہ گھبرا سی گئی۔
’’سنو میری بات! ہم انسان جو ہیں ناں، سب کے سب میراتھن ریس میں شریک ہیں۔ بچپن میں ماں باپ کی چھاؤں میں اچھلتے کودتے جاتے ہیں، سورج کی تپش کا اندازہ نہیں ہوتا۔ پھر بعد میں اپنی ذمہ داریوں کے تھیلے بھی اٹھانے پڑتے ہیں۔ پڑھائی، نوکری، شادی، بچے وغیرہ…‘‘
وہ ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹکائے غور سے سن رہی تھی۔
’’اور اس سب کے ساتھ ساتھ ہمیں راستے کی رکاوٹوں سے مسلسل آزمایا جاتا ہے۔ کچھ تو بڑے حوصلے سے چھلانگ لگا کر پار کر جاتے ہیں؛ جن میں حوصلہ کم ہوتا ہے وہ ڈرتے ڈرتے، کانپتی ٹانگوں سے کوشش کرتے ہیں اور دھڑام!… پھر اٹھتے ہیں، زخم اور درد پر مرہم لگا کر پھر چل دیتے ہیں۔‘‘
’’سمجھ رہی ہو ناں‘‘ ڈاکٹر نے اس کا دھیان چیک کیا۔
’’ج ج جی… جی ہاں،‘‘ وہ چونک کر گویا ریس گراؤنڈ سے باہر آئی۔
’’اور پتر جی تیسری قسم ہوتی ہے آپ جیسے مریضوں کی۔ وہ گرتے ہیں اور کراہتے رہتے ہیں لیکن زخم کو اپنی ذاتی کوشش سے ہرا رکھتے ہیں؛ ورنہ قدرت نے ’’وقت‘‘ کی شکل میں بہت بڑا مرہم سب کو دے رکھا ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ جب کوئی روز اسی گھاؤ کو سوچ سوچ کر کھرنڈ اُتارے، خود اس کے بارے میں غیر ضروری طور پر سوچ سوچ کر اس پر نمک پاشی کرتا رہے، اور پھر کراہتے ہوئے خود ترسی کا شکار ہوتا رہے،‘‘ یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر نے پانی کا گھونٹ بھرا۔
’’پھر اگر ایسے لوگوں کے ارد گرد ان سے مخلص افراد ہوں تو وہ ان کےلیے رکتے ہیں۔ ان کے کپڑے جھاڑتے ہیں، ہاتھ پکڑ کر سہارا دیتے ہیں ورنہ اپنا وقت اور طاقت ضائع کرکے خود ہی آنسو پونچھنے پڑتے ہیں بیٹا جی!‘‘ مبہم سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر تھی۔
’’زندگی کسی کی بھی آسان نہیں ہوتی۔ چاہے دولت، عزت، شہرت اور آسائشوں کے انبار ہی کیوں نہ ہوں۔ اب یہی دیکھ لو کہ ہمارے ملک کے سب سے اونچے عہدے کا مالک۔ کبھی پانامہ، کبھی اپوزیشن، کبھی کوئی ٹینشن تو کبھی کوئی… ایسا ہی ہے ناں؟‘‘
’’جی،‘‘ وہ سوچ میں ڈوبی ھوئی تھی۔
’’تو زندگی آسان نہیں ہوتی، بنانا پڑتی ہے؛ اچھی امید سے، اچھی سوچ سے۔ ان دو چیزوں کو ساتھ رکھو گی تو اسٹریس (تناؤ) کا ٹوکرا نہیں اٹھانا پڑے گا… ٹھیک ہے ناں؟‘‘ انہوں نے اسے جانچتی نظروں سے دیکھا۔
’’چلو اب اٹھو! زندگی کوئی بھی زخم دے تو فوراً مرہم پٹی کے بعد اگلے مرحلے کی سوچو اور روانہ ہوجاؤ۔ جتنا اس کے ماتم میں ٹھہرو گی اتنا زخم تکلیف دے گا اور اتنا ہی ریس میں پیچھے رہ جاؤ گی۔‘‘
’’تو کیا مسئلہ حل ہوا؟‘‘
وہ ساکت بیٹھی رہی۔
’’ہیلو…‘‘ ڈاکٹر نے اس کے چہرے کے آگے ہاتھ لہرایا، ’’یہ جو تم بات بات پر علامہ اقبال بن جاتی ہو ناں، یہ ایک صلاحیت ہے۔ علامہ اقبال نے اس کا مثبت استعمال کیا اور تم منفی کرتی ہو۔ خیر! اس پر کسی اور دن بات کریں گے۔ آنا پھر کسی دن۔‘‘ ڈاکٹر نے اس کے سر پہ ھاتھ پھیرا۔
’’جی،‘‘ اس نے دھیرے سے کہا اور چل دی۔ اسے محسوس ہورہا تھا جیسے ڈاکٹر نے کوئی دوا دیئے بغیر، صرف اپنی گفتگو ہی سے اس کا مسئلہ حل کردیا تھا؛ اور وہ خود کو اندر سے ہشاش بشاش محسوس کررہی تھی۔

بلاگر زرعی یونیورسٹی سے ایم فل کر رہی ہیں اور گورنمنٹ کالج میں بطور لیکچرار فرائض انجام دے رہی ہیں۔ فنون لطیفہ، تعلیم اور ادب میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے