اصل مسئلہ حماقت ہے

پائلٹ کے منہ سے خدا حافظ نیویارک نکلا اور تاریخ کا ایک پورا باب بند ہوگیا‘ پاکستان اور امریکا کے درمیان فضائی تعلقات منقطع ہو گئے۔
پاکستان ائیر لائین (پی آئی اے) نے امریکا کے لیے پہلی فلائیٹ17 جون 1961ء کو چلائی تھی‘ امریکا اس وقت تک دنیا کے لیے دور دیس ہوتا تھا‘ سوویت یونین سے کوئی فلائیٹ امریکا نہیں جاتی تھی‘ چین‘ جاپان‘ تھائی لینڈ‘ ملائشیا‘ گلف کی تمام ریاستوں‘ مشرقی یورپ اور افریقائی ممالک سے بھی نیویارک کے لیے کوئی فلائیٹ نہیں چلتی تھی‘ پی آئی اے ایشیا اور امریکا کے درمیان پل بن گئی‘ ایشیا کے نوے فیصد مسافر کراچی آتے‘ پی آئی اے میں بیٹھتے اور نیویارک روانہ ہو جاتے‘ گلف اور افریقہ کے مسافر بھی پی آئی اے کو فوقیت دیتے تھے‘ پی آئی اے نے 1970ء اور1980 کی دہائی میں بھی لاہور اور اسلام آباد سے براہ راست فلائیٹس شروع کر دیں‘ یہ فلائیٹس نیویارک اور شکاگو جاتی تھیں۔
یہ سلسلہ 56 سال جاری رہا‘ اس دوران دنیا بدل گئی‘ ایشیا‘ گلف‘ مشرقی یورپ اور افریقہ میں دھڑا دھڑ ائیر لائینز بنیں‘ پی آئی اے کا اسٹاف ان ائیر لائینز میں جمپ کرتا رہا‘ پی آئی اے میں سیاسی بھرتیوں کا سلسلہ شروع ہوا‘ جہازوں کا معیار پست ہوا‘ اسٹاف کے رویئے خراب ہوئے اور ائیر پورٹس گندے‘ امیگریشن کا عملہ بدتمیز اور فلائیٹس میں تاخیر ہونے لگی‘ ہمارے جہاز بھی گرنے لگے اورفلائیٹس سے ہیروئن بھی برآمد ہونے لگی‘ آخری کسر یونینز نے پوری کر دی‘ پائلٹس نے جہاز اڑانے اور ائیر ہوسٹسز نے ڈیوٹی دینے سے انکار کر دیا یہاں تک کہ دنیا کا بہترین ادارہ زوال کی خوفناک مثال بن گیا‘ پی آئی اے کے بین الاقوامی روٹس بند ہوتے چلے گئے۔

آخر میں امریکا بچا تھا‘ 29 اکتوبر 2017ء کو یہ روٹ بھی بند ہو گیا‘ پی آئی اے کی آخری فلائیٹ پی کے 711 اکتوبر کی 27تاریخ کو لاہور سے اڑی‘ 29 اکتوبر کو نیویارک سے واپس آئی اور پی آئی اے نے امریکا کے آپریشنز بند کرنے کا اعلان کر دیا‘ پی آئی اے کا کہنا ہے یہ روٹ دس سال سے خسارے میں جا رہا تھا‘ کارپوریشن کو سالانہ ڈیڑھ ارب روپے نقصان ہوتا تھا‘ پی آئی اے کو گزشتہ سال 40 ارب روپے گھاٹا پڑا جس کے بعد کل قرضہ 400 ارب روپے ہوگیا‘ کارپوریشن اب بارسلونا‘ میلان اور پیرس کے روٹس بھی بند کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے‘ یہ روٹس بھی بند ہو گئے تو پاکستان کا یورپ سے بھی رابطہ ٹوٹ جائے گا یوں پاکستان کا ایک اور سنہری باب بند ہو جائے گا۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دو نومبر کو پی آئی اے کی انتظامیہ کو کابینہ میں بریفنگ دینے کی دعوت دی‘ پی آئی اے کی ساری انتظامیہ پہنچ گئی‘ چیئرمین عرفان الٰہی بھی بریفنگ میں موجود تھے اور سول ایوی ایشن کے مشیر مہتاب عباسی بھی‘ پی آئی اے کے چار اعلیٰ عہدیداروں نے بریفنگ دی‘ کابینہ کے سامنے 58 سلائیڈز چلائی گئیں‘ پی آئی اے کا سارا عروج وزوال کابینہ کے سامنے رکھا گیا اور آخر میں کابینہ سے ’’بیل آؤٹ پیکیج‘‘ مانگ لیا گیا‘وزیراعظم اطمینان سے بریفنگ سنتے رہے۔
بریفنگ کے آخر میں وزیراعظم نے پی آئی اے کے چاروں عہدیداروں سے پوچھا ’’حکومت اگر یہ رقم دے دے تو کیا پی آئی اے چل جائے گی‘‘ چاروں کا جواب ناں تھا‘ وزیراعظم نے پوچھا ’’پھر یہ رقم آپ کو کیوں دی جائے‘‘ دوسری طرف خاموشی چھا گئی‘ وزیراعظم نے کہا ’’پی آئی اے 400 ارب روپے کی مقروض ہے‘ حکومت اس قرضے کی ضامن ہے یہ قرض بالآخر عوام کو ادا کرنا پڑے گا‘ اس کا ذمے دار کون ہے؟‘‘۔
دوسری طرف خاموشی چھائی رہی‘ وزیراعظم نے اس کے بعد چاروں عہدیداروں سے کہا ’’آپ چاروں پی آئی اے کا کوئی ایک اور اصلی مسئلہ بتائیں‘‘ پہلی باری چیئرمین کی تھی‘ چیئرمین نے تقریر کرنے کی کوشش کی‘ وزیراعظم نے انھیں روک کر کہا ’’آپ نے صرف ایک مسئلہ بتانا ہے‘‘ چیئرمین پھنس گیا‘ وزیراعظم نے اس کے بعد باقی تینوں اعلیٰ عہدیداروں سے بھی یہ سوال کیا‘ چاروں کا جواب مختلف تھا‘ بتایا گیا اسٹاف زیادہ اور جہاز کم ہیں۔
وزیراعظم نے پوچھا‘ اسٹاف کی کل تنخواہیں کتنی ہیں‘ جواب ملا 18 ارب روپے‘ وزیراعظم نے کہا یہ کل ریونیو کا 19 فیصد بنتا ہے‘ یہ رقم زیادہ نہیں‘ دنیا کی بے شمار کمپنیاں اور کارپوریشنز اپنے ریونیو کا 21 فیصد تک ’’ایچ آر‘‘ پر خرچ کرتی ہیں‘ آپ کا یہ خیال غلط ہے کہ پی آئی اے میں اسٹاف زیادہ ہے‘ بتایا گیا بے شمار روٹس پر گھاٹا پڑ رہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا آپ نقصان والے روٹس پر فلائیٹس کیوں اڑاتے ہیں‘ آپ یہ بند کر دیں‘ بتایا گیا‘ پی آئی اے ’’نیشنل فلیگ کیریئر‘‘ ہے‘ ملک کی بدنامی ہوتی ہے‘ وزیراعظم نے جواب دیا‘ ہمیں اس الوژن سے بھی نکلنا ہوگا‘ ملک کی بے عزتی روٹس بند کرنے سے نہیں ہوتی روٹس پر خراب سروسز سے ہوتی ہے‘ آپ دوسرے ملکوں کے اداروں کے مسائل میں اضافہ کریں گے یا آپ مسافروں کو تنگ کریں گے تو اس سے ملک کی خاک نیک نامی ہو گی‘ بتایا گیا مینجمنٹ ایشوز ہیں‘ یونین کا دباؤ ہے‘ سیاسی بھرتیاں اور سیاسی مداخلت ہے‘ یہ تمام ایشوز مل کر ائیر لائین کو چلنے نہیں دے رہے۔
وزیراعظم نے جواب دیا‘ یہ تمام ایشوز قابل حل ہیں‘ دنیا کے بے شمار ادارے ان مسائل سے گزرتے ہیں‘ یہ ان مسائل کو حل بھی کر لیتے ہیں لیکن پی آئی اے 12 سال سے خوفناک خسارے کا شکار ہے‘ ہم جانتے بوجھتے ہوئے بھی آج تک یہ مسائل حل نہیں کر سکے۔ کیوں؟ انتظامیہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ وزیراعظم نے کہا ’’آپ چار لوگ ہیں‘ آپ چاروں مل کر پی آئی اے کے ایک اور حتمی مسئلے کا تعین نہیں کر سکے‘ آپ یہ ادارہ کیسے چلائیں گے‘ آپ پی آئی اے کو کیسے بحال کریں گے‘‘۔
وزیراعظم نے اس کے بعد کہا ’’میں پی آئی اے کا وہ مسئلہ جانتا ہوں‘ یہ ادارہ صرف ایک مسئلے کا شکار ہے‘ وہ مسئلہ حل ہو جائے تو یہ ادارہ بحال ہو جائے گا‘ میں آپ کو وقت دیتا ہوں‘ آپ واپس جائیں‘ وہ مسئلہ ڈھونڈیں‘ ہم دوبارہ بیٹھیں گے اور اگلی میٹنگ میں پی آئی اے کی بحالی کا پلان بنا ئیں گے‘‘ وزیراعظم اس کے بعد اپنی نشست سے اٹھ گئے‘ پوری کابینہ اس گفتگو پر حیران رہ گئی۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی یقینا پی آئی اے کے بنیادی مسئلے سے واقف ہوں گے‘ یہ خود سول ایوی ایشن سے تعلق رکھتے ہیں‘ پائلٹ بھی ہیں‘ پی آئی اے کے چیئرمین بھی رہے ہیں اور یہ ملک میں کامیابی سے ایک پرائیویٹ ائیر لائین بھی چلا رہے ہیں چنانچہ یہ نیشنل فلیگ کیریئر کے اصل ایشو سے آگاہ ہوں گے‘ میں ان کی رہنمائی نہیں کر سکتا لیکن کیونکہ میں ایک دائمی مسافر ہوں‘ میں ملک کے اندر اور باہر سیکڑوں مرتبہ سفر کر چکا ہوں۔
میں دنیا کی آدھی بڑی ائیر لائینز کا مہمان بھی رہ چکا ہوں چنانچہ میں اپنے وسیع تر تجربے کی بنیاد پر پی آئی اے کے واحد مسئلے کی نشاندہی کر سکتا ہوں اور وہ مسئلہ ’’سینس آف اونر شپ‘‘ ہے‘ پی آئی اے ملک کے ان سرکاری اداروں میں شامل ہے جس کا کوئی مائی باپ نہیں‘ چپڑاسی سے لے کر چیئرمین تک کوئی شخص اس کی اونر شپ لینے‘ اس کو اپنا ادارہ ماننے کے لیے تیار نہیں‘ یہ ایک ایسی بھینس ہے جس کی بوٹیاں ہر شخص نوچتا رہا اور ہر شخص نوچتا رہنا چاہتا ہے چنانچہ یہ ادارہ اپنی ہی قبر کا سنگ عبرت بن کر رہ گیاہے‘ ہم اگر پی آئی اے کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی ’’اونر شپ‘‘ لینا ہو گی۔
ہمیں اسے چوہدری شوگر مل‘ انہار ڈیری پراڈکٹس اور ائیر بلیو کی طرح چلانا ہوگا‘ آپ آپریشنز کم کر دیں‘ شیڈول کی پابندی کریں‘ غیر ضروری ملازمین کو فارغ کر دیں‘ فلائیٹ کے دوران سہولتوں میں اضافہ کریں‘ بکنگ آن لائین کر دیں‘ پی آئی اے کی جائیدادیں بیچ کر قرضے ادا کر دیں‘ پروفیشنل مینجمنٹ لے آئیں‘ آپ مختلف ائیر لائینز کے ساتھ روٹس شیئرنگ کرلیں اور آپ پی آئی اے کو جلد سے جلد پرائیویٹائز کر دیں ‘پی آئی اے بحال ہو جائے گی‘ ہم ان ایشوز پر توجہ دینے کے بجائے دس ماہ سے پی آئی اے کا ایک جہاز تلاش کر رہے ہیں‘ ہم اس جہاز کا ماتم کرتے نہیں تھک رہے لیکن کسی نے آج تک اصل ایشو سمجھنے کی کوشش نہیں کی‘ پی آئی اے کے 4 اے 310 جہاز 25 سال کی مدت پوری کر چکے ہیں۔
یہ جہاز اب اڑنے کے قابل نہیں ہیں‘ پی آئی اے کے سابق جرمن سی ای او برنڈ ہلڈن برانڈ نے ان میں سے ایک جہاز فلم سازی کے لیے کرائے پر دے دیا‘ کار پوریشن کو دو لاکھ 10 ہزار یوروز کرایہ مل گیا‘ یہ جہاز بعد ازاں جرمنی کے شہرلیپزگ بھجوا دیا گیا‘ پی آئی اے لیپزگ سے فلائیٹس شروع کرنا چاہتی تھی‘ یہ جہازلیپزگ ائیرپورٹ پر پی آئی اے کا نشان بن کر کھڑا ہونا تھا لیکن ایشو بن گیا‘ ڈیل میں یقینا کوئی نہ کوئی خرابی ہو گی‘ کوئی نہ کوئی غلطی‘ کوئی نہ کوئی کوتاہی بھی ہو گی لیکن آپ کمال ملاحظہ کیجیے اس دوران مزید تین اے 310 جہاز گراؤنڈ ہو گئے۔
یہ تینوں جہاز پچھلے چھ ماہ سے کراچی ائیر پورٹ پر کھڑے ہیں‘ ان کے بارے میں آج تک کسی نے سوچا اور نہ ہی پوچھا‘ کراچی ائیرپورٹ پر دو سیون فور سیون بھی موجود ہیں‘ ایک کھڑا کھڑا گل رہا ہے اور دوسرے میں کافی شاپ بن چکی ہے‘ کیا یہ جہاز ‘ جہازنہیں ہیں اور کیا ان کا کوئی والی وارث نہیں؟ ہم جرمنی میں کھڑا جہاز واپس لانا چاہتے ہیں ‘ لانا چاہیے لیکن ائیر پورٹ پر سڑتے ہوئے جہاز بیچنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘کیوں؟ یہ وہ بے وقوفیاں ہیں جنہوں نے پی آئی اے کو تابوت بنا دیا لہٰذا میں سمجھتا ہوں پی آئی اے کا اصل مسئلہ حماقت ہے‘ ہم جب تک حماقتوں سے نہیں نکلیں گے ہم پی آئی اے سمیت ملک کا کوئی ادارہ نہیں چلا سکیں گے‘ ہمیں یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے