جنسی ہراسمنٹ جیسے اخلاقی وسماجی مسائل میں جدید ذہن اسی بنیادی غلطی کا شکار ہے جو دوسرے کئی مسائل میں بھی ظاہر ہوتی ہے، یعنی مسئلے کے صرف اس پہلو کو ایڈریس کرنا جو کسی کی ’’آزادی’’ یا ’’حق’’ پر زد پڑنے سے متعلق ہو اور قانوناً اس پر کوئی اقدام کیا جا سکے۔
مذہبی اخلاقیات کا زاویہ نظر اس معاملے میں زیادہ جامع اور بامعنی ہے، کیونکہ وہ ایک جزو کو اس کے باقی اجزاء سے الگ کر کے موضوع نہیں بناتی۔ مذہبی نقطہ نظر سے مسئلہ صرف ہراسمنٹ نہیں، بلکہ دو اور چیزیں بھی ہیں۔
ایک، جنسی کشش پیدا کرنے کے مختلف طریقے استعمال کرنا
اور دوسرا، ’’فلرٹیشن’’ کرنا جو باہمی رضامندی سے ہوتی ہے۔
چنانچہ مذہبی تصور اخلاق اس مسئلے کو ایک کل کے طور پر دیکھتے ہوئے ان تمام پہلووں کا موضوع بنائے گا اور یہ کہے گا کہ ایک فریق جنسی کشش پیدا کرنے کے طریقوں سے اجتناب کرے، دونوں فریق باہمی رضامندی سے بھی ’’فلرٹیشن’’ نہ کریں، اور ایک فریق، دوسرے کی کمزور پوزیشن سے فائدہ اٹھا کر اسے جنسی تلذذ کا ذریعہ نہ بنائے۔
تعلیم وتلقین کے ساتھ ساتھ اس معاملے میں جب قانون حرکت میں آئے گا تو وہ بھی صرف ہراسمنٹ پر نہیں، بلکہ باقی دونوں پہلووں کے حوالے سے بھی آئے گا۔