نیلم جہلم پاورپراجیکٹ اورکچھ گہرے اندیشے

آئین پاکستان پاکستان کے کسی بھی علاقے میں دستیاب یا پیدا ہونے والے وسائل پر سب سے پہلے اس ہی علاقے کے باسیوں کو حق کی ضمانت دیتا ہے ، ریاست جموں کشمیر آئین پاکستان کے تحت نہ تو پا کستان کا صوبہ ہے اور نہ ہی اس کا جزو لاینفک بلکہ ریاست جموں کشمیر کو بھارت اورپاکستان کے مابین ایک متنازع خطہ کے طور پر متعارف کرایا جاتا رہا ہے بلکہ اسی طرح جیسے کسی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو حیثیت دیتی جاتی ہے . یعنی اگر کسی کی زمین پر کوئی ہاری یا مزارع آباد ہوتو زمین کی خرید وفروخت سے اس کا سروکار نہیں ہوتا، خرید و فروخت سے نہ صرف زمین کا مالک بدلتا ہے بلکہ ہاری اور مزارع کی نکیل بھی نئے مالک کے سپرد ہو جاتی ہے

اس مخصوص صورت حال میں کسی بھی اہم منصوبے میں ریاستی باشندوں کو کبھی اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی رہی ، البتہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی عالمی قوتوں کے دباؤ کو کم رکھنے اور اپنا سافٹ امیج پیش کرنے کے لئے ریاستی عوام کی رائے حاصل کرنے کا وعدہ تواتر کے ساتھ دہرایا جاتا رہا ہے ، جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے لے کر شملہ اور پھر لاہور سے آگرہ اور واشنگٹن میں کراس ایل او سی ٹریڈ شروع کرنے کے عمل تک کبھی بھی ریاستی باشندوں کو فیصلوں میں شریک کرنا تو درکنار اعتماد میں بھی لئے جانے کی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔

بھارت نے تو کچھ عرصہ رائے شماری کی بات تسلیم کی اور پھر کچھ عرصہ کے بعد ہماری مسلسل” پسپائی” اور .دل میں چور” کی کیفیت کی بنا پر زیردستی پر رضا مندی کے رویہ سے شہہ پاکر ” رائے شماری” کو ریاستی حق خود ارادیت کو مسئلہ کے درجہ سے اتار کر بتدریج پہلے دومتحارب طاقتوں کے درمیان تنازعہ اور پھر اپنا اٹوٹ انگ اوراب اگلے مرحلہ پر شملہ معاہدے کو بنیاد بنا کر” سیز فائر لائن ” کو کنٹرول لائن اور اب بین الاقوامی سرحد بنانے پر ہمیں ذہنی طور پر تیار کردیا ہے جس کی واضح مثالیں ہمارے پالیسی سازوں کے تسلسل کے ساتھ بیانات اور اقدامات ہیں ۔

اور اب صورت حال یہ ہے کہ پاکستان بھی کشمیریوں کےمسئلہ کو تنازع کشمیر ہی کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور کبھی بھارت کی جانب سے کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو ہمارے میڈیا میں "باچھیں کھلی” قیادت فرماتی ہے کہ بھارت نے کشمیر کو "متنازع” تسلیم کر لیا۔ اس ساری صورت حال میں جیتے ، جاگتے ، سانس لیتے ، محسوس کرتے مگر اس جائیداد منقولہ کے ہاری مزارعین اور باشندے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں ، جس سے کسی ایک بھی متحارب گروہ کوسروکار کار نہیں . . . اور ہو بھی کیسے ؟

میرپور ڈیم میں زیر آب دنیا و مافیہا سے لاتعلق اپنی آخری آرام گاہوں میں محو استراحت ہمارے اجداد میں اور زمین پر گھومتے پھرتے پہلے "متاثرہ فریق” کے رد عمل میں ذرا برابر فرق کرنا بھی نا ممکن ہے۔ آج نیلم جہلم ہایڈرو پاور پراجیکٹ کی پہلی 240میگا واٹ ٹربائین چلانے کے لئے دریائے نیلم یا کشن گنگا کا بہاؤ بند کرنے کی اطلاع پر سبھی اپنی بھڑاس نکال کر دل کا بوجھ ہلکا کر رہے ہیں ، لیکن کہیں بھی اس قضیہ کی اصل جڑ پر کوئی لب کشائی کی جرات نہیں کرپا رہا.

اس میں شک نہیں کہ پاکستان کو اس وقت توانائی کے منصوبوں کی اشد ضروت ہے بلکہ بجلی کی پیداوار دوہزار اٹھارہ کے انتخابات پر ایک بہترین نعرہ بنا کر پیش کی جائے گی اور ہو بھی کیوں نا ، دوہزارہ تیرہ کے انتخابات کا سب سے بڑا وعدہ کہ بجلی بحران پر قابو پانا تھا لہذا اس کے لئے اب تک کی گئی انوسٹمنٹ کو ضائع کرنا دانش مندی نہیں ،

کشمیریوں کا مطالبہ ہے کہ ان کے قدرتی وسائل کا استعمال ان کے غیر مشروط حق خود اردیت سے مشروط کر دیا جائے

ریاست کے باشندوں کی کم بختی ہے کہ نہ تو” پوتر اگنی” کے سات پھیرے نصیب ہوئے نہ ہی "ایجاب و قبول” کا باعزت عمل لیکن پھر بھی متحاربین سے تعلق کی کوکھ سے جنم لینے والے تمام قضیوں کو اپنے وجود سے جاری دودھ پلا پلا کر اس امید کے ساتھ جوان کیا جا رہا ہے کہ کل یہ ہمارے مستقبل کا سہارا بنیں گے ، آزاد کشمیر کے ایک سابق حکمران فرمایا کرتے تھے کہ "نیلم جہلم” اور”پترینڈ پروجیکٹ” سے نہ صرف مستقبل میں ہماری بجلی کی ضرورت پوری ہوگی بلکہ ہمیں معقول آمدن بھی ملے گی لیکن پترینڈ منصوبہ اپریل دوہزار سترہ میں آزمائشی طور پرچالو کردیا گیا، اس "جوان اولاد” کی خوشی سے اپنا آنگن آباد کرنے کی خاطر رام پورہ گریڈ سٹیشن کو” حجلہ عروسی” کی طرح سجا دیا گیا ۔ تاہم دلہن کی صورت” اڑتالیس میگا واٹ بجلی” ابھی تک اس "سیج ” کو اس لیے نصیب نہیں ہو سکی کہ وہ صرف عہدو پیمان تھا رخصتی نہیں، جب تک پترینڈ سے نیشنل گرڈ تک ٹرانسمیشن لائن نہیں بچھ جاتی پترینڈ پروجیکٹ بند رکھنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔

نیلم جہلم پروجیکٹ میں بھی شاید کچھ نہ ملنے کی توقع زیادہ مناسب نہیں ، میرپور ڈیم جسے منگلا ڈیم کے نام سے جانا جاتا ہے ، اس کی تعمیر ، تاریخ پھر اس کو اپ ریز کرنے کے دوران کئے گئے وعدے یہ سب یقین کر لینے کے لئے کافی ہیں.

جب سائیں قائم علی شاہ نے فرمایا کہ” دریائے جہلم سے میرپور شہر کو پینے کےلئے چھ سو کیوسک پانی اس لئے نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اب ارسا کے زیر انتظام ڈیم میں پہنچ چکا ہے اور کشمیر پاکستان کا آئینی حصہ نہ ہونے کے سبب ارسا کا پارٹ نہیں” تو اسی وقت سمجھ لینا چاہیے تھا کہ دریائے نیلم سے مظفرآباد کو پینے کےلئے پانی ملنا” دیوانے کے خواب” سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ۔ اگرقضیوں کی اس اولاد کو مزید پالنا ہی مقصود ہے تو لکیر پیٹنے کی بجائے عملآ کچھ اقدامات کرنازیادہ بہتر ہوگا

نیلم جہلم معاہدہ اگرچہ نہیں ہو سکا ، جس کی رو سے نوسیری سے مظفرآباد کے لئے پینے کے لئے پانی مہیا کیاجانا تھا، پھر بھی کم ازکم حکومت پاکستان کی سطح سے اس معاملے کو اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب تک پانی کا متبادل بندوبست نہیں کیا جاتا اس وقت تک دریا میں اتنا پانی ضرور رکھا جائے کہ اس سے دارالحکومت کی پانی کی ضرورت پوری کی جا سکے ، کیوں کہ جب تک پانی دریا میں رہے گا اس پر محدود ہی سہی کشمیریوں کا حق نظر آتا رہے گا خواہ اس کو نہ بھی تسلیم کیا جاتا رہے .

اگرچہ کشمیریوں کا مطالبہ ہے کہ کہ ان کے قدرتی وسائل کے استعمال ان کے غیر مشروط حق خود اردیت سے مشروط کر دیا جائے جبکہ تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک کشمیر کی محبت میں گرفتار عشاق ان نازنین کے نخرے خرچے اٹھائیں ، جب یہ اپنے نکاح کرنے اورحق مہر کم زیادہ مقرر کرنے کا اختیار کسی اور کے سپرد کردے تو خطبہ نکاح پڑھا جائے لیکن یاد رکھیے نکاح ولی کے بغیر نہیں ہوتا ، جب تک ولی میسر نہیں اس وقت تک اس نازنین کی عزت و حرمت کا پاس رکھا جانا ضروری ہے

نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے کی باقی کی تین ٹربائین چالو کرنے سے پہلے مظفرآباد کے لئے پانی کے لئے متبادل بندوبست کیاجائے۔
آزاد کشمیر اور پاکستان کے مابین مجوزہ معاہدہ کے تحت واپڈا نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کی ٹنل کی تعمیر کے بعد پہاڑی علاقوں میں پانی کے چشمے خشک ہو جانے سے پید اہونے والے مسائل سے نپٹنے کی ذمہ داری اٹھانا تھی اور ایک سو کے لگ بھگ رورل واٹر سپلائی سکیمیں تعمیر کرکے دینا تھیں ، جو کہ نہ ہوسکا . صرف وجوہات معلوم کرنا کافی نہیں . اس پر عمل درآمد ضروری ہے .

دو ٹیکنکل کالجز، سکولز ، اربن واٹر سپلائی 44 کلو میٹر دریا خشک ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے واٹر باڈیز شہر کے لئے سیوریج ٹریٹمنٹ کا نظام اور اس سارے سسٹم کو چالو رکھنے کے لئے آپریشنل کاسٹ یہ سب کچھ واپڈا یا حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی جو کہ معاہدہ نہ ہونے کے سبب نہ ہو سکا ، حتی کہ اس پروجیکٹ میں مقامی افرادی قوت کو روزگار کے مواقع تو کیا کسی انجنیئر کو ان ٹرن شپ بھی نہیں جا سکی ، مبادہ کہ اس ٹیکنالوجی کو سمجھ کر مقامی لوگ مستقبل میں کوئی مسئلہ ہی نہ پیدا کر دیں . بے اعتمادی کی گدلاہٹ کا اندازہ کیجیے ۔

صرف یہی نہیں واپڈا نے اس منصوبے کے دوران اس کی کوریج کے لئے لاہور سے صحافیوں کو بلایا اور عملآ پروجیکٹ کا علاقہ نو گو ایریا ہی رہا اور پروجیکٹ مکمل بھی ہو گیا ۔ ماحولیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی انوائر منٹل ایمپکٹ سٹڈی نہیں ہوئی ، ایک جعلی سی اورگمراہ کن دستاویز تیار کر کے انوائر منٹل پروٹیکشن ایجنسی سے منظور کرانے کی کوشش کی گئی تھی جو کہ صرف خانہ پری ہی تھی ، اس کی منظوری ہوئی یا نہیں ہوئی؟ اس پر سب خاموش ہیں بالکل ایسے ہی جیسے حکومت آزاد کشمیر اور حکومت پاکستان کے مابین نیلم جہلم معاہدے کے سوال پر سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے

پاکستان کے وزیرمملکت عابد شیر علی نے تو اس سوال کا جواب اس طرح دیا تھا کہ جیسے سوال کرنے والے تمام کے تمام ہونٹوں سے دودھ کا فیڈر لگائے ان سے اٹھکیلیاں کر رہے ہیں ، خیر ماہرین کے مطابق اس” بےمعاہدہ تعلق” کی وجہ سے پیدا ہونےوالے مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ درجہ حرارت کا ہے، جو ایک سے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ جانے کا امکان ہے جس سے زیریں وادی نیلم میں صدیوں سے موجود منجمند برفانی ذخائر تیزی سے پانی میں ڈھلنا شروع ہو سکتے ہیں ، پہلے دوچار سال یا ممکنہ طور پر دس سال تک دریا میں پانی زیادہ ہوگا ، پھر بتدریج پانی کم ہوتے ہوتے دریا میں پانی اتناکم ہو جائے گا کہ اس سے 969 میگا واٹ تو کیا شاید 400 میگا واٹ بجلی بھی پیدا نہیں ہو سکے گی ، اس پر ظلم یہ ہوگا کہ دریا میں پانی کم ہو جانے سے میرپور میں تعمیر شدہ منگلا ڈیم میں پانی کم ہوجانے کا اندیشہ ہے ، جس سے وہاں بھی بجلی کی پیدا وار 30 فیصد تک کم ہو سکتی ہے اور نتیجتا نہر اپر جہلم میں پانی کم ہوجانے سے ٹیل پر واقع زمینیں بے آب و گیا ہو جائیں گی اور اناج کا گھر پنجاب خود بھوک کا شکار ہو سکتا ہے ۔

ہزارہ یونی ورسٹی کی ایک سٹڈی کے مطابق ہزارہ کا گراونڈ واٹر ٹیبل ری چارج کرنے میں دریائےنیلم کا بڑآ حصہ ہے

اب آئیے دوبارہ نادان انسانوں کے ہاتھوں خون کے آنسو روتے ان پہاڑوں کی طرف تو چار چھ سال قبل ہزارہ یونی ورسٹی کی ایک سٹڈی کے مطابق ہزارہ کا گراونڈ واٹر ٹیبل ری چارج کرنے میں دریائےنیلم کا بڑآ حصہ ہے دریاکا رخ موڑ جانے سے تمباکو کی کاشت سے زہریلے ہوجانے والے زیر زمین آبی ذخائر کو پانی کی کمی سے شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ، آئیندہ بیس سے تیس سالوں میں نہ صرف پانی کی سطح دس فٹ تک گر جائے گی بلکہ پانی زہر آلودہ ہو جانے سے ہزارہ میں پینے کے پانی کی قلت پیدا ہوجانے کا بھی اندیشہ ہے ۔

غرض ایک لمبی فہرست ہے اس "تعلق بے معاہدہ” سے پیدا ہونے والے مسائل کی۔ اس سے لگنے والی آگ پنجاب اور ہزارہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، اگر کوئی سوچے تو کیا 969 میگا واٹ بجلی کی اتنی قیمت ادا کرنا چاہئے ؟ مذہبی رویت میں ایک قول ہے کہ” زمین ایک زندہ حقیقت ہے یہ اپنے خلاف ہونے والے اچھے برے اعمال پر رد عمل دکھاتی ہے” بدقسمتی سے اس کا مطلب ہم نے صرف یہ لیا ہے کہ زمین پر گناہ کرنے والوں کے خلاف زمین حرکت پزید ہوتی ہے . حالانکہ اس کا مفہوم اس طرح لیا جانا چاہیے کہ جب ہم دریاوں کے رخ موڑ کر ، ڈیم بنا کر ، درخت کاٹ کر ، زمین کو بنجر اور بے اولاد کرتے ہیں تو اس زمین کے باسی رد عمل کریں نہ کریں یہی زمین کہیں سیلابوں اورخشک سالیوں سے ہماری اولادوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی. جاگنا چاہیے . غور کرنا چاہیے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے