مجھے اظہار رائے کی آزادی ہے

آج صبح جاگا تو حسب معمول میری اظہار رائے کے ذرائع یعنی میرا سمارٹ فون ، لیپ ٹاپ اور ٹیلی وژن کا ریموٹ ارد گرد دھرے تھے۔ موبائل فون رسائی میں تھا اسلئے سب سے پہلے فیس بک کھولی۔

جہاں پر کچھ دوستوں کی یوم پیدائش کے نوٹیفیکیشن موجود تھے ۔ اپنی پسند کے مطابق کچھ دوستوں کو نیند کے عالم میں نئے سال کی مبارکباد دی اور ساتھ ہی ساتھ شکر ادا کیا کہ مجھے اظہار رائے کی آزادی ہے ۔

ایک دو خبروں پر نظر پڑی۔ جن میں چند صحافیوں کے لاپتہ ہونے کا ذکر تھا ۔ لیکن میرا اصول ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا ہمیشہ ذمہ دارانہ استعمال کرتا ہوں۔ اسلئے ان پر صرف نظر کرتے ہوئے فیس بک بند کی اور واٹس ایپ گروپس میں آئے ہوئے پیغامات پڑھنے شروع کئے۔

ایک دوست نے ملالہ یوسف زئی کی جینز میں تصویر پوسٹ کی ہوئی تھی ۔ خوشی ہوئی کہ گروپ میں موجود دوست اظہار رائے کی آزادی کو استعمال کرتے ہوئے انتہائی مہذب الفاظ میں ملالہ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے ۔

اکثریت کا خیال تھا کہ ملالہ نے یہ لباس پہن کر اسلام اور پاکستان کی بدنامی کی ہے۔ پھر یہی خیال آیا کہ مقام شکر ہے کہ ہم بولنے میں آزاد ہیں ۔ جس کو چاہیں ، کھل کر گالیاں دیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔

اسی گروپ میں چند ایک دوستوں نے سنی لیوین کی تائب ہونے سے پہلے کی ویڈیوز بھی پوسٹ کر رکھی تھیں ۔ ان کو دیکھ کر روحانی اطمینان نصیب ہوا کہ کم از کم خواہشات نفسانی کی تسکین کے لئے مواد پر پابندی نہیں ہے۔ اور یقینا یہ جمہوری اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
ای میلز چیک کرنے کے بعد دوبارہ فیس بک پر آیا تو صحافیوں کا واویلا نظر آیا کہ صحافیوں کے تحفظ کی کسی کو فکر نہیں ۔ سوچا کہ ان سے کہوں کہ آزادی کا غلط فائدہ کیوں اٹھاتے ہیں۔

اگر خبریں ہی دینی ہیں تو کیا شہر میں خبریں ختم ہو گئی ہیں؟ ٹماٹر ابھی تک مہنگے بک رہے ہیں ۔ انار اور انگور کا ریٹ چڑھ گیا ہے۔ لاری اڈے میں ٹھیلوں کی بھرمار ہے ۔ جن پر مزدور ریڑھی بان مکھیوں سے بھری گندی چیزیں بیچتے ہیں ۔ کیا آپ کے تجزیہ کرنے کے لئے یہ خبریں ناکافی ہیں؟

اگر سوشل میڈیا استعمال کرنا ہے تو آپ اپنے بچوں کی تصویریں پوسٹ کریں ۔ اپنی کوئی سٹائلش سی سیلفی بنائیں اور وہ پروفائل تصویر کے طور پر پوسٹ کر دیں۔

پھر بھی آپ کے اندر کے تجزیہ نگار کو چین نہ ملے تو کسی دوست کے حوالے سے کوئی چٹکلہ چھوڑ دیں ۔یا ملالہ کی جینز والی تصویر لگا دیں۔ شاید آپ کو اپنی خشک خبروں پر اتنے لائک اور کمنٹس نہ ملیں جتنےایسی پوسٹ پر ملیں گے۔

کبھی کبھی آپ شعر لکھ کر بھی طبع آزمائی کر سکتے ہیں۔ زمانے کے رنگ ڈھنگ کے ساتھ صحافت کے اطوار بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسلئے 1973 کے آئین میں درج آرٹیکل 19 کا احترام کرتے ہوئے ہر قسم کی اظہار رائے کا حق استعمال کریں ۔

نوٹ: برائے مہربانی اس کو طنزیہ تحریر سمجھ کر نہ پڑھا جائے – شکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے