زلزلہ 8 اکتوبر 2005ء: 12 برس گزر گئے،متاثرین کی بحالی کا عمل مکمل نہ ہوسکا، جامع رپورٹ

8 اکتوبر 2005 کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں آنے والے قیامت خیز زلزلے میں86 ہزار افراد لقمہ اجل اور70 ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اس زلزلے سے مجموعی طور پر 6 لاکھ مکانات متاثر،33لاکھ افراد بے گھر ، سینکڑوں افراد لاپتہ ( آزاد حکومت کے پاس کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں کہ اس زلزلے کے نتیجے میں کتنے لوگ اب بھی لاپتہ ہیں) اور30 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا تھا۔7.6شدت کے اس زلزلے سے سب سے زیادہ متاثر مظفرآباد اور بالاکوٹ ہوئے تھے جبکہ دوسرے متاثرہ علاقوں میں باغ اور راولا کوٹ کے علاوہ خیبر پختونخوا کے بٹگرام، ایبٹ آباد، ناران کاغان اور اسلام آباد شامل تھے۔متاثرہ علاقوں میں تباہی کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں جبکہ متعدد افراد آج بھی بے یارو مددگار ہیں۔ 1400 سے زائد تعلیمی اداروں کو ابھی تک چھت بھی میسر نہ آ سکی۔اس زلزلے کا مرکز پاکستان کے شمال مشرق میں مظفرآباد سے لگ بھگ 19 کلومیٹر دور شمال مشرق میں تھا اور اس کی گہرائی محض سطح زمین سے محض 26 کلومیٹر تھی۔ اسے ماہرین ہمالیائی سلسلے کے ہزارہ کشمیر جوڑ کہتے ہیں۔

[pullquote]میں قبرستان کا وزیر اعظم ہوں[/pullquote]

2005 کے زلزلے کے بعد ایک جگہ آزاد کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعظم سردار سکندر حیات نے کہا تھا ’’میں ایک قبرستان کا وزیر اعظم ہوں‘‘۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زلزلے سے حقیقت میں کتنی تباہی ہوئی ہے۔ اس وقت ہر چہرہ پریشان تھا، لوگ ملبے سے نکالی گئی لاشوں کے لیے کفن کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ کئی جگہوں پر مسخ شدہ لاشوں کو دفنانے کے لیے اجتماعی قبریں کھودی گئیں۔ تا ہم متاثرین میں بھی ایک جذبہ تھااور ان لوگوں میں بھی جو اس سانحے کے شکار لوگوں کی مدد کرنے آئے تھے۔

[pullquote]امدادی کارروائیاں [/pullquote]

دنیا بھر سے زلزلہ زدگان کی بحالی کیلئے ایک اندازے کے مطابق 5 ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا تھا جو دنیا نے امداد کی صورت میں دیا۔زلزلہ کے بعدملک بھر سے رضاکار متاثرین کی مدد کے لیے آنا شروع ہوگئے۔ کینیڈا، امریکا، اور برطانیہ ، کیوبا، ترکی اور متحدہ عرب امارات سے ڈاکٹرز ضروری سامان کے ساتھ پہنچے اور فیلڈ ہسپتال قائم کر کے زخمیوں کے علاج اور آپریشن کئے۔ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے مالی امداد آئی اور دنیا بھر سے لوگوں نے حکومتِ پاکستان کو اپنے عطیات بھیجے۔

[pullquote]متاثرہ علاقوں میں جرائم اور بد عنوانیاں [/pullquote]

زلزلے کے بعدجب متاثرہ علاقوں کی سڑک کھولی گئی تو ایک منظم جرائم پیشہ گروہ کے متاثرہ علاقوں سے گاڑیاں چرانے اور تباہ شدہ گھروں سے قیمتی سامان اٹھا کر لے جانے کی خبریں بھی مقامی سطح پر گردش کرتی رہیں ۔یہ بھی اطلاعات تھیں کہ زلزلے سے متاثرہ کچھ لڑکیوں کو جنہوں نے اس سانحے میں اپنے خاندانوں کو کھو دیا تھا، انہیں اغوا کر کے ملک کے دیگر حصوں میں اسمگل کر دیا گیا ۔ جس پر اس دوران حکومت نے فورا بچوں، خصوصا لڑکیوں کے متاثرہ علاقوں سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی۔یہ بھی ہوتا رہا کہ متاثرین کے لئے لائے جانے والے امدادی سامان کے ٹرکوں اور کنٹینروں سے طبی آلات، دوائیں، کمبل اور خیمے چرائے یا چھینے گئے اور بعد میں انہیں ملک کے دیگر حصوں میں فروخت کے لیے اسمگل کر دیا گیا۔اس پر انتظامیہ نے متاثرہ علاقوں سے باہر جانے والے تمام ٹرکوں اور گاڑیوں کی تلاشی کے لیے چوکیاں قائم کی گئیں۔ زلزلہ متاثرین کو امداد کی تقسیم میں بھی بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا مظاہرہ دیکھا گیا۔

[pullquote]ایک کے بعد دوسری قدرتی آفت کا انتظار[/pullquote]

ہماری حکومت اور لوگوں نے اکتوبر 2005 کے زلزلے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ بارشوں یا زلزلوں سے بچا ؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں ناکامی نظر آتی ہے۔ ہماری حکومت اور لوگ ایک کے بعد ایک قدرتی آفت کا انتظار کرتے ہیں تاکہ دوسرے ممالک اور لوگوں سے امداد آئے تاکہ عوام اور ماحولیات کی قیمت پر پیسے بنائے جائیں۔

[pullquote]12 سال بعد[/pullquote]

زلزلے کے 12 سال بعد جب جائزہ لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور لوگوں نے اکتوبر 2005 کے زلزلے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔آج زلزلہ سے متاثرہ علاقے کا جائزہ لیا جائے تو ان شہر وں میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عوام کے تحفظ کو نظر اندازکرتے ہوئے کثیر المنزلہ عمارات تعمیر ہوئی ہیں۔حکومت کو اس علاقے میں عمارتوں کی تعمیرات کے لیے سخت قواعد و ضوابط بنا کر ان پر سختی سے عملدرآمد کرواناچاہیے تھا جو نہ کر سکی۔ پچھلے بارہ سالوں میں فراہمی و نکاسی آب کا مناسب نظام نہیں بنایا جاسکا ۔اسکولوں کی حالت بھی چنداں مختلف نہیں، طلبا اور اساتذہ ہیں لیکن بنیادی سہولیات جیسے کہ فرنیچر، لیبارٹریاں، لائبریری، ٹوائلٹس، پانی، اور صاف ماحول میسر نہیں ۔ صحت مراکز میں کوئی بھی تربیت یافتہ طبی عملہ جیسے کہ ڈاکٹر، نرسیں اور دائیاں موجودہیں نہ ہی مریضوں کے لیے دوائیں موجودہیں۔ یہاں تک کے کچھ بڑے ہسپتالوں کے علاوہ کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے کوئی سہولیات دستیاب ہیں نہ ہی وہاں حاملہ خواتین اور بچوں کی صحت کے لیے کوئی منظم نظام قائم ہو سکا۔ زلزلے کے بارہ سالوں بعد ہمیں یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ ہم نے بہت سا وقت گنوا دیا ہے، مگر اب بھی درست سمت میں درست قدم اٹھانے کا موقع موجود ہے۔

[pullquote]تعلیمی اداروں کی کسمپرسی [/pullquote]

تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی از سر نو تعمیر میں سست روی کے باعث بیشتر طلبا و طالبات جن میں اکثریت بچوں کی ہے اب بھی خیموں میں یا پھر کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ زلزلہ زدہ علاقوں میں 12 سال گزر جانے کے بعد تباہ شدہ تعلیمی اداروں کی عمارتوں میں 1400 پر ابھی تک شروع نہ ہو سکا۔مظفرآباد، باغ اور پونچھ کے بیشتر تعلیمی ادارے حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔راولاکوٹ کے نواحی علاقے کھائیگلہ میں قائم گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کی بچیاں زلزلے کے بعد سے ابھی تک خمیوں میں یا پھر کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کررہے ہیں، یہ خیمے اب بوسیدہ ہوچکے ہیں اور جگہ جگہ پھٹے ہوئے ہیں۔طالبات کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی مرتبہ احتجاج کیا لیکن ہر مرتبہ انتظامیہ کے نمائندے آکر کبھی ہفتہ اور کبھی ایک ماہ بتاتے ہیں کے اس عرصے میں تعمیر شروع ہوجائے یوں بارہ سال گزر گئے ہم پتھروں پر بیٹھ بیٹھ کر پتھر بن گئے ۔ اس اسکول میں تقریباایک سو پچاس بچیاں زیر تعلیم ہیں ۔

ساتویں جماعت کی طالبہ فاخرہ کہتی ہیں کہ چھٹی کے بعد ہماری کلاس رومز کتوں کی آماجگاہ بنا ہوتے ہیں اور دوسر ے دن صبح آکر پہلے کتوں کا بھگانا پڑتا ہے پھر کلاسز میں بیٹھ کر پڑتے ہیں ۔طالبات کا کہنا ہے کہ یہاں نہ واش رومز کی سہولت ہے اور نہ ہی پینے کا پانی دستیاب ہے ہم اپنی کتابیں لائیں یا پھر پانی کے گیلن ؟ ہمیں غریبی کی سزا دی جارہی ہے۔

جماعت سوئم کی طالبہ سدرہ کا کہنا ہے کہ گرمی ہو یا سردی بارش ہو یا دھوپ وہ ان ہی خیموں میں پڑھنے کے لئے مجبور ہیں۔ ہمیں شدید گرمی میں ان کے خمیوں میں پنکھے نہیں ہوتے اور نہ ہی سردی سے بچاؤ کا کوئی انتظام ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو پانی خیمے کے اندر آجاتا ہے اور ہم اس میں بیٹھ نہیں سکتے ہیں اور ہمیں چھٹی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہماری تعلیم متاثر ہورہی ہے۔

دسویں جماعت کی طالبہ ارم کا کہنا ہے کہ میں ابتدا سے اسی سکول میں زیر تعلیم ہوں ان دس سالوں کے دوران کچھ حکومتی اہلکار اسکول میں آتے اور فوٹو بنواتے اور چلے جاتے ہیں لیکن ہماری عمارت کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔اس اسکول کی اساتذہ کی بھی یہی التجا ہے کہ ان کو چھت فراہم کی جائے تاکہ بچے مناسب ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں۔

گزشتہ بارہ سالوں میں انتظامیہ لوگ صرف تسلیاں ہی دیتے رہے تعمیر نہ کروائی اس صورت حال میں ہم کیا پڑھائیں اور طالبات کیا پڑھیں ؟ یہ معاملہ صرف اسی اسکول کے بچوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ متاثرہ علاقوں میں بیشتر بچے خمیوں میں یا پھر کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستان کے تعمیر نو و بحالی کے ادارے ایرا نے کشمیر کے زلزلہ زدہ علاقوں میں تباہ شدہ تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو تین برسوں میں مرحلہ وار از سر نو تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔لیکن تیرواں مالی سال شروع ہونے کے باوجود حکام کے مطابق ان میں سے 1400 عمارتوں پر ابھی کام شروع ہی نہیں کیا گیا۔اس کا سامنا زلزلہ زدہ علاقوں میں ان طالب علموں کو کرنا پڑرہا ہے جواب بھی خیموں میں یا پھر کھلے آسمان کے نیچے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔

[pullquote]مظفرآباد پھر تباہی کے دہانے پر؟[/pullquote]

صحافی ابرار حیدر کی ڈان ڈاٹ ٹی وی پر شائع ہونے والی رپورٹ

گریٹ ہمالیہ اور پیر پنجال کے دامن میں فطرت انسانی کی تسکین کا سامان لیے ایک اہم شہر واقع ہے جو زمانہ قدیم سے حملہ آوروں، تجارتی قافلوں، مذہبی راہنماں ریشی سنت ، سادھوں اور اولیااللہ کی گزرگاہ رہا ہے، اور جسے اولین تاریخ میں اڈا بانڈا لکھا گیا اور اب مظفرآباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔

صدیوں تک انسانیت کو دامن میں سمونے والے مظفرآباد کے بارے میں تصور کیا جاتا ہے کہ سینکڑوں برس قبل ٹانڈا فالٹ لائن ایکٹو ہونے کی وجہ سے پہاڑوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی جس کی وجہ سے چند سو یا چند ہزار کی آبادی آن واحد میں 2005 کے زلزلے کی طرح لقمہ اجل بن گئی ہوگی۔

2005 کے زلزلے میں پہاڑی سلسلوں پر ناقص تعمیرات کے باعث ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور لاکھوں معذور و بے گھر ہوئے۔ جہاں ایثار و قربانی کی داستانیں رقم ہوئیں تو وہیں خود غرضی اور نفسا نفسی پر مبنی نئی تہذیب نے بھی جنم لیا۔ جنرل پرویز مشرف کی عالمی ساکھ و مساعی جمیلہ سے یہ شہر پہلے سے بھی بہترین انداز میں آباد ہوا، مگر آزاد خطے کی حکومتوں نے شہر کو جدید انداز میں نہ بنانے اور زلزلہ پروف عمارتیں نہ بنوانے، فالٹ لائن پر رہائشی و کمرشل پلازوں کی تعمیر نہ روک کر ایک مرتبہ پھر لاکھوں زندگیوں کو موت کی دہلیز پر چھوڑ دیا ہے۔

ہمالین فرنٹل تھرسٹ (ٹانڈا فالٹ)اور مین بانڈری تھرسٹ (جہلم فالٹ) پر موجود مظفرآباد شہر جب 2005 کے ہولناک زلزلے میں تباہ ہوا تو جاپان بین الاقوامی تعاون کے ادارے (JICA) نے دو سالوں کی انتھک محنت و ریاضت سے ایک رپورٹ مرتب کی جو ادارے کے نائب صدر کی جانب سے مرکزی و آزاد حکومت کے ذمہ داران کو پیش کی گئی۔

اس اسٹڈی میں مظفرآباد کو درپیش خطرات اور تدارک کی ممکنہ تجاویز پیش کی گئیں۔ جائیکا نے پرانا شہر ڈھیریاں، طارق آباد، چہلہ بانڈی، ماکڑی، میرا تنولیاں، اور رنجاٹہ سمیت متعدد علاقے ناقابل رہائش قرار دیے۔ جائیکا کا موقف ہے کہ یہ زمین آبادی برداشت کرنے کے لائق نہیں۔ مزید برآں شہر کے اردگرد موجود ڈھلوانوں پر ہر طرح کی تعمیرات سے منع کیا۔

جائیکا نے لینڈ سلائیڈنگ کے شدید خطرے کے ممکنہ 18 مقامات کی نشاندہی بھی کی، جن پر بسنے والے انسانوں اور قائم جائیدادوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور قرار دیا کہ پہاڑوں کی توڑ پھوڑ سے بجری بن رہی ہے، اس مٹی کے تودوں اور زمین ٹوٹنے کے باعث شہری آبادی میں آنے والے ملبے کو روکنے کی لیے چک ڈیم بنائے جائیں۔

جائیکا نے تعمیر نو کے لیے ماسٹر پلان مرتب کیا اور حکومت کو تجویز پیش کی کہ انتہائی خطرناک علاقوں کو آبادی سے مکمل طور پر خالی کروا کے متعلقہ مقامات کو کھلا چھوڑا جائے، شہر میں پارکس کا جال بچھایا جائے اور شجر کاری بھی کی جائے۔ جائیکا نے قرار دیا ہے کہ کسی بھی وقت کبھی ختم نہ ہونے والی خشک لینڈ سلائیڈنگ دریائے نیلم کو روک دے گی لہذا ممکنہ سیلاب کی روک تھام کا اہتمام کیا جائے، شہر کی بڑی تعداد میں آبادی میونسپل کارپوریشن کی حدود سے باہر منتقل کی جائے۔

مگر آزاد کشمیر میں یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی کوئی بھی حکومت جائیکا کی سٹڈی کو خاطر میں نہیں لائی۔ جائیکا نے ماسٹر پلان میں گلی، سڑک کی چوڑائی سے لے کر تعمیراتی کوڈ تک بتایا مگر مجال ہے جو جائیکا کی تجاویز پر عملدرآمد ہوا ہو۔

جائیکا نے جن مقامات سے آبادی کی منتقلی کا زور دیا وہاں نئی اور گنجان آبادیاں بن چکی ہیں۔ بجری مٹی کے تودے روکنے کے لیے چک ڈیم بنانا تو درکنار، صدیوں سے بہنے والے ندی نالوں میں گھر اور دکانیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔

میونسپل کارپوریشن اور شہری ترقیاتی ادارے کی نااہلی کی وجہ سے مظفرآباد شہر کے لیے یہ نیا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے لنگر پورہ، ٹھوٹھہ کے مقامات پر 300 ایکڑ زمین تو بین الاقوامی امدادی اداروں اور حکومت پاکستان کے مالی تعاون سے خرید رکھی ہے مگر دس برس گزرنے کے باوجود ایک انچ زمین متاثرہ خاندانوں کو نہیں دی اور نہ ہی انتہائی خطرناک علاقوں میں موجود آبادی کو منتقل کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا۔

جائیکا کی تجویز کے مطابق انتہائی خطرناک جگہیں خالی نہیں کروائی گئیں اور نہ ہی کوئی پارک بنایا گیا۔ خطرناک مقامات اور ندی، نالوں اور ڈھلوانوں پر موجود سینکڑوں گھر اور کاروباری مراکز کسی بھی لمحے لینڈ سلائیڈنگ یا زلزلے کی وجہ سے زمین میں دھنس سکتے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ہے۔

عالمی سطح پر جانے جانے والے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر رستم خان جو 2005 سے قبل بھی خطرات سے آگاہ کر چکے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈین پلیٹ 780 ملین سال قبل افریقی پلیٹ سے الگ ہو کر رشین پلیٹ سے جڑی ہے، اس پلیٹ کے سامنے کے حصے ٹوٹ کر اوپر آئے ہیں۔ ایک فالٹ لائن برما سے آسام، نیپال، اور شمالی ہندوستان سے کشمیر اور شمالی پاکستان پوٹھوہار، اٹک سے ہوتی ہوئی افغانستان جا رہی ہے اور یہ ایکٹو ہے۔

ڈاکٹر رستم خان کے مطابق مظفرآباد اور اس سے ملحقہ علاقے 30 کلومیٹر چوڑی اور 100 کلومیٹر لمبی پٹی پر واقع ہیں اور اس پٹی میں توڑ پھوڑ کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ اس پٹی پر کریکس ہیں اور اس میں ڈولومائیٹ نامی دھات ہے جو جب پانی کے ساتھ ملتی ہے، تو ری ایکشن میں پہاڑی پتھر ٹوٹتے ہیں۔ مظفرآباد، باغ، نوسیری، اور بالاکوٹ عباسیاں تک جو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو رہے ہیں، یہ اس کی وجہ سے ہی ہے۔

تاریخی اعتبار سے ہمالیہ میں سو سال کے اندر بڑا زلزلہ آیا ہے۔ جموں میں 1905 میں زلزلہ آیا تھا اور مظفرآباد 2005 میں تباہ ہوا۔ سری نگر میں سو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مگر بڑا زلزلہ نہیں آیا۔ عالمی ماہرین جو زلزلے کی پیشن گوئی کر رہے ہیں، وہ تاریخ کے تناظر میں کر رہے ہیں، چونکہ اس خطے میں ایسا ہمیشہ ہوتا آرہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 1977 سے پہلے کوئی پتھر ریزہ ریزہ نہیں تھا اور چٹانیں ہی چٹانیں تھیں، پھر بھی چہلہ کے مقام پر خشک سلائیڈ آئی جو کئی دن چلتی رہی اور نیلم دریا بند ہو گیا تھا، جسے آرمی کے جوانوں نے بحال کیا تھا۔ اب تو مظفرآباد کے گرد و نواح کے پہاڑ بجری بن چکے ہیں۔

یہ بجری نالوں کے ذریعہ شہر میں آرہی ہے کسی بھی زلزلے یا لینڈ سلائیڈنگ کے باعث یہ ہنستا بستا شہر اور سو کلومیٹر کی پٹی جس میں لاکھوں لوگ بستے ہیں، ایک بار پھر تباہی کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ آزاد کشمیر اور مظفرآباد میں تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی تعداد مقیم ہے مگر کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ وہ جغرافیائی طور پر کس قدر خطرناک مقام پر رہائش پذیر ہیں۔ 2005 کا زلزلہ ایک واحد واقعہ نہیں تھا، بلکہ ایسا ماضی میں بار بار ہوتا رہا ہے، اور اب کی بار مزید شدت سے ہونے کا امکان ہے۔

اگر ہمارے حکام عالمی اداروں اور سائنسدانوں کی واضح نشاندہی کے باوجود آنکھیں نہیں کھولیں گے تو خدانخواستہ اس کا نتیجہ ہزاروں لوگوں کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

[pullquote]حکومت اور این جی اوز نے ہمیں شو پیس کے طور پر استعمال کیا [/pullquote]

اکتوبر 2005کے زلزلے کو12برس بیت گئے۔ زلزلے میں ملبے تلے دب کر ساری عمر کیلئے معذور ہونے والے مردوخواتین تاحال بے بسی کی تصویر بنے کی تصویر بنے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔ اربوں ڈالر کی امداد آنے کے باوجود ان کا علاج اور بحالی ابھی تک ممکن نہ ہو سکی۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلیٹشن میڈیسن (NIRM)میں عمر بھر کیلئے زیر علاج معذور خواتین علاج کی سہولیات نہ ہونے کے باعث اپنے گھر یا آبائی علاقے میں نہیں جا سکتیں۔

متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت اور این جی اوز ہمیں بار ہا اپنے پروگرامات میں لے جاتی ہیں اور بیش بہا فنڈز حاصل کرتی ہیں لیکن کھی ہمارے لئے کچھ نہ کیا گیا۔حکومت اور این جی اوز نے ہمیں شو پیس کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کشمیر ٹائمز سے متاثرہ خواتین نے خصوصی گفتگو کی اس دوران زیر علاج سکینہ بی بی جن کا تعلق ضلع باغ سے ہے ان کا کہنا ہے کہ علاج تو ہورہا ہے لیکن کوئی افاقہ نہیں ہے ۔گھر پرسہولیات نہ ہونے کے باعث یہاں رہنے پر مجبور ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ والدین فوت ہوچکے ہیں ، رشتہ دار بھی نہیں پوچھ رہے ہیں ایسی صورتحال میںیہ جگہ چھوڑ کر کہاں جائیں ہمیں سنبھالنے والا کوئی موجود نہیں یہاں بیٹھ بیٹھ کر ذہنی مریض بن چکی ہیں ۔ ہسپتال انتظامیہ جہاں تک ممکن ہے دیکھ بھال کررہی ہے ۔

انظر بی بی آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد کے ایک نواحی گاؤں سے ہیں ان کا کہنا ہے کہ 12 سالوں میں آزادکشمیر کے حکمرانوں نے امداد توکیا کرنی تھی عیادت کیلئے آنا تک گوارہ نہیں کیا۔ حکومت آزادکشمیر اگر اپنے علاقے میں سہولیات اور چھت نہیں دے سکتی تو زہر دیدے۔ان کا کہنا ہے کہ بیڈ سول کے باعث بننے والے زخموں کا علاج آزادکشمیر میں ممکن نہیں ۔ گھر والوں نے بھی چھوڑا، ذہنی طور پر مفلوج ہوتی جارہی ہیں یہاں اپنی خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے رہ رہی ہوں اگر آزاد حکومت سہولیات مہیا کرے تو آج بھی جانے کو تیار ہیں۔

ارشد بی بی 2005 کے زلزلے میں ملبے تلے دب کر ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جانے سے زندگی بھر کیلئے معذور ہو چکی ہیں ان کا کہنا ہے کہ آبائی علاقے مظفر آباد میں علاج کی سہولیات نہیں ۔

آزادکشمیر کے ضلع باغ سے تعلق رکھنے والی ظریفہ بی بی نے بتایا کہ سابق وزیراعظم آزادکشمیر سردار عتیق احمد خان نے ایک مرتبہ اعلان کیا لیکن وہ بھی عہدہ وفا نہ کرسکے ۔ انہوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے یہاں کا دورہ کیا اور کہا کہ متاثرہ خواتین کو سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ان کو آزاد کشمیر میں لایا جائے گا لیکن اس کے بعد کوئی ہمیں ملنے نہ آیا ۔

ان کا کہنا ہے کہ زلزلے کی ہولناک اور وحشت سے آج بھی ڈر لگتا ہے ۔ اللہ پاک وہ وقت دوبارہ کبھی نہ لے کر آئے انہوں نے کہا کہ وہ وقت یاد کر کے بھی ڈر لگتا ہے ، زلزلے میں متاثر ہونے کے بعد اس ہسپتال میں علاج تو ہو رہا ہے لیکن عمر بھی کی معذوری مقدر بن چکی ہے ۔

مظفر آباد سے تعلق رکھنے والی بابو النسا کا کہنا ہے کہ موسم سرما ہمارے لئے انتہائی مشکل ترین ہوجاتا ہے ٹانگیں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔

ارشہ بی بی نے بتایا کہ حکومت آزادکشمیر کی جانب سے ہماری کوئی امداد نہیں کی گئی ۔ ہسپتال میں بہت ساری خواتین زندہ لاشیں بنی پڑی ہیں حکومت آزادکشمیر اگر اپنے شہریوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کرسکتی تو پھر ہم جیسے لوگوں کو زہر دے دے ۔ غریبوں کا کائی پرسان حال نہیں ہے جب بھی 2005ء کے بارے میں خیال ذہن میں آتا ہے تو آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوتے ہیں اپنے اللہ کے سواکوئی آسرا نہیں ہے ۔

اسما کا کہنا ہے کہ اللہ کسی دشمن کو بھی اس مرض میں مبتلا نہ کرے انہوں نے کہا کہ حکمرانوں نے ہمیں جانور سے بھی بد تر سمجھا ہے۔ کوئی شنوائی نہیں ۔ حکومت نے ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے اگر کوئی حکمران عیادت کیلئے آ ہی جاتا تو ہمیں افسوس نہ ہوتا۔انہوں نے بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ انٹرمیڈیٹ کی طالبہ تھیں ۔ زلزلے کے بعد معذوری کی حالت میں جب یہاں منتقل ہوئیں اور کوئی پرسان حال نہ ہونے کے باعث اسی ہسپتال کی مدد سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور اب سرکاری نوکری کر رہی ہوں تاہم علاج کے تسلسل کے باعث یہاں سے منتقل نہ ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا حکومت اور این جی اوز ہمیں بار ہا اپنے پروگرامات میں لے جاتی ہیں اور بیش بہا فنڈز حاصل کرتی ہیں لیکن کھی ہمارے لئے کچھ نہ کیا گیا۔حکومت اور این جی اوز نے ہمیں شو پیس کے طور پر استعمال کیا ہے۔

[pullquote]مطلوبہ فنڈز دئے جائیں تو تین سال میں تمام منصوبہ جات مکمل ہو جائیں گے[/pullquote]
ڈپٹی چیئر مین ایرا بریگیڈئیر ابوبکر امین باجوہ کا کہنا ہے کہ اگر حکومت مطلوبہ فنڈز مہیا کرے تو تین سال میں تمام کام(جو تیس فیصد پراجیکٹس باقی ہیں) مکمل کر لیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے افسوس ہے کے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر مکمل نہ ہو سکی جس وجہ سے طلبا و طالبات مشکلات کا شکار ہیں۔ آزاد کشمیر میں ہمارے پاس سات ہزار سات سو بیالیس (7742) پراجیکٹس تھے جن میں سے پانچ ہزارتین سو چھبیس 5326 مکمل ہو چکے ہیں، پندرہ سو 1500 پراجیکٹس پر کام جاری ہے جبکہ نو سو نو 909 پراجیکٹس ایسے ہیں جن پر ابھی کام شروع نہیں ہو سکا۔ اس وقت آزاد کشمیر میں التوا کا شکار منصوبوں میں بڑی تعداد تعلیمی اداروں کی ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ ایرا نے قدرتی آفات کے دوران ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے چار ہزار (4000) خواتین سمیت بیس ہزار (20000) افراد کو خصوصی تربیت دی۔ انہوں نے بتایا کہ ایرا کوبحالی نو کے حوالے سے بہترین کارکردگی پر ’’اقوام متحدہ کا ساساکاوا ایوارڈ‘‘بھی ملا جو آج تک پاکستان کے کسی دوسرے سرکاری، نیم سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کو نہیں ملا۔(’’ساساکاوا ایوارڈ‘‘ قدرتی آفات اور ان سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کرنے کے سلسلے میں ہر سال دیا جاتا ہے )۔ ایرا کو یہ ایوارڈ ان خدمات کے اعتراف میں دیا گیا جو اس نے زلزلہ زدہ علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کے کام کئے۔

ڈپٹی چئیر مین ایرا کا کہنا ہے کہ 2005 کے زلزلے کے بعد جب ایرا کا قیام عمل میں آیا تو کل چودہ ہزار سات سو پانچ (14705) پراجیکٹس کی نشاندہی کی گئی جن کی تعمیر نو کی ذمہ داری ایرا کے پاس تھی ۔ اس وقت تک ان میں سے ستر فیصد یعنی دس ہزار سات سو اڑتیس(10738) منصوبہ جات مکمل کر کے متعلقہ اداروں کے سپرد کئے جا چکے ہیں، بیس فیصد منصوبے ایسے ہیں جن پر ابھی کام جاری ہے جبکہ دس فیصد منصوبہ جات پر ابھی کام شروع نہ ہو سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جرمنی کے تعاون سے شروع کئے جانے والے اپنے اہداف کو مقررہ وقت میں مکمل کیا جس پر جرمنی نے تقریبا سوا پانچ ارب روپے کا قرضہ معاف کیا تھا جو انہوں نے بحالی نو کیلئے دیا تھا۔ اس کیلئے شرائط یہ تھیں کہ مقررہ مدت میں اہداف کو مکمل کیا جائے تو جرمنی یہ رقم واپس نہیں لے گا جس پر ایرا نے مقررہ مدت میں اہداف کو مکمل کیا ۔

انہوں نے بتایا کہ 2005 میں آنیوالے زلزلے سے ہونے والے نقصان کو پوراکرنے اور بحالی نو کیلئے پانچ ارب ڈالرز کا تخمینہ لگایا گیا تھا اور اس کے لگ بھگ رقم زلزلہ زدگان کی بحالی اور تعمیر نو کیلئے آئی لیکن ہمیں مطلوبہ فنڈز نہیں مل سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ہمارے مطلوبہ فنڈز ادا کرتی تو اس وقت تک تمام پراجیکٹس مکمل ہو چکے ہوتے ۔ اس وقت بھی اگر فنڈز کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے تو تین سال کا تمام منصوبہ جات مکمل کر لئے جائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ اب فنڈز بہت کم ملتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ایرا کے سٹاف میں بھی پچاس فیصد کمی کر دی گئی ہے۔ اب ہم اگر 12 ارب کی سمری بھیجتے ہیں تو اس میں سے ہمیں چار ارب دئے جاتے ہیں جس وجہ سے منصوبہ جات التوا کا شکار ہوتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں بریگیڈئیر ابوبکر امین نے بتایا کہ ایرا نے جتنی تعمیرات کی ہیں وہ تمام بلڈنگ کنسٹریکشن کوڈ کے مطابق ہیں جو زلزلے کی بڑی شدت کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ اس کی واضح مثال اکتوبر 2015میں خیبر پختونخواہ میں جو زلزلہ آیا اس میں ایرا کی تعمیر کردہ کی عمارت کو نقصان نہیں پہنچا۔

انہوں نے بتایا کہ وہ تین سال سے ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں اس دوران ان کی ترجیح آزاد کشمیر میں تعلیمی اداروں کی تعمیر مکمل کرنا رہی ہے اور ان کو ملنے والے بجٹ کا پچاس فیصد سے زائد حصہ تعلیمی اداروں کیلئے مختص رہا اور جو باقی تعلیمی ادارے رہ گئے ہیں ان کو بھی تر جیحی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے گا۔اس کے بعد صحت کے مراکز کی تعمیر دوسری ترجیح ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آزاد کشمیر میں صحت کے 320 منصوبوں میں سے 219 مکمل ہو چکے ہیں ، 56 زیر تعمیر ہیں جبکہ 45 پر کام شروع نہیں ہو سکا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ فالٹ لائن پر موجود شہر منتقل تو نہیں کئے جا سکتے تاہم ان کی تعمیر ایسی کی جانی چاہئیے کہ قدرتی آفات میں وہاں کم سے کم نقصان ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسلام آباد کے قریب سے بھی ایک فالٹ لائن گزر رہی ہے اس وجہ سے اسلام آباد کو کہیں اور منتقل تو نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کو تجویز دی کہ ایرا ERRA کو نیشنل ری ہیبلیٹیشن ری کنسٹریکشن اتھارٹی کا نام دیکرمستقل ادارہ بنایا جائے تاکہ جن لوگوں کو تربیت دی گئی ہے اس سے کام لیا جا سکے لیکن اس پر کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے