ترکی اور ترکوں سے ہمارا رومانس بہت پرانا ہے۔ شیر میسور ٹیپو سلطان نے اپنی حکمرانی کی مہر تصدیق سلطنت عثمانیہ سے ثبت کروائی۔ عثمانیوں پر زوال آیا تو ہندوستانی عورتوں نے ان کی امداد کے لئے اپنے زیورات نچھاور کئے تحریک خلافت چلائی، شاعروں نے جذباتی اشعار سے دلوں کو گرمایا، حضرت اقبال بھی بول اٹھے؎
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
مصطفیٰ کمال نے ترکی کے حالات کو سنبھالا تو وہ ہندوستان کے بہت سے لوگوں کے آئیڈیل بن گئے قائداعظم محمد علی جناح نے مصطفیٰ کمال کے حالات زندگی پر مشہور کتاب ’’گرے وولف‘‘ بہت غور سے پڑھی۔ مذہبی قربت کے علاوہ ترکی اور پاکستان کے سیاسی حالات میں بھی کافی مطابقت رہی ہے دونوں ممالک میں چار چار دفعہ مارشل لاء لگ چکے ہیں۔ مذہبی اور سیکولر قوتوں کی کش مکش اور کمزور سیاست بھی تقریباً ایک جیسی رہی ہے حکومتیں آتی جاتی رہی ہیں ترکی میں بھی ایک وزیر اعظم کو پھانسی دی گئی، پاکستان میں بھی ایک وزیراعظم کو پھانسی چڑھایا گیا۔ ترکی میں آنے والی ہر تبدیلی کو پاکستان میں غور سے دیکھا جاتا ہے۔ طیب رجب اردوان نے ترکی میں زمام اقتدار سنبھالی تو پاکستان میں ہر پارٹی اور ہر گروہ نے انکے عروج کی کہانی کو اپنے اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔
آج کل پاکستان میں اردوان ایک فیشن ہے جیسے کہ کبھی عثمانیہ دربار کے زعماء کی پیروی میں ہندوستان بھر میں ترکی ٹوپی پہنی جاتی تھی۔ علامہ اقبال سے نوابزادہ نصر اللہ خان تک میں اس روایت کی جھلک نظر آتی رہی۔ اب اردوان سٹائل کو نہ صرف ن لیگ پسند کر رہی ہے بلکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی پسند آ رہا ہے۔ نون کی خواہش ہے کہ کاش پاکستان کے عوام بھی ترکی کی طرح جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور نواز شریف کو کسی نہ کسی طرح عوامی طاقت کے بل بوتے پر واپس اقتدار میں لے آئیں۔ دوسری طرف پاکستانی فیصلہ ساز اردوان کے اس لئے مداح ہیں کہ جس طرح سے اس نے اپوزیشن کا گلا گھوٹنا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اسی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں مخالف آوازوں کو دبا دیں۔
اردوان کو خوش کرنے میں بھی ہم سب پیش پیش ہیں۔ فتح اللہ گولن کے پیروکاروں نے پاکستان میں ترک سکول قائم کر رکھے تھے ترک حکومت نے گولن تحریک کے خلاف ایکشن شروع کیا تو پاکستان پر بھی دبائو بڑھایا کہ ترک سکولوں کو گولن تحریک کے حامیوں سے واپس لیا جائے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اردوان کی محبت میں فوراً کارروائی کی اور گولن کے پیروکاروں کو سکولوں کی مینجمنٹ سے الگ کر دیا۔ نواز شریف رخصت ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ نے اردوان کو خوش کرنے کے لئے لاہور سے ترک سکولوں کے سابق سربراہ مسعوت، اس کی بیوی اور دو بچیوں کو اٹھا لیا حالانکہ انہوں نے اقوام متحدہ سے پناہ گزینوں والا اجازت نامہ لے رکھا تھا۔ مسعوت اور ان کی بیوی اب ترکی کی تاریک جیلوں میں بند پڑے ہیں۔ دوسری طرف ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنے اس کارنامے کی وجہ سے یقیناً صدر اردوان کو خوش کرنے میں کامیاب ہو گئی ہو گی۔یہ الگ بات ہے کہ ایکسپو 2020ءکے معاملے پر پاکستان نے دوبئی کو ناراض کر کے ترکی کے حق میں ووٹ دیا۔ اسی لئے دوبئی والے نواز شریف حکومت کے سخت خلاف ہو گئے تھے شہباز شریف نے معافی تلافی کی بہت کوشش کی لیکن ناراضی ابھی تک برقرار ہے۔ دوسری طرف نواز شریف حکومت کے جانے پر جہاں بیرونی دنیا میں کسی ایک ملک نے بھی اظہار افسوس یا اظہار ہمدردی نہیں کیا وہاں صدر اردوان کی طرف سے بھی خیرسگالی کا کوئی پیغام منظر عام پر نہیںآیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ترکی کے حالات کو صحیح طور پر سمجھنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں ہم ہندوستان میں تحریک خلافت چلا رہے تھے تو ترکی میں جدت پسند کمالسٹ مقبول تھے اب بھی کہیں ہم وہاں کے حالات کی نبض غلط نہ پڑھ رہے ہوں؟
کیا واقعی کوئی پاکستانی اردوان ہمارے حالات سدھار سکتا ہے؟ کیا واقعی ہمیں ایسے طاقتور وزیراعظم کی ضرورت ہے جو عدلیہ اور فوج کی اردوان کی طرح چھانٹی کرے، ہزاروں کو جیلوں میں ڈال دے یا پھر واقعی ہمیں ایسے آمر کی ضرورت ہے جو سیاسی مخالفوں پر ایسا وار کرے کہ ملک میں سکون ہو جائے اور اردوان کی طرح ساری توجہ ملکی معیشت پر دے، عام لوگوں کو معاشی طور پر اتنا خوشحال بنا دے کہ سارا ملک معاشی ثمرات سے مالامال ہو کر اردوان کا مداح ہو جائے۔
یہ ممکن ہوتا اگر ترکی اور پاکستان بالکل ایک جیسے ہوتے۔ ایسا نہیں ہے دونوں میں بہت فرق ہے ترکی میں کافی آئی تو اسے مغربی برائی سمجھ کر رد کر دیا گیا اس پر باقاعدہ ’’کافی فسادات‘‘ ہوئے یہ الگ بات ہے کہ بعد میں انکشاف ہوا کہ کافی مغربی سوغات نہیں بلکہ افریقی پراڈکٹ ہے۔ جبکہ ہندوستان میں چائے اور کافی ہاتھوں ہاتھ لی گئی۔ اسی طرح تاریخ سے یہ واقعہ کیسے مٹایا جا سکتا ہے کہ عثمانی پرنس سلطان احمد اول (17ء۔ 1603ء) نے برطانوی ملکہ ایلزبتھ اول کی طرف سے تحفے میں بھجوائے جانے والے گھڑیال کو بدعت سمجھتے ہوئے تلوار کے وار سے ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا تھا جبکہ ہندوستان میں گھڑی کو ایک جدید دریافت سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ڈپٹی نذیر احمد اپنے بیٹے کو لکھے گئے خطوط میں گھڑی کو چابی دینے اور احتیاط سے استعمال کرنے کے مشورے دیتے رہے۔ ترکی میں مصطفیٰ کمال کے سیکولر ازم کو روز اول سے قانون کا درجہ حاصل رہا جبکہ پاکستان کو جمہوریت اور اسلام کو ملا کر چلنے کی تجربہ گاہ کے طور پر قائم کیا گیا۔ اس لئے دونوں ملکوں میں فرق بہت ہے۔ یہاں بھٹو جیسے جمہوری حکمران نے اپوزیشن پر سختی کی تو فوج آ گئی اور اگر جنرل ضیاء نے اپنے مخالفوں کو کوڑے مارے اور پھانسیاں دیں تو اسے بھی تاریخ میں اچھا مقام نہیں مل سکا۔ پاکستان میں سختی اور چیرہ دستی نہیں چلتی یہاں امن، محبت، آزادی جمہوریت اور اخوت کامیاب ہے مخالفوں کو دبانے سے وقتی ریلیف تو مل جاتا ہے مگر یہ مسئلوں کا دیرپا حل ہر گز نہیں۔ہوسکتا ہے کہ اردوان ترکی میں امر ہو جائیں لیکن اگر کسی پاکستانی اردوان نے چاہے وہ جمہوری ہو یا غیر جمہوری وہی کچھ کرنے کی کوشش کی تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
اردوان جیسے تضادات یہاں نہیں چل سکتے۔ پاکستان میں کوئی اردوان کی طرح اسرائیل کا سفارت خانہ کھول سکتا ہے اور نہ فلسطینیوں کی مدد کیلئے فلوٹیلا بھیج سکتا ہے، نہ کوئی دہشت گردی کیخلاف آواز بلند کرنے کیساتھ ساتھ دہشت گردی پھیلانے والے طالبان کے دفتر کھول سکتا ہے۔ اور نہ ہی کوئی شام اور لیبیا کو للکارتے ہوئے امریکہ کی مدد کرسکتا ہے مگر ساتھ ہی گولن کو ملک بدر نہ کرنے پر امریکہ سے جھگڑ ا کرسکتا ہے۔ وہ اردوان ہے اور یہاں پاکستان میں کوئی اردوان نہیں، وہ ترکی ہے اور یہ پاکستان ہے، دونوں میں بڑا فرق ہے۔