سر رہ گزر بس دیکھتے جائیں

سپریم کورٹ:نواز شریف نے بیوقوف بنایا۔ تفصیلی فیصلہ، نظرثانی درخواستیں مسترد۔ نواز شریف: عدلیہ آمروں کو تحفظ دیتی ہے۔ بھاگنے والے نہیں، مریم نواز:دلیل نہ ہونے پر منصف، مخالف وکیل بن گئے، یہ ہے اختصار تفصیل قارئین جان سکتے ہیں ہمیں تو بس اتنا کہنا ہے بس دیکھتے جائیں اور فوری نتائج اخذ کرنے کے بجائے وسیع تر غور و خوض کریں، قوم کے خالی ہاتھ میں بہت کچھ ہے، وہ اپنی نادانیوں سے بھی سبق سیکھے، سچ چھپا نہیں رہتا، جھوٹ بیوقوف نہیں بنا سکتا، سچ، جھوٹ دونوں سامنے ہیں پہچان رکھیں اپنی اصلاح پر توجہ دیں ماحول میں موجود چند گروہ کیونکر حاوی رہے؟ یہ سوال لمحہ فکریہ کو دعوت دیتا ہے، بھاگنے نہ بھاگنے کی بات تو اس لئے بھی نہیں کی جا سکتی کہ یہ زمین ہو یا وہ زمین اللہ کی ہے اور اس سے بھلا کون بھاگ سکتا ہے، یہ بڑی حوصلے کی بات ہے کہ اب بھی موجودہ حالات سے سرخروئی کی امید جوان ہے، قانون ہو انصاف اسے ہمیشہ ہم شرمندہ کرتے ہیں، جبکہ یہ مضبوط سیاسی اعصاب ہیں کہ شرمندگی ان کے قریب نہیں پھٹکتی، انصاف کرنے والے زیادہ محتاط اور خدا خوفی والے ہوتے ہیں۔ اگر نہ ہوں گے تو ان پر گرفت زیادہ سخت ہو گی، مصنف پر اعتماد کو چھیڑنے سے معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں، عدلیہ نے آمروں کا احتساب بھی کیا، انصاف کرنے والوں کے ساتھ ہمیں بھی انصاف کرنا چاہئے، شاید ہم جوش میں آ کر وہ کہہ دیتے ہیں جس سے ہمارا ضمیر متفق نہیں ہوتا، پاکستان میں صرف غریب محروم عوام کو 70سال بیوقوف بنایا جاتا رہا ورنہ اس نعمتوں سے مالا مال سرزمین پر وہ ذلیل و خوار نہ پھرتے، رزق کی تلاش میں در اغیار پر دستک نہ دیتے، انفرادی گناہ فرد کو قتل کرتا ہے اجتماعی گناہ قومیں ڈھیر کر دیتا ہے، حقوق العباد سلب کرنے کا حتمی فیصلہ وہ لوگ دیتے ہیں جن کے حقوق چھین کر اس چند روز ہ زندگی کے لئے محلات کھڑے کئے جاتے ہیں، اپنی پلیٹ میں اتنا کھانا ڈالیں جسے ختم بھی کر سکیں، دوسروں کی بھری رکابیاں اپنی رکابیوں میں انڈیلنے سے نعمتوں کا لطف جاتا رہتا ہے، اور سکرات طویل ہو جاتی ہے۔
٭٭٭٭

نیب کو بے عیب ہی رہنے دیں!
شاید یہ شائبہ نظر آ گیا کہ نیب بے عیب ہونے چلی ہے، اس لئے اس کا نام، کام بدل دینا چاہئے، اور ہم نے ووٹ دے کر اسمبلیاں اسی لئے قائم کیں کہ آئین کو اپنے بدنما چہرے جیسا کرنے کے لئے جب چاہیں اکثریت استعمال میں لے آئیں، آئین اپنی اصلی حالت سے بڑھ کر کتنا نقلی ہو چکا ہے یہ کبھی کسی نے سوچا، یہ تو وہی بات ہوتی کہ؎
خود کو بدلتے نہیں آئین بدل دیتے ہیں
اب سنا ہے کہ نیب کو اپنے روئے زنگار یں جیسا بنانے کے لئے کوئی ترمیم پائپ لائن میں ہے، نیب ایک احتساب کا قومی ادارہ ہے، اگر اس کی تطہیر کے بجائے مزید غلاظت بھرنے کی کوشش کامیاب ہو گئی تو واقعتاً یہ ادارہ ناکاموں کو کامیاب اور ناپاکوں کو پاک کرنے کا کام ہی کرے گا، خدارا ایسا نہ کیا جائے اور یہ آئین میں اب پی آئی آے کے جہاز کی طرح نئے نئے پیوند نہ لگائے جائیں، یہ ترمیم کیوں نہیں کی جاتی کہ چین کی طرح کرپشن کے مجرم کو گولی مار دی جائے، جب ہم چین کی اشیاء ضد کر کے درآمد کرتے ہیں تو اس کی کوئی اچھی ادا بھی اپنا لیں کہ وہ ہمارا قابل اعتماد دوست ہے، البتہ ہم نیب کے سربراہ سے کہیں گے کہ وہ اپنی چوکھٹ بدل لیں، کیونکہ سر تو سوچتا ہے کام دھڑ کرتا ہے، بہرحال نیب ایک ایسا ادارہ ہے کہ اگر یہ عدل کو عملی شکل دیدے تو ہمارے مسخ چہرے صحیح حالت میں ہمیں واپس مل سکتے ہیں۔ یہ ادارہ مشرف نے قائم کیا تھا، اور اگر ایک اچھا ادارہ ایک آمر کے ہاتھوں بن ہی گیا تو اب اسے مشرف بہ اسلام بھی کر دیا جائے چہ جائیکہ اس کی قلب ماہیت کر دی جائے اور اس کی صورت اور بگاڑ دی جائے، نئے چیئرمین اگر اس ادارے کی ٹیم پر کام کریں تو ملک و قوم کے کئی کام درست ہو جائیں گے، ہمیں کرپشن کے اینا کونڈا نے ڈسا ہے، اگر اس کا سر کچل دیا جائے تو یہ ملک جنت بن جائے، یہ غریب امیر کا فرق مٹتا نہیں تو اتنا کم ہو جائے کہ غریب کو امیر چبھے نہیں، اور وہ احساس کمتری سے باہر زندگی چین سے گزار سکے، ہمارے ہاں سزا سنائی دیتی ہے دکھائی نہیں دیتی۔
٭٭٭٭

یہ بھی ہماری البم میں ہے
کیا یہ ضروری ہے کہ وزیر اپنا کام چھوڑ کر یہ دیکھے بغیر کہ کیا غلط ہے کیا صحیح ہر روز ایک سیاسی بیان ضرور دے تاکہ اس کو جو سوچ سے بڑھ کر عزت دولت شہرت منصب ملا اسے مستحکم رکھا جائے، یہ نہایت کچے دھاگے سے رفو گری ہے، آج ہمارے تمام سرکاری محکموں کی کارکردگی صفر ہے، ہر دکاندار کا اپنا ریٹ ہے، ایک سستے اور معمولی سے پلنگ کی خریداری کیلئے نکلا، ایک جگہ دیکھا بھالا پسند کیا قیمت پوچھی تو 90ہزار روپے، دوسری دکان پر گیا، ایک پلنگ زیادہ اچھا دیدہ زیب پسند کیا قیمت 15ہزار ، منت سماجت سے 13ہزار میں خرید کر گھر لے آیا اور سوچنے لگا کہ یہ میں نے خواب دیکھا یا حقیقت دیکھی اور دیگر اشیاء بارے گہری سوچ میں پڑ گیا۔ فرق یہ معلوم ہوا کہ پہلی دکان شاندار تھی پلنگ فقط عام پلنگ، دوسری دکان عام سی مگر پلنگ شاندار، اسے کہتے ہیں بیوقوف بنانا، چل پھر کر، بھائو تائو کرنا ان دنوں شرم کی بات ہے، اسلئے ہم سب بیوقوف تو نہیںبنائے جاتے ہیں۔ ہر محکمے کا وزیر ہوتا ہے۔ اگر اسکی گرفت مضبوط ہو تو دکانوں کے فرق سے قیمتوں میں اتنا فرق نہ ہو، دواء سے لیکر غذاء تک آمیزش ہے، اور یوں قند بھی زہر بنا کر بیچا جاتا ہے مگر یہ ظلم بند نہیں ہوتا بند کرنے والے اپنی کرسی اپنا پروٹوکول بچانے پر لگے ہوئے ہیں، چیک کرنیوالے اپنا بھتہ وصول کرنے جاتے ہیں کہ ان کو معلوم ہے کہ دھڑ ہے سر نہیں، سر اقتدار کے نیزے پر الہوس الہوس کے نعرے لگاتا ہے، اور اس کا دھڑ دکانداروں، تاجروں سے اپنی فیس لے کر انہیں غریب عوام سے لوٹ مار کرنے کا اجازت نامہ دے دیتا ہے، پولیس کا محکمہ بھی ایک وزیر کے تابع ہے۔ یہ وزیر اگرچہ وقت کے سقراط ہیں یا نظر آتے ہیں ایک کیس کی وکالت میں جتے ہوئے ہیں، ملک کی نصف سے زائد پولیس ان سقراطوں کی حفاظت پر مامور ہے، اور یہ تحفظ وزیر کا نہیں اس کی شان و شوکت کا، کہئے یہ در وزیر پر فرائض انجام دینے والے کیا عوام کے وزیر ہوں گے یا محافظ، ٹیکسوں کی بھرمار ہو، غریب آدمی ایک دھکے کی مار ہو، یہ مقدمہ کس عدالت میں جائے گا؟ مفلسوں سے چھینا جھپٹی کر کے تنخواہ دار حکمران آخر کس برتے پر اس قدر فرعون صفت ہو جاتے ہیں کیا کوئی عام آدمی وزیر سے براہ راست بات کر سکتا ہے۔
٭٭٭٭

اسموگ پروف معاشرہ
….Oبرطانوی اپوزیشن لیڈر:آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے پر ملکہ الزبتھ معافی مانگیں۔
کیا معافی سے کام چل جائے گا؟
….Oشیخ رشید:ن لیگ ٹوٹ جائے گی، انتخابات وقت پر ہوتے نظر نہیں آتے،
اتنی بھی کچی نہیں، بہتر ہے کہ وقت پر ہوں، کبھی اچھی پیشگوئی بھی کر دیا کریں دل ہی پشوری کرنے کے لئے۔
….Oنواز شریف کچھ دیر عدالت میں سوئے رہے۔
عدالت کے کمرے میں کہیں یہ نہیں لکھا ہوا یہاں سونا منع ہے۔
….Oاسموگ، بچے بوڑھے گھر سے کم نکلیں:طبی ماہرین۔
پاکستانیوں پر جب سیاسی اسموگ اثر انداز نہیں ہو سکی تو یہ ماحولیاتی اسموگ ان کا کیا بگاڑے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے