لاپتہ افراد اور ریاست کا مفاد

افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے، غیرت مند لوگ اپنی ماں کی طرح ریاست سے محبت اور اس کی حفاظت کرتےہیں، بدقسمتی سے ریاست پاکستان میں چند سالوں سے اس دھرتی کے بیٹے لاپتہ ہونا شروع ہو گئے ہیں، ان لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں فی الحال ٹھیک طور سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جسٹس(ر)جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم انکوائری کمیشن کی اگست2017کی جاری شدہ رپورٹ کے مطابق کمیشن کے پاس لاپتہ افراد کی مجموعی تعداد 1372 ہے، عوام کی سہولت کے لئے کمیشن نے www.coioed.pk کے نام سے ویب سائٹ بنا دی ہے جس پر کیسوں کی تفصیل اور سماعت کی تاریخوں سمیت دیگر معلومات دستیاب ہیں جبکہ سول سیکرٹریٹ پنجاب لاہور میں کمیشن کا باضابطہ طور پر سب آفس قائم کر دیا گیا ہے اس سب آفس کا رابطہ نمبر042-99210884ہے۔

تاہم دوسری طرف آزاد ذرائع کےمطابق صرف بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بیس ہزار سے اوپر ہے جبکہ ملک کے دیگر حصوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد بھی ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔

ہماری دانست کے مطابق اب ریاستی اداروں کو اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی چایے۔ مثلا بلوچستان کے عوام کو جسمانی طور پر اغوا کرنے کے بجائے ان کےانسانی حقوق ادا کئے جائیں، انہیں وڈیروں کی غلامی اور قبائلی تعصب سے نکالا جائے ، تعلیم اور صحت سمیت رفاہِ عامہ پر خصوصی توجہ دی جائے ، ان کے عوامی مطالبات کو بخوشی قبول کیا جائے اور غلط فہمیوں کو ختم کر کے انہیں قومی دھارے میں لایا جائے۔

اسی طرح ملک کے دیگر حصوں سے اگر لوگوں کو دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے پکڑا گیا ہے تو ہماری عرض یہ ہے کہ دہشت گردی کے سارے مراکز ہماری ایجنسیوں کو پتہ ہیں، بلا شبہ ان پر پابندی لگنی چاہیے اور ریاست کو چاہیے کہ وہ جہاد کے عنوان کو اپنے لئے مخصوص کرے ، کسی بھی مدرسے یا مولوی کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ جہاد کا علم بلند کرے۔

اگر حکومت کو یہ ضرورت ہے کہ لوگوں کو جہاد کی تربیت دی جائے تو یہ کام مسلکوں، مسجدوں اور فرقوں سے بالاتر ہوکر حکومتی مراکز میں ، حکومت کی سرپرستی میں ہونا چاہیے۔

تعلیمی اداروں سے کلاشنکوف کلچر اور شدت پسندی کو ختم کرنے کے لئے ماضی کے این سی سی کے کورس کی طرح کے کورسز لانچ کر کے جوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کی جانی چاہیے۔

اسی طرح جن لوگوں کو افغانستان، شام یا کشمیر میں جاکر جہاد کرنے کے شک میں اٹھایا گیا ہے،حکومت کو ماننا چاہیے کہ ان سارے مسائل میں خود حکومت ہی قصور وار ہے۔

ملک میں کسی کو بھی مسلکی ، علاقائی یا لسانی بنیادوں پرہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، لیکن ہمارے ہاں ماضی میں حکومت نے ایک مخصوص مسلک کو عسکری تربیت دی اور ان کے لئے بیرونِ ملک جاکر لڑنے کے دروازے کھولے، آج اس کا نتیجہ یہ نکل رہا
ہے کہ اب حکومتی ادارے انہی لوگوں سے ڈر رہے ہیں۔

اس وقت حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جہاد کے حوالے سے تمام مسالک و مکاتب کے لئے یکساں پالیسی کااعلان کرے ، اور جو لوگ حکومت کی نئی جہاد پالیسی کو تسلیم کریں اور تعاون کا عہد کریں ، انہیں اغوا اور لاپتہ کرنے کے بجائے ، اُن سے ملک کے دفاع کے لئے استفادہ کیا جائے۔

ماضی میں جب حکومت خودایک مخصوص فرقے کے لوگوں کو عقیدے کی بنیاد پر مسلح کرتی تھی تو اس سے خود بخود دوسرے مسالک کے لوگوں کو بھی مسلح ہونے کی ترغیب ملتی تھی۔ یہ اسی ترغیب کا نتیجہ ہے کہ آج عقیدے کی جنگ میں پاکستانی جوان ہر محاز پر نظر آتے ہیں۔

یہ حکومت کی ہی بنائی ہوئی پالیسی ہے لہذا اب حکومت کو ہی اس کا مثبت حل سوچنا چاہیے۔اس وقت لاپتہ افراد کے لواحقین نے جیلیں بھرو تحریک کا آغاز کر رکھا ہے، سرکاری اداروں کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ ان افراد کے حوالے سے ان کے لواحقین کو اپنے اعتماد میں لیں اور ملکی سلامتی کے لئے ان سے عہد لے کر ان کے پیاروں کو ان کے حوالے کریں۔

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ افراد کے لئے ریاست ماں کا درجہ رکھتی ہے،لہذا جولوگ اپنے وطن کے وفادار ہیں انہیں عقوبت خانوں سے رہائی ملنی چاہیے۔یہ وقت کی آواز، انسانی ضمیر کا فیصلہ اور یہی ریاست کے بہترین مفاد میں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے