سول فوج تنائو میں کمی

میری اطلاعات کے مطابق سول اور فوج کے درمیان تنائو میں کمی واقعہ ہوئی ہے اگرچہ ایسے افراد کی کمی نہیں جو اس کے برعکس پراپیگنڈہ کر رہے ہیںاور چاہتے ہیں کہ فوج کو اگر مارشل لاء بھی لگانا پڑے تو لگا دے۔ جتنے منہ اتنی باتیں والا حساب ہے۔ ماضی قریب میں حالات کافی خراب ہو چکے تھے لیکن اب دونوں اطراف ایک بات کو محسوس کیا جارہا ہے کہ معاملات کو بگڑنے سے بچانا چاہیے کیوں کہ ایسا نہ ہو کہ حالات اُس نہج تک پہنچ جائیں کہ نقصان سب کا ہو جائے۔ اس لڑائی کا نہ ہونا یا اس لڑائی کا ن لیگ کی حکومت کے خاتمہ تک نہ پہنچنا کچھ مخصوص سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ساتھ ٹی وی اینکرز اور تجزیہ کاروں کے ایک طبقہ کے لیے انتہائی مایوس کن ہے۔ گزشتہ روز ہی مایوسی میں ڈوبا ایک اینکر سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ فیصلے کا اپنی من پسند کا حوالہ دے کر پروگرام میں موجود ایک ریٹائرڈ جنرل صاحب کو دھائیاں دے رہا تھا کہ جنرل صاحب کس بات کا انتظار ہے، کیا جب سب کچھ ختم ہو جائے گا تو پھر کچھ کریں گے۔ اینکر کی اس فریاد کو ریٹائرڈ جنرل صاحب نے ن لیگ حکومت کی کارکردگی سے مایوسی کے باوجود کچھ اس طرح انداز میں رد کیا کہ اینکر کو سمجھ آ جائے کہ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس حد تک فوج نہیں جانا چاہتی۔ اینکر صاحب نے ظفر علی شاہ کیس کو کچھ اس طرح interpret کیا کہ پروگرام میں موجود ظفر علی شاہ خود بھی حیران ہو گئے۔

اینکر صاحب یہ ثابت کرنا چاہ رہے تھے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی روشنی میں فوج کو مداخلت کا قانونی حق حاصل ہو گیا ہے۔ میڈیا کا ایک طبقہ اور وٹس ایب گروپ کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان تباہ حالی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور اب اگر پاکستان کو بچانا ہے تو پھر ن لیگ کی حکومت کو رخصت کرنا لازم ہے اور اس کے لیے طریقہ کار چاہے قانونی ہو یا غیر قانونی اور غیر آئینی کوئی حرج نہیں۔ اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں، اینکرز اور تجزیہ کاروں کو بہت امید تھی کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی گزشتہ پریس کانفرنس میں حکومت کی ایسی تیسی کر دیں گے۔ لیکن میجر جنرل غفور نے اُن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

ویسے تو ن لیگ کے رہنمائوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی اداروں کے ساتھ ٹکراو کی پالیسی کے بارے میں تحفظات رکھتی تھی لیکن اب ایسی سوچ رکھنے والوں کو زیادہ سنا جا رہا ہے اور اسی لیے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہوں، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف یا ن لیگی وفاقی و صوبائی وزراء اب کوئی فوج سے ٹکراو کی بات نہیں کرتا۔ تمام ن لیگی بشمول شہباز شریف جانتے ہیں کہ نوازشریف ہی ن لیگ کے ووٹوں کی واحد ضمانت ہیں لیکن اس کے باوجود اب کھل کر ٹکراو کی اُس پالیسی کے خلاف بات کی جا رہی جس کالہجہ میاں نواز شریف اور مریم نواز نے اپنایا تھا۔کیا یہ دوغلی باتیں کسی سوچی سمجھی ا سکیم کا حصہ ہیں یا واقعی ایک اصولی اختلاف رائے کا نتیجہ ہیں، اس پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں لیکن میری اطلاعات کے مطابق ن لیگ اب فوج کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط برتے گی کیوں کہ انہیں اس بات کا احساس ہے کہ فوج سے کھلے عام ٹکراو کا نقصان ن لیگ کو ہی ہو گا۔ن لیگ کو احساس ہے کہ حالات ایسے پیدا کیے جا رہے ہیں کہ آئندہ مارچ میں ہونے والے سینٹ کے انتخابات سے پہلے کچھ نہ کچھ کر دیا جائے تاکہ حکمران جماعت سینیٹ میںاکثریت نہ لے سکے۔ حمزہ شہباز نے گزشتہ روز کہا کہ ن لیگ کو ٹکراو کی سیاست کی بجائے آئندہ سال ہونے والے الیکشن پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جہاں تک اسٹبلشمنٹ کا تعلق ہےکہا جاتا ہے وہاں مبینہ طور پرایک سوچ پائی جاتی ہے کہ کچھ بھی ہو نواز شریف اور مریم نواز کے لیے اقتدار کے دروازے اب ہمیشہ کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کوشش تو یہ بھی کی گئی کہ ن لیگ کو تقسیم کیا جائے اور نواز شریف کا دوبارہ ن لیگ کا صدر انتخاب کو روکا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اب اگر ن لیگ کے اندر ایک احساس پیدا ہو رہا ہے کہ اداروں سے لڑائی مسئلہ کا حل نہیں تو امید کی جاتی ہے کہ اسٹبلشمنٹ بھی ایسے عناصر پر نظر رکھے گی جو ماضی کی طرح سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو بنانے توڑنے کے کھیل میں شامل رہے جس کا پاکستان کو صرف نقصان ہی ہوا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے