سر رہ گزر احتساب و احتساب و احتساب!

احتساب، نیب نے کارروائیاں تیز کردیں۔ تحریک انصاف کے علیم خان کا کیس کھل گیا۔ انکوائری کے لئے ڈار کے اہلخانہ طلب، نواز شریف سے ایئرپورٹ پر وارنٹ کی تعمیل کرائی جائے گی۔ جب سے نیب ٹرین کونیا انجن لگا ہے اسپیڈ بڑھ گئی ہے اوریوں لگتا ہے کہ اس کے باوجود وہ ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر رکنے لگی ہے۔ مسافر اٹھاتی جاتی ہے اور سوئے منزل روانہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آخری اسٹیشن پر اس ٹرین میں کتنی سواریاں ہوں گی۔ گلوبل پنڈ سے ہر روز کوئی ایسی خبر آتی ہے کہ فلاں ترقی یافتہ ملک کا کوئی سربراہ یا وزیر مشیر چند ٹکوں کی ہیراپھیری کے باعث گھر چلا گیا یا بھیج دیا گیا۔ گویا اب احتساب باقاعدہ شاعری کی صورت اختیار کر گیا ہے؎
احتساب و احتساب و احتساب
فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلات
لگتا ہے چیئرمین علم عروض کے ماہر ہیں۔ مصرع در مصرع احتساب فرماتے جارہے ہیں۔ لگتا ہے مشاعرہ لوٹ لیں گے مگر ’’فوق کل ذی علم علیم‘‘ ہر علم والے کے اوپر بھی ایک علم والا ہوتا ہے اس لئے سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج اس رجزیہ مشاعرہ کو بڑے غور سے سن رہے ہیں کہ کوئی شاعر وزن سے خارج شعر تو نہیں پڑھ رہا۔ احتساب اچھی چیز ہے اگر ہم سب ابتدا ہی سے اپنا اپنا انفرادی احتساب کرتے رہتے تو آج احتساب بے حساب نہ ہو پاتا ۔ ایک بات تو ہمیں من حیث القوم تسلیم کرنا ہوگی کہ ہم ’’ککھ یا لکھ‘ ‘ کےچور تو ہیں پھر یہ ایک فوبیا بھی بن چکا ہے کہ اب ہم کئی گناہوں کو اس قدر حسین میکانزم دے چکے ہیں کہ گناہ سرے سے گناہ ہی نہیں محسوس ہوتا۔ جب احساس گناہ نہ رہے تو سمجھ لیں کہ قوم اپنا وجود کھو بیٹھی شاید ہم گناہ کسی کو چھیڑنے کا عمل سمجھتے ہیں جبکہ اس کا دائرہ تو بہت وسیع ہے؎
اب تو عادت سی ہوگئی ہے مجھ کو گناہ کی
واعظ سے پوچھتا ہوں دوا قوتِ باہ کی
٭٭٭٭٭
آتشبازی، لائوڈ اسپیکر، مذہب فروشی
ایک زمانہ تھا شادی ، شادیانوں سے شروع ہو کر خاتمہ بالخیر پر اختتام پذیر ہوتی تھی۔ یہ زمانہ ہے کہ یہ آتشبازی، ہوائی فائرنگ، لائوڈ اسپیکر سے ہوتی ہوئی مذہب فروشی پر ختم ہوتی ہے اور یوں دین دنیا دونوں خراب۔ گویا سارا خانہ ہی خراب۔ ہمیں پوش علاقوں کا تو علم نہیں لیکن لاہور کی عام آبادیوں میں کچھ عرصے سے شادی کے موقع پر آتشبازی کی کان پھاڑ قسم اور اسی میں ہوائی فائرنگ بھی آمیز ہوتی ہے۔ ہر شادی گھر یا شادی ہال کسی نہ کسی تھانے کی حدود میںواقع ہوتا ہے اور جب رات کو یکدم زور دار آتشبازی شروع ہوتی ہے اور ہوائی فائرنگ بھی تو تھانے والے، لاک اپ ہو جاتے ہیں۔ خیال ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے مقام آتشبازی پہنچ کر اسےرکوا دیں۔ خوشی منانا ہر انسان کا حق ہے مگر خوشی کو کسی کے لئے ماتم بنانا ہرگز جائز نہیں۔ آخر ہم کیوں دوسروں کو اذیت پہنچا کر خوشی مناتے ہیں۔ کیا ہمیں اذیت پسندی کا روگ لگ چکاہے۔ ہم نے کبھی کسی مسجد میں، کسی تعلیمی ادارے میں اخلاقیات پر کسی کو بات کرتے واعظ سناتے نہیں دیکھا۔ کیاخاندانوں کے بزرگ بھی اب جوانوں کو شادی بیاہ کو دوسروں کے لئے عذاب بنانے سے نہیں روکتے۔ اب ہم آتے ہیں دوسرے سیگمنٹ کی طرف یعنی لائوڈ اسپیکر اور مذہب فروشی کی جانب۔ لائوڈ اسپیکر کا غلط استعمال اگرچہ کھلی قانون شکنی ہے۔ہم اس موضوع پر 2017میں کوئی 17بار لکھ چکے ہیں کہ خدارا حکومت پنجاب لائوڈ اسپیکر کے ناجائز استعمال کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کرائے مگر شاید وہ بھی گل محمد بن چکی ہے کہ زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔سارے مذہبی پروگرام لائوڈ اسپیکر پر پیش کئے جاتے ہیں۔ ان میں وقفے وقفے سے یہ آواز بھی سنائی دیتی ہے ’’فلاں نے اس کارخیر کے لئے اتنے پیسے دیئے ماشاء اللہ جزاک اللہ۔‘‘ اب تو مذہب کو چھابے میں رکھ کر ایک طبقہ نے اسے باقاعدہ پیشہ بنالیا ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے تو اسے جان کا خطرہ کہ یہ دشمن رسولﷺ ہے درود و سلام نہیں پڑھنے دیتا۔ کیا عبادت لائوڈ اسپیکر پر کرنا سماعت خداوندی پر شک نہیں؟
اپوزیشن، لیڈر اور خورشید شاہ بمعہ نواز شریف
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے:عمران کو سیاست کرنی ہے تو ’’پارلیامنٹ‘‘ آئے۔ نہ آنے والا چھولے بیچے گا۔ چھولے ہی تو اس نے پاناماکے چھابے میں رکھ کر بیچے ہیں اور اس قدر دھڑا دھڑ بکے کہ چھابہ خالی ہو گیا اور اب خالی چھابہ اس کے گلے پڑ گیا ہے۔خورشید شاہ بڑے سنجیدہ سیاستدان ہیں۔ معمولی باتیں بھی غیرمعمولی انداز میں کرنے کے ماہر ہیں۔ اس وقت پاکستان کی پوری سیاست آن چینلز ہے اور میڈیا ہے کہ غیر معروفوں کو معروف و مشہور بنانے میں کلیدی کردار مفت ادا کر رہا ہے۔ عوام یہ نہیں دیکھتے کہ لیڈر کیاکہہ رہا ہے، اینکر کیا فرما رہا ہے، وہ تو بس اتنا جان کر خوش ہو جاتے ہیں کہ دیکھو ان کا لیڈر ٹی وی پر آگیا ہے۔ چاہے وہ کسی اسکینڈل ہی میں کیوں نہ آیا ہو۔ عمران خان کی قسمت بظاہر پاناما کے منظرعام پر آنےسے کھل گئی۔ اب وہ احتساب خان بن کر پھنے خان بن چکے ہیں۔ وہ ڈوبیں نہ ڈوبیں مگر کئی کو ڈبو دیا ہے اور مزید کئی کے جہاز لنگر انداز کرچکے ہیں۔ پاکستان کو تو کچھ نہ ہوگا مگر پاکستانی قو م کے مفادات کناروں پر ہی ڈ وب رہے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ پاکستان کو بچاتے بچاتے اسے آگے بڑھنے سے بچا نہ بیٹھیں۔ بہرحال خورشید شاہ صاحب اندر کے اچھے ہیں۔ ن لیگ ان کے ساتھ اچھی ہو نہ ہو وہ اب بھی اس کے ساتھ اچھے ہیں۔ نواز شریف بھی اچھے ہیں، مگر کیا کیا جائے شیطان رجیم کا کہ اچھے اچھوں کو اچھا سا برا بنا دیتا ہے۔ وہ محب وطن ہیں، محب دھن نہیں۔ یہ دھن دولت بھی دیارغیر سے نہیں اپنے وطن سے کمائی ہے۔ کیا ان کی حب الوطنی کے لئے اتنا کافی نہیں؟ خورشید شاہ صاحب اپوزیشن لیڈر ہوں یا پوزیشن لیڈر وہ ہر روپ میں بقول غالبؔ
شوق ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
ہم سمجھتے ہیں بروز قیامت پی پی اور ن لیگ اکٹھے اٹھیں گے۔
٭٭٭٭٭
قتل بھی کرے ہے…..
O۔نیویارک دہشت گردی:حملہ آور ازبک نکلا۔
امریکہ کی مثال اس شعر کے مفہوم کی سی ہے؎
یہ عجیب رسم دیکھی کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
O۔لوجی سی این جی بھی 1.50روپے مہنگی۔
کیا ہمارے حکمران تیلی گیسی ہیں کہ کبھی تیل مہنگا کر دیتے ہیں کبھی گیس
O۔ زرداری ، بلاول:پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ واپس لیاجائے۔
یہ پوری قوم کی آواز ہے حکومت رد نہ کرے ورنہ 2018میں عوام حساب چکا دیں گے۔ یہ تو ن لیگ بھی مان لے کہ اس کے دور میں مہنگائی برداشت سے باہر ہوگئی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے