جس کا کام اسی کو ساجھے!

مجھ جیسے کم علم کو بڑے بڑے مسائل تو کیا سمجھ میں آنا ہیں، مجھے تو سامنے کی باتیں سمجھ نہیں آتیں مثلًا یہی کہ جنہیںجو کام نہیں آتا یا وہ اس کے لئے بنے ہی نہیں۔ وہ کام کچھ لوگ کیوں کرتے ہیں اور جنہیں جو کام آتا ہے وہ اپنے کام میں دلچسپی لینا کیوں چھوڑ دیتے ہیں اور دوسرے کاموں میں زیادہ الجھ کر کیوں رہ جاتے ہیں۔ چونکہ یہ کالم مکمل طور پر غیرسیاسی ہےلہٰذا اپنی اس بات کا ثبوت دینے کےلئے میں کچھ مثالوں سے اپنی بات واضح کرتا ہوں۔ اگر یہ کالم سیاسی ہوتا تو میں بقول شخصے یہ کہتا کہ بیوی کا شک اور جمہوریت کاسفر ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔ جیسے ہی کچھ آسودگی محسوس ہونے لگتی ہے، کوئی نیا ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ مگر آپ دفع کریں اس بات کو کہ یہ کالم واقعی غیرسیاسی ہے اور اگر میں اس میں پڑا تو اصلی موضوع سے بھٹک جائوں گا۔ مثلاً میں کہنا یہ چاہ رہاہوں کہ کچھ لوگ زندگی میں بہت اچھی اداکاری کرتے ہیں۔ ان میںٹیلنٹ قدرتی ہوتا ہے۔ وہ تو کسی سے محبت کادعویٰ بھی کرتے ہیں تووہاں بھی ایسی لاجواب اداکاری کرتے ہیں کہ دوسرا ان کی محبت پر یقین کر بیٹھتا ہے۔ حالانکہ وہ کسی کے پہلو میں بیٹھے ہوئے بھی کسی دوسرے کو فون پر میسجنگ سے اپنی محبت کایقین دلا رہے ہوتے ہیں۔ جب انہیں اندازہ ہو کہ اس طرح ’’غلط فہمی‘‘ کاامکان ہے تو ماتھے پر ہاتھ مار کر کہتے ہیں کہ ایک تو میرےنالائق منیجر نے میری جان عذاب میں ڈال رکھی ہے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی مجھ سے پوچھتا ہے۔ اب ایسے لوگوں کو چاہئے تھا کہ وہ اداکاری کےشعبے میں جاتے۔ اگروہ ایسا کرتے توبہت نام کماتے۔ ہمارے میڈیا میں اسکالرز سے زیادہ شوبز سے منسلک افراد اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کی سالگرہ، ان کی شادی، ان کےگھریلو معاملات، ان کی تازہ محبت اور علیحدگی وغیرہ بریکنگ نیوز کے طور پر فلیش کی جاتی ہیں اور اگر خدانخواستہ وہ وفات پا جائیں تو الیکٹرونک میڈیا اپنا جھنڈاسرنگوں کردیتا ہے اور تین دن کےسوگ کا اعلان کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں اس کے بعد ہر سال ان کی برسی بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے چنانچہ اب کوئی بھی اسکالر یا سائنسدان نہیں بننا چاہتا۔ ہماری نئی نسل تو وہ بنناچاہتی ہے جنہیں ایک لیجنڈ کے طور پر پیش کیاجاتاہے مگر میرا متذکرہ دوست بے قوف ہے جواپنی اداکاری کا ٹیلنٹ چھوٹی موٹی چیزوں(جن میں زیادہ موٹی ہوتی ہیں) پرضائع کردیتا ہے اور یوں باقاعدہ اداکاری کا شعبہ جوائن نہ کرکے بیٹھے بٹھائے لیجنڈ بننے کاموقع ہاتھ سے گنوا رہا ہے۔
اسی طرح کئی لوگوں میں بزنس مین بننےکا اتنا بڑا ٹیلنٹ ہوتا ہے کہ اگر وہ باقاعدہ اس شعبے میں آتے تو بڑے بڑوں کی دکانیں بند کرا دیتے مگر وہ شاعر بنے، گلوکار بنے، اداکار بنے اور اپنے بزنس کا ہنر ان شعبوں میں آزمایا اور اپنی سیلزمین شپ کے زورپر دگنے چگنے معاوضے وصول کرکے سمجھا کہ انہو ںنے بہت تیر مار لیا ہے۔ یہ وہ نادان ہیں جو چند کلیوں پر قناعت کر بیٹھے ورنہ ان کےلئے گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا۔ انہیں علم نہیں کہ کچھ عرصے بعد لوگوں پہ ان کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے اور پھر ان یوسف ِ بے کارواں کا گراف نیچے ہی نیچے آنا شروع ہو جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جو کھا لیا، کھا لیا، نام مقام سے ہاتھ دھو بیٹھے!

ہمارے درمیان ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی منطق کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی۔ اس طبقے کے لوگ بیوروکریسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں ان میں سے بہت سے ایسے افراد کو جانتا ہوں جوبہت عمدہ شاعر اورنثر نگار ہیں لیکن وہ اپنا تعارف رائٹر کے طور پرکرانا پسند نہیں کرتے۔ان میں بعض سے میری بات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تعارف کے بعد ان کی کلاس انہیں ڈی کلاس کردیتی ہے، حالانکہ ایسا نہیں۔ پطرس بخاری، مختار مسعود، مشتاق احمد یوسفی، (جنرل) شفیق الرحمٰن، (کرنل) فیض احمد فیض، ڈائریکٹرجنرل تعلقات ِ عامہ (ہند) حفیظ جالندھری اور کتنے ہی ایسے بڑے نام ہیں جنہوں نے سروس میں رہتے ہوئے بھی قلم سے اپنا ناتہ نہیں توڑا۔ اب اپنے فواد حسن فواد ہیں، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ہیں۔ اپنے زمانہ طالب علمی سے شاعری کرتے چلے آرہے ہیں، مگر ان کا انکسار یہ شاعری سامنے نہیںآنے دینا۔ میرے ایک بہت عزیز دوست اختر سعید ہیں جو کافی عرصے سے ریٹائرمنٹ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ وہ بڑے سے بڑے عہدے پر رہے ہیں، مگر اپنی شاعری چھپا کر رکھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا شعری مجموعہ قلمی نام سے شائع کرایا۔ البتہ میں داددیتا ہوں واپڈا کےسابق چیئرمین ظفر محمود کو جوعین اپنی افسری کے دوران کہانیاں لکھتے رہے اور اب چند ماہ پہلے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر ایک اخبار میں نہ صرف نہایت خوبصورت اور بامعنی کالم لکھ رہے ہیں بلکہ حال ہی میںان کا افسانوی مجموعہ ’’دائروں کا سفر‘‘ منظرعام پر آیا ہے جس کے کم از کم تین افسانے کلاسیکس میں شامل کئے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح عرفان جاوید کے افسانوی مجموعے کے بعد ان کے خاکوں کا مجموعہ ’’دروازے‘‘ شائع ہوا ہے۔ اگر ہمارے ہاں دھڑے باز نقاد نہ ہوتے تو وہ ابھی تک ظفر محمود اور عرفان جاوید کے نام اور ان کا کام ہمیں حفظ کراچکے ہوتے۔ میرے اپنے بیوروکریٹ بیٹے یاسر پیرزادہ نے جتنے تخلیقی کالم لکھے ہیں مجھے خود اس حوالے سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔

اور ہاں ہمدم دیرینہ عرفان صدیقی (اس نام کے ایک غیرمعمولی شاعر بھارت میں تھے جو انتقال کرچکے ہیں) ایک طویل عرصے تک ریڈیو کے لئے ڈرامے لکھتے رہے ہیں۔ شاعری کرتے رہے ہیں اور کالم تو انہو ںنے بے پناہ خوبصورت لکھے ہیں۔ ان کا سفر حجاز کا سفرنامہ شائع ہوچکا ہے مگر اب وزارتی مصروفیات کے باعث سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہیں۔ تاہم انسان ’’ہیرا پھیری‘‘ سے تو نہیں جاتا چنانچہ اب بھی کبھی کبھار غزل کہہ لیتے ہیں۔ مجھے حال ہی میں ان کی ایک غزل پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے اور یہ غزل پڑھتے ہوئے مجھے ان پر سخت غصہ آیا کہ ایسا خوبصورت شاعر اور کالم نگار دو ٹکے کی نوکری کے پیچھے اپنا اور ہمارا ساون خراب کر رہا ہے۔ تاہم واضح رہےیہ بات میں نے محض ایک پرانا گانا ’’کوٹ‘‘ کرنے کے لئے کی ہے کہ علمی اور ادبی اداروں کے حوالے سے جو کام وہ کر رہے ہیں وہ بھی انہی کا حصہ ہے۔ اب بغیر کسی مزید تبصرے کے ان کی تازہ مزاحمتی غزل درج کرکے آپ سے اجازت چاہتا ہوں صرف اس سوال کے ساتھ کہ کیا ان جیسے شاعر کو شاعری ترک کرنے کا حق حاصل ہے؟

گو تمنائے جاں ضروری تھی
بت کدے میں اذاں ضروری تھی
جانتا تھا حدِ وکیل و دلیل
کوشش رائیگاں ضروری تھی
مدعی سے تو خیر کیا ڈرنا
منصفوں سے اماں ضروری تھی
زیست کیا تھی کہ ہر نفس کے لئے
منت دشمناں ضروری تھی
اذنِ فریاد تھا مگر یہ جبیں
برسر آستاں ضروری تھی
جانتے تھے کہ کون کیا ہے مگر
خاطر دوستاں ضروری تھی
زاد ِ راہ و سفر لٹا کر بھی
مدحتِ راہزناں ضروری تھی
ہونٹ سل بھی گئے پر کرتے رہے
بات جتنی جہاں ضروری تھی
سنگ و آہن کے شہر میں عرفاں
کیا یہ آہ فغاں ضروری تھی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے