بلوچستان کا نگینہ

ایسا نہیں کہ ہم نے خواتین کو کبھی دیکھا نہیں ہے بہت ساری خواتین کو دیکھا ہے ہر رنگ و روپ میں دیکھا ہے، ماں کے روپ میں بہن کے روپ میں بیوی اور بیٹی کے روپ میں۔ لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ ہم نے ایک خاتون کو ان رشتوں کے علاوہ ایک اسمبلی اسپیکر اور گورنر دونوں کے روپ میں دیکھا تھا۔
ظاہر ہے کہ کبھی ہم ان کو کبھی خود اپنی نظر کو دیکھتے رہے۔ یہ قصہ کوئٹہ میں منعقدہ پشتو عالمی سیمینار کا ہے گو گزشتہ ستمبر 23,22,21 تاریخ کو پشتو اکیڈمی کوئٹہ کے زیر اہتمام ہوئی ،ویسے تو سیمینار کی اور بھی بہت ساری باتیں بالکل نئی تھیں جو ہم زندگی میں پہلی بار دیکھ رہے تھے۔
پاکستان بھارت اور افغانستان میں ہم نے بہت ساری تقاریب دیکھی ہیں لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ کسی تقریب میں وقت کی اتنی پابندی ہوئی ہو۔ گورنر نے افتتاح کیا وزیر اعلیٰ نے اختتام کیا اور بھی ہر نشست میں کوئی نہ کوئی سرکاری شخصیت ہوتی تھی جو حیرت انگیز طور پر وقت کے بعد نہیں بلکہ وقت پر بھی نہیں بلکہ وقت سے پہلے موجود ہوتی تھی اورآخر تک بیٹھی رہتی تھی۔

حالانکہ ہماری تو یہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں دکھ گئیں دل چھلنی ہوگئے اور دماغ بھنا گئے کہ نہ تو کوئی تقریب وقت پر شروع ہوئی ہے نہ ختم ہوئی ہے اور جس میں اگر کوئی سرکاری شخصیت وزیر گورنر تو بہت بڑی چیز ہے اگر کوئی کسی سرکاری دفتر کا چپراسی بھی ہوتا ہے تو آدھا گھنٹہ لیٹ ہونا تو اس کا حق ہے ایک گھنٹہ رعایت ہے اور دو گھنٹے معمول ہیں کچھ ہی عرصے پہلے مشہور لیجنڈ گلوکار خیال محمد کی رسم تاجپوشی قرار پائی جناب گورنر عزت مآب ہنرایکسی لنسی نے شرکت کرنا تھی۔
خیال محمد کو مقررہ وقت ڈھائی بجے وھیل چیئر میں لایا گیا تھا، عزت مآب عالی جناب درنایاب کا انتظار ہو رہا تھا چار بج گئے تو خیال محمد کی ویل چیئر کو دھکیل کر دروازے پر لایا گیا دیکھا تو سامنے راستے پر دو رویہ ملیشیا کا مرصع مرجع اور مزین بینڈ کھڑا ہے۔
عزت مآب دو گھنٹے کی ’’معمولی تاخیر‘‘ کے بعد آنے والے تھے‘ اچانک ہماری ٹیڑھی رگ پھڑکی کہ تقریب تاجپوشی خیال محمد کی ہے تو اسے اس معذور حالت میں عزت مآب کے استقبال کے لیے کیوں لایا گیا ہے۔ منتظمین سے ٹاکرا ہوگیا، لیکن ہم نے زبردستی ویل چیئر کو پکڑا اور اندر لے جانے لگے۔ منتظمین کو تو ہم نے گرج کر خاموش کر دیا لیکن پھر خیال محمد جو درویش آدمی ہیں، نے منت کی کہ میں بڑا آدمی نہیں جو چھوٹا ہو جاؤں گا اس لیے رہنے دیجیے۔
ہم نے اپنی ضد چھوڑ دی لیکن ساتھ تقریب بھی چھوڑ دی جس وقت عزت مآب کا پرجوش پرہنگام اور بینڈ باجہ بارات کیا جا رہا تھا، ہم دوسرے دروازے سے نکل رہے تھے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں‘لیکن کوئٹہ میں ہم نے ایک سیکنڈ کی خلاف ورزی نہیں دیکھی۔ اگر دیکھی ہے تو خصوصی شخصیت کی وقت دس پندرہ منٹ پہلے آمد دیکھی ہے۔
مقالات اور تقاریر کے لیے مقررہ وقت پروگرام لسٹ میں درج تھا۔ ایک منٹ پہلے ہی ایک ’’چٹ‘‘ بولنے والے کے سامنے رکھ دی جاتی تھی۔ لیکن اصل بات تو ہم اس خاتون کی کر رہے ہیں جس کا نام راحیلہ حمید خان درانی ہے اور آخر ی دن جب ان کی طرف سے کھانے کا پروگرام تھا تو گورنر کے بیرون ملک جانے کی وجہ سے قائم مقام گورنر بھی تھیں۔
سیاسی تعلق ان کا مسلم لیگ (ن) سے ہے لیکن پروگرام میں پیش پیش رہی جب کہ شدید بیماری کی حالت میں بھی تھیں۔ لیکن مہمانوں کی آؤ بھگت میں برابر مصروف تھیں۔ اپنا الوداعی خطاب انھوں نے اردو میں کیا حالانکہ سامنے بیٹھے مہمان زیادہ تر پشتون تھے اور افغانستان کے اردو نہ سمجھنے والے بھی تھے۔ لیکن انھوں نے جو بات کی اس پر ہمارے دل میں اس کی عقیدت اور بڑھ گئی۔
بولیں خطاب میں قومی زبان اردو میں کروں گی کیونکہ اس وقت میں سرکاری منصب پر ہوں۔ یہ ان کا ایک اور گن تھا کہ ہر ہر چیز کی اہمیت اور مقام سے واقف تھیں۔ اپنے مختصر خطاب میں انھوں نے پشتو اکیڈمی کوئٹہ اور سیمینار کے منتظمین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ میں چاہے کسی عہدے پر رہوں یا نہ رہوں ممبر ہوں یا نہ ہوں میرا تعاون ہر حال میں زبان وادب سے جاری رہے گا۔ انھوں نے اسمبلی ہال اور متعلقہ دفاتر دکھائے اور مہمانوں کو تحائف سے نوازا۔ بچاری رات گئے تک گولیاں پھانک کر مستعدی کا مظاہرہ کرتی رہیں۔
لیکن یہ ذکر صرف عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ اپنی بے کسی اپنے صوبے کے سیاسی توپوں کی بے حسی پر ایک نوحہ بھی ہے۔ وہاں کے لیڈروں کی بلاتفریق زبان و سیاسی وابستگی دیکھ کر ایسا لگا جیسے ہماری جھولی میں ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کاش ایسا ممکن ہوتا تو ہم اپنے سارے لیڈر دے کر ان سے صرف راحیلہ درانی خوشی اور تشکر کے ساتھ لے لیتے۔
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے