پاک فوج کے ترجمان نے اپنی آج کی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’’خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے ، اسی لئے کورکمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ جاری نہیں کیا ‘‘ انہوں نے مزید فرمایا ہے کہ ’’ ضروری نہیں کہ ہر حکم تحریری طور پر دیا جائے‘‘ ۔
دو دن قبل ہونے والی کورکمانڈر کانفرنس سات گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل تھی ۔ اس دن دیر تک ٹی وی مباحثوں میں بیٹھ کر تجزیہ کاری کرنے والے دانش ور اعلامیے کا انتظار کرتے رہے ، وہ نہیں آنا تھا اور نہیں آیا۔ آج فوج کے ترجمان نے واضح کر دیا ہے کہ ہماری خاموشی کو سمجھ لو۔ دوسرا بڑا مسئلہ اس وقت نیب میں نواز شریف کی پیشی کے موقع پر رینجرز کی کورٹ کے باہر موجودگی اور وزیر داخلہ وغیرہ کو باہر روکنا ہے۔
سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ رینجرز کو نیب میں مقدمے کی سماعت کے دوران سیکیورٹی پر کس نے مامور کیا ۔ فوجی ترجمان نے اس پریس کانفرنس میں یہ سوال بھی سلجھا دیا ہے۔انہوں نے ایک اور بات بھی کی ہے ’’آرمی آئین اور قانون کے تحت کام کرتی ہے ‘‘ ۔ یہ مناسب بیان ہے ۔ کتنا سنجیدہ ہے ، یہ معلوم نہیں، انہوں نے ایک بلیغ جملہ یوں فرمایا ہے: ’’ پاک آرمی ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے ، جن کے پیچھے غیر ملکی ایجنسیاں ہیں‘‘ ۔ یہ جملہ بلاتبصرہ ہے
اس کے علاوہ فوج کے ترجمان نے ملک کی معاشی صورت حال کے بہت اچھا نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ یہ توخیران کا سبجیکٹ نہیں ہے ، اس بیان کی حیثیت ویسی ہی ہے جیسی فوج کے سالار کی جانب سے این اے ایک سو بیس میں بیگم کلثوم نواز کی فتح پر شہباز شریف کو مبارک باد کے لیے فون کال کرنے کی ہے ۔
یہ بات تو اب بہت واضح ہو چکی ہے کہ سول ملٹری ایک صفحے پر نہیں ہیں ۔ اب دونوں جانب سے جاری کیے جانے والے اکثر بیانات ’’عمل اوردعمل ‘‘ کے قاعدے کے تحت دیکھے جارہے ہیں۔
میں نے یہ سطور لکھی ہی تھیں کہ آزادکشمیر کے سابق چیف جسٹس منظور حسین گیلانی کا اس پریس کانفرنس پر دلچسپ تبصرہ دیکھنے کو ملا ۔ ملاحظہ کیجیے:
” آرمی آئین اور قانون کے تحت کام کرتی ہے":فوجی ترجمان
”مہاراجہ ہری سنگھ کے پاس ایک نیم خواندہ آدمی نے وکالت کےلائسنس کی درخواست دی – مہاراجہ نے اس سے پوچھا ” قانون کس کو کہتے ہیں؟ اس نے جواب دیا جو مہاراج فرماتے ہیں ، وہ قانون ہے-” اس کو لائسنس مل گیا-
ہمارے ملک کا قانون ایسا ہی ہے-
1972-73 کا واقعہ ہے میں نے سیشن جج بارہمولہ کے پاس عبدالغنی لون مرحوم کے لیے ضمانت کی درخواست دی جن کو defence of india rules کے تحت گرفتار کیا گیا تھا-
میرے دلائل کے بعد سرکاری وکیل نے عدالت کے اختیار پر اعتراض کیا اور کہا اس قانون کے تحت عدالت کو اختیار سماعت حاصل نہیں ۔ اس پر کشمیری پنڈت سیشن جج نے کہا:
” look here Mr prosecutor, law is what the judges say and do.”
ہمارے ملک کا قانون اور قانون کے یہی معنی ہیں اور اسی کے ساتھ گزارا کرنا پڑے گا جب تک اس سطح کا کوئی لیڈر پیدا نہیں ہوا جو قانون اور آئین اپنے اوپر نافذ کرکے اس کی عملی صورت نہ دکھائے-”