نواز شریف کو تاریخ کے تاریک گوشے میں دھکیلنے کا عمل ابھی رُکا نہیں۔تاہم وہ انتخابی اصلاحات بل 2017کے نتیجے میں اپنی پارٹی کے صدر منتخب ہو گئے ہیں ۔ یہ پیش رفت نواز شریف کی ڈوبتی سیاست کے لیے ایک سہارا ہے ۔اب وہ اگلے چار برس تک پارٹی کے صدر رہیں گے ۔تین ستمبر منگل کے روزاسلام آباد کے کنونشن ہال میں جب ان کی پارٹی نے انہیں بلامقابلہ صدر منتخب کیا تو ان کے چہرے کی چمک دیکھنے والی تھی ۔ وہ محض سرشاری کی کیفیت نہیں تھی بلکہ ان کے چہرے بشرے سے ایک ننھی منی سی فتح کا تاثر بھی مل رہا تھا ۔ ان کا چہرہ دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے وہ پنجابی میں کہہ رہے ہوں :’’اُنج نئیں تے اِنج سہی‘‘۔ مائنس ون کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے والے یہاں البتہ بازی ہار گئے ۔
آج کل جاری بحثوں میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ نواز شریف جمہوریت کی نہیں ، بلکہ اپنی اور خاندان کی سیاسی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ یہ اعتراض اپنی جگہ بجا ہے، لیکن ہمارے یہاں جمہوریت کے باب میں آئیڈیلزم کی بجائے حقیقت پسندانہ زاویہ نگاہ سے تجزیے کی ضرورت ہے۔ یہ المیہ ہے یا کچھ اور۔ ۔ ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں شخصیات ہمیشہ بنیادی اہمیت رکھتی ہیں ۔ منشور اور نظریے کی اہمیت عملی طور پر ثانوی ہے۔ نمایاں سیاسی جماعتوں میں داخلی سطح پر مثالی جمہوریت ابھی دور دور تک ممکن نظر نہیں آرہی ۔اس کی ایک بڑی وجہ ملک کے چار فوجی آمربھی ہیں ،جن کے ادوار میں سیاسی نظام کی ایسی تیسی ہوئی اورعوامی مقبولیت رکھنے والے سیاستدانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے پوری قوت صرف کی گئی۔اس ضمن میں سب سے نمایاں مثال ذوالفقار علی بھٹو کی ہے جن کا عدالتی قتل ہوا ۔اس باب میں کچھ اندیشے ایسے ہیں، جن کی بنا پر سیاسی رہنما اپنی جماعتوں میں جمہوری عمل رواں کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔فی الحال انہیں طاقت کی مرکزیت ہی راس آتی ہے۔
ہمارے مشاہدے کے مطابق پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے ،جسے ایک وقت تک واحد ملک گیرسیاسی جماعت کہا جاسکتا تھا لیکن وہاں بھی ووٹ صرف بھٹو کے نام پر ڈالا جاتا تھا۔ اب جبکہ ناتواں پیپلز پارٹی آصف زرداری کے رحم وکرم پر ہے، ووٹ پھر بھی بھٹو ہی کے نام پر مانگا جاتا ہے ۔ مسلم لیگ نواز میں نواز شریف کو یہی حیثیت حاصل ہے ۔ ورنہ شہباز شریف ، چوہدری نثار علی خان اور ان جیسے کئی اور لوگ کب کے پیڑ بدل چکے ہوتے ۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ مسلم لیگ نواز میں نوازشریف کے متبادل کے طور پرکوئی اور قدآور شخصیت ابھی ابھر کر سامنے نہیں آئی ۔تحریک انصاف میں سارے کا سارا ’کرشمہ‘ عمران خان کے گرد گھومتا ہے ۔ شاہ محمود قریشی ، جہانگیر ترین ، شفقت محموداور عبدالعلیم وغیرہ اس سیاسی قد کاٹھ کے نہیں کہ انہیں قومی سطح پر پذیرائی مل سکے ۔مذہبی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمٰن کا دوسرا نام ہے ۔ جماعت اسلامی کو گو کہ اس باب میں کچھ استثنیٰ حاصل ہے ،مگر وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی مقبولیت کھو رہی ہے ۔بعید نہیں کہ کسی روز وہ دوبارہ اپنے اساسی کام یعنی ’دعوت‘ کی جانب لوٹ جائے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کا دوسرا نام تھی۔ ووٹ الطاف کے نام پر ڈالا جاتا تھا لیکن اب حالات قدرے مختلف ہیں ۔ مائنس الطاف کے بعد ایم کیو ایم کے پاس صرف مہاجر کارڈ بچا ہے، جو مؤثر ضرور ہے مگر الطاف کا متبادل(جو مہاجروں کو جوڑ سکے) فی الحال اس کے پاس نہیں ۔ مختصر یہ کہ یہاں مثالی جمہوریت کی مانگ تو پُرکشش معلوم ہوتی ہے،مگر زمین پر موجود حقیقتیں ویسی نہیں ہیں۔
نواز شریف کو ابھی قومی احتساب بیورو(نیب) میں سخت مراحل کا سامنا ہے۔انہوں نے ایک روز قبل پارٹی صدر بننے کے بعد فاتحانہ انداز میں کہا کہ آج انہوں نے آمر کا بنایا ہوا قانون اس کے منہ پر دے مارا ہے ۔ لیکن کیا اسی آمر کی بنائی ہوئی احتساب عدالت سے وہ سرخرو نکلتے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ احتساب عدالت نے ان کے بیٹوں اور داماد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں ۔ وہ سب ملک سے باہر ہیں اور عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔نیب کے ضابطے کے مطابق اصل ملزم کی پیشی تک کیس ملتوی کیا جاتاہے۔ اندازہ یہ ہے کہ آمر کی بنائی ہوئی احتساب عدالت کے اس ضابطے سے بھی پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے گی اور معاملے کو سینٹ کے الیکشن تک طول دیا جائے گا ۔ہاں ،ایک تلوار البتہ لٹکتی رہے گی ، وہ ہے سپریم کورٹ کا وہ حکم جس کے مطابق چھ ماہ میں نیب نے یہ کیس لازمی نمٹانے ہیں۔ ممکن ہے پاکستان کے شہری سینٹ کے انتخابات کے قریب کوئی اور بڑی خبر سنیں۔
نواز شریف کے لب و لہجے سے لگتا ہے کہ اب کی بار وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں تسلسل کے ساتھ خود کو سول بالادستی کی تحریک کا علم بردار قرار دے رہے ہیں ۔ ان کی تقریروں کا ماحصل یہی ہے کہ انہیں سپریم کورٹ نے نہیں نکالا بلکہ سپریم کورٹ کے ذریعے غیر جمہوری قوتوں نے نکلوایا ہے۔ نااہلی کے فیصلے کے بعد کیے گئے اپنے جی ٹی روڈ کے پاور شو میں بار بار انتہائی غصے میں یہ وہ یہی پوچھتے رہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ وہ ان دنوں بہت زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار تھے ۔ پھر این اے ایک سوبیس میں حاصل ہونے والی فتح نے کسی حد تک ان کی ڈھارس بندھائی اور اب پارٹی صدر بن جانے نے انہیں اپنی بچی کچھی توانائی پھر سے جمع کرنے کا موقع دیا ہے۔
برے دنوں میں نواز شریف کومذکورہ تین کامیابیوں کا مل جانا شاید قسمت کی یاوری ہے ورنہ بہت سے لوگ تو یہاں تک کہتے تھے کہ اب وہ ملک واپس نہیں آئیں گے ۔ان کے بقول نواز شریف کا چیپٹر کلوز ہو چکا ہے ۔ لیکن قسمت بھی عجب کھیل دکھاتی ہے ۔قسمت سے مجھے اپنا بچپن یاد آیا ، یہ نواز شریف کا دوسرا دورحکومت تھا ۔گاؤں میں ہمارے اسکول کے راستے میں ایک چھوٹا سا بازار پڑتا تھا ۔ گنی چنی چند دکانیں تھیں۔ان دنوں ہم لاٹری سے نئے نئے آشنا ہوئے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ وہاں ایک دکان سے ہم ایک یا دوروپے میں ایک پُڑیا خریدتے تھے ۔ اس ہرے رنگ کی پاپڑوں کی پُڑیا پر نواز شریف کی تصویر بنی ہوتی تھی ۔ ہم بڑے تجسس سے یہ پڑیا کھولتے تھے ۔ اس میں سے کبھی کوئی سیٹی نکل آتی تو کبھی کوئی اور پلاسٹک کا کھلونا وغیرہ۔ پڑیا کا نام تھا’’ نواز شریف قسمت پڑی‘‘۔ ہم دکاندار سے یوں کہتے تھا ’’پانچ روپے کی نواز شریف قسمت پُڑیاں دیجیے ‘‘۔
نواز شریف کے جی ٹی روڈ شو، این اے ایک سو بیس کے ضمنی انتخاب میں ان کی اہلیہ کی فتح اور اب ان کا پارٹی صدر بن جانا دیکھ کر مجھے بچپن میں دیکھی ہوئی’’نواز شریف قسمت پُڑی ‘‘یاد آئی۔لگتا یہ ہے کہ اس قسمت پُڑی سے نواز شریف کے ہاتھ ایک سیٹی لگ گئی ہے جسے وہ کچھ عرصہ تک بجا سکتے ہیں اور ایک متبادل طریقے سے سیاست میں خود کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔