مائی کا لال یا شیر دا پتر

ہر جگہ پر مذکر جنس کو ہی بدنام کیا جاتا ہے، یعنی کوئی بھی تذلیل والے کلمات بولنے ہوں تو مذکر جنس کی ہی مثال دی جاتی ہے۔

جیسے دنیا میں سارے مذکر ہی منحوس اور کالی قسمت والے ہوں، عجب دوغلا پن ہے۔
ملاحظہ ہو :۔تمہاری قسمت تو کوے کی طرح کالی ہے۔ کوی نے تو جیسے مس ورلڈ کا خطاب جیتا ہے۔
تم بھی کوئی بات نہیں سمجھتی! الو ہی ہو تم بھی۔ اب الو کی مونث ہی نہیں بنائے گئی تاکہ ان کی جنس محفوظ رہے۔

کیوں گدھے کی طرح چلا رہی ہو۔ جیسے گدھی کے گلے میں تان سین بیٹھا ہو۔
بندروں کی طرح اچھلنا بند کرو۔ جیسے بندریا تو سارا دن تسبیح پڑھتی رہتی ہے۔
آ بیل مجھے مار۔ ہاں جی گائے کو تو نہ مارنے پر امن ایوارڈ دیا گیا ہے۔

دھوبی کا کتا نہ گھر کا نا گھاٹ کا۔ اب بتاؤ کتے کو بھی کہیں کا نہ چھوڑا؟
اور جہاں تعریف مقصود ہو وہاں مونث کو زبردستی گھسیٹ دیا جاتا ہے۔

تمہاری آواز کوئل کی طرح سریلی ہے۔ اور مذکر جنس جیسے منہ سے ٹرک کی آواز نکالتا ہے ویسے کوئل کا مذکر کیا ہے؟
تمہاری چال مورنی کی طرح ہے۔اور مور کو تو جیسے فالج ہوا ہے پاؤں ٹیڑھے کر کے چلتا ہو جیسے۔

تمہاری ہرنی جیسے آنکھیں ہیں۔اور ہرن کی آنکھیں جیسے ٹیڑھی ہوں۔ کہیں پے نگاہیں کہیں پے نشانہ والا حساب۔
میری بیٹی تو چڑیا کی طرح معصوم ہے۔ چڑے تو جیسے ساتھ خود کش جیکٹ باندھ کر پھرتے ہیں۔

کچھ دن پہلے بالا پوسٹ ایک دوست نے شئیر کی۔ مصنف کا نام غائب تھالہٰذانام لے کرمنسوب نہ کر سکنے پر معذرت ۔
یقیناًجس نے بھی تحریرکیا بہت مشاہدےٗ کےبعدلکھا۔ طنزومزاح کے پیرائےمیں لکھی تحریرمجھےہنسا نہ سکی بلکہ پریشان کر گئی کیونکہ یہ مذکرجنس نہیں جو ہر جگہ بدنام ہے۔

یہ پدرانہ نظام کی ہی بدولت ہے کہ طنزومزاح میں بھی عورت کو ہی objectify کیا جاتا ہے۔ صنفِ نازک بنا دیئے جانے کے ساتھ کون ہوگا جو بد صورتی کو عورت کے ساتھ جوڑے ماسوائے ان چیزوں کے جو مرد کے فائدےکی ہوں۔

اور یہ بھی اسی نظام کی دین ہے کہ by default ہم عام زبان میں مذکر کے صیغہ میں بات کرتے ہیں۔ ہر کوئی “بندہ” ہی ہوتاہے “بندی” کی اصطلاح تو میرے سامنے کی ہے اور اب اسکا استعمال بھی کم ہی ہے۔ مرد بد صورت ہو یا بھدا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن کبھی سنا کہ فلاں مرد بد چلن ہے؟ نہیں۔

جب گالم گلوچ کی نوبت آتی ہے تو کبھی نہیں سنا کہ کسی نے باپ بھائی کی گالی دی ہو۔ ہمیشہ ماں بہن ہی برابر کی جاتی ہے۔ اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے عورت کے عمل و کردار کے حوالے سے کچھ دائرے بنا دیئے ہیں اور ان چھوٹے دائروں کے گرد ایک بڑا دائرہ ہے جو کہ مرد کی حاکمیت کا ہے۔

اس کی رو سے عورت کا ہر عمل مرد کی حاکمیت کا عکس ہے اور ایک عورت کا ان مقررہ حدود میں رہنا یا اپنے دائرۂ کار سے بغاوت کرنا ایک مرد کی معاشرے میں حیثیت کا تعین کرتا ہے۔

اسی اصول کی رو سے مرد کی عزت اور غیرت کو عورت سے منسوب کر کے ماں بہن کی گالی دے کر طاقت کے کھیل میں مرد کو نیچا دیکھانا مقصود ہے۔ لڑائی میں ہاتھ اسی جگہ ڈالا جاتا ہے جو کمزور ہو اور جب عورت کمزور سمجھی جائے تو جس سے بھی منسوب ہو اس کو بھی تو کمزور ہی کرے گی۔

للکارتے تو مائی کے لال کو ہیں لیکن حوصلہ شیر دا پتر سے ہی بڑھتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے