آزادی رائے کو بھونکنے دو کا مطلب؟

انقلاب فرانس کا جشن جاری تھا ۔ ایک شخص چھڑی گھماتے ہوئے ، اپنے کرتب کا مظاہرہ کرتے ہوئے بازار سے گذر رہا تھا ۔ اتنے میں اس کی چھڑی سامنےسے آتے ہوئے ایک پروفیسر کی ناک سے جا ٹکرائی ۔

پروفیسر نے زخمی ناک پر ہاتھ رکھا اور اس کرتب باز سے کہا کہ تمھیں دیکھ کر چلنا چاہیے تو جواب میں اس "دانشور” کا کہنا تھا کہ ، "اب فرانس آزاد ہو چکا ہے اور مجھے یہ آزادی میسر ہے کہ میں جیسے چاہوں ، ویسا کروں "۔

پروفیسر نے جواب دیا کہ ، ” تم ٹھیک کہتے ہو ،ضرور فرانس ملوکیت سے آزاد ہو چکا ہے اور تمھیں بھی آزادی میسر ہے تاہم جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے ، تمھاری آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے "۔

پروفیسر کا اس شخص کو دیا گیا جواب آج تک اظہار رائے کی آزادی پر ایک بڑی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ بظاہر یہ معمولی سا واقعہ ہے لیکن زندہ معاشروں کی بڑی اور نمایاں قدر ہے ۔

تو ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ رائے کی آزادی اور اظہار رائے میں کیا فرق ہے ؟ ۔ بات کیا ہے اور کیسے کی جانی چاہیے؟ ۔ ہم گفتگو کرتے ہوئے اکثر اوقات تلخ ہو جاتے ہیں اس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں ۔

ایک تو ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں تنقیدی شعور سے طلبہ کو آگاہ نہیں کیا جاتا ۔ تنقیدی مطالعہ نہ ہوتو معاشرہ کبھی بھی ترقی اور استحکام کی جانب آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ تنقید تو استاد بھی برداشت نہیں کرتا ، سوال کرنے پر ذہنی ، نفسیاتی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا تو ہمارے تعلیمی ادروں میں معمول ہے ۔

دوسرا ہم بہت جلدی نتائج کے حصول کے بارے میں فکر مند ہو جاتے ہیں اور اس دوران یہ بھول جاتے ہیں کہ چیزیں فطری طریقے سے آگے بڑھتی ہیں ۔ اگر آپ انہیں غیر فطری طریقے سے لے کر آگے چلیں گے تو ان کی پرورش مناسب انداز سے نہیں ہو سکے گی ۔ آپ کو ایک وجود تو مل جائے گا لیکن وہ شاید اتنا متحرک اور فعال نہ ہو جتنی آپ کو توقع ہے یا معاشرے کو ضرورت ہے ۔

آپ اس کو دیسی مرغی اور برائلر مرغی کی مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں ۔ ایک قدرتی ماحول میں پروان چڑھتی ہے ۔ اس کا دوڑنا ، اچھل کود ، اپنے بچوں کی حفاظت اور اس کی اڑان غیر معمولی ہوتی ہے ۔ اس کا انڈا اور گوشت برائلر کے مقابلے میں ہمیشہ دوگنا قیمت پر فروخت ہوتا ہے ۔ معمولی بیماریاں وہ برداشت کر سکتی ہے ۔ اگر آپ دیسی مرغی کو ذبح کرنے کے لیے پکڑیں گے تو اسے پکڑنے کے لیے بھی آپ کو سو جتن کرنے پڑتے ہیں ۔ اتنی آسانی سے آپ اسے نہیں پکڑ سکتے ۔

دوسری جانب برائلر مرغی ہے ۔ اس کا وزن دیسی مرغی کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ پکتی بھی جلدی ہے ۔ اس کا وزن زیادہ ہونے کے باوجود بھی اس کی قیمت دیسی مرغی سے آدھی ہوتی ہے ۔ برڈ فلو سمیت کئی قسم کی بیماریاں اسے ایک جھٹکے میں موت کا راستہ دکھا دیتی ہیں ۔ نالی پار کرتے ہوئے یہ اکثر نالی میں گر جاتی ہے ۔ اب جو مرغی چھوٹی سی نالی نہیں پار کر سکتی ، وہ آپ کو کیا طاقت دے گی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسے اس کے فطری ماحول میں بڑا نہیں کیا جاتا اور وہ بہت بڑی ہونے کے باوجود بڑا کام نہیں کر سکتی ۔

دیسی مرغی کی پرورش ایک صبر آزما کام ہے لیکن اپنے نتائج میں اطمینان بخش تسکین فراہم کرتی ہے تاہم دوسری جانب برائلر کی فارمنگ کم وقت میں پیسے زیادہ دیتی ہے لیکن حالت یہ ہے کہ فارمر خود بھی اپنے گھر میں اس کا گوشت کم ہی پکاتا ہے ۔اکثر لوگ اس کو دی جانے والی غذا کے بارے میں تشویش کا شکار رہتے ہیں ۔ اپنی صحت کے بارے میں فکر مند لوگ تو فارمی مرغی بالکل نہیں کھاتے ۔

اس لیے چیزیں اگر فطری انداز میں آگے بڑھیں گی تو انتشار کم سے کم ہو گا لیکن آپ ہنگامی بنیادوں پر تبدیلیاں لانے کی کوشش کریں گے تو وہ تبدیلیاں فساد کا موجب بنیں گی ۔

پاکستان ، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں ہنگامی بنیادوں پر تبدیلیوں کی کوششیں فساد کو پروان چڑھانے کا سبب بن رہی ہیں ۔ چالیس برسوں میں ایک خاص مزاج پر تیار کی گئی نسل کو آپ بیک جنبش قلم تبدیل نہیں کر سکتے ۔ اس تبدیلی کے لیے فطری ماحول بنائیے ۔ ناول ، شاعری ، ڈرامہ ،فلم ، تھیٹر ، خطبے ، نصاب اور سماجی کی سطح پر شعوری کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ تعلیمی اداروں کے ماحول کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ ہمیں کہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ اختلاف رائے کیا ہوتا ہے ؟ اس کا کیا مطلب ہے ؟ ہمیں صرف یہ سکھایا گیا ہے اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں کو یہود و نصاری کا ایجنٹ قرار دیکر سر تن سے جدا کر دو ۔ یہ سب کچھ کسی سازش کے ساتھ نہیں بلکہ انتہائی نیک نیتی سے سکھایا ، سمجھایا اور پڑھایا گیا ہے ۔ ہمارے پڑوس میں کیسے ہندو بچوں کو انتہا پسند بنایا جا رہا ہے ۔ دیکھ کر مستقبل مزید مخدوش لگنے لگتا ہے ۔

اختلاف رائے کا کیا مطلب ہے ؟ سادہ سی بات ہے جو فورا سمجھی جا سکتی ہے کہ قدرت نے ہر انسان کو مختلف رنگ ، روپ ، زبان ، علاقے ، سوچ اور فکر کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔

ایک ہی گھر میں ماں اور باپ اور بچوں کے خیالات ، شکلیں اور مزاج مختلف ہیں ۔ کسی کو گلاب پسند ہے اور کسی کو موتیا کی خوشبو اچھی لگتی ہے ۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود کسی کو بریانی اچھی لگتی ہے تو کسی کو دال چاول ، دو جڑواں بھائیوں میں سے ایک کریلوں کا نام سن کر منہ بناتا ہے تو دوسرے کی بھوک جاگ جاتی ہے ۔ ایک کو کو نظم پسند ہے تو دوسرے کو نثر ، ایک ناول پڑھتا ہے تو دوسرا افسانے ، ایک کو ماں اچھی لگتی ہے تو دوسرے کو باپ ،

اگر ایک گھر میں بسنے والے دس لوگوں نے ایک جیسا ہی سوچنا ہوتا تو قدرت کو دس لوگ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ ایک ہی کافی تھا لیکن دس مختلف دماغ پیدا کرنے ، انہیں مختلف شکلیں دینے ، مختلف انداز سے سوچنے کی آزادی دینے کا مقصد ہی یہی ہے کہ انسان اس دنیا میں قدرت کی سکیم کو سمجھے ۔ انسان کا مختلف ہونا اور مختلف سوچنا ہی اس کائنات کا اصل حسن اور خوبصورتی ہے ۔

لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب آپ اس خوبصورتی کو بد صورتی میں بدل دیتے ہیں ۔ آپ خود کو مسلمان اور دوسروں کو کافر سمجھتے ہیں ۔ آپ انہیں کافر سمجھنے کے بعد قابل قتل سمجھتے ہیں ۔ آپ ان کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں ۔ انہیں رہنے کی اجازت نہیں دیتے ۔

آپ ایک دوسرے کی مقدس اور تاریخی شخصیات کو تاریخ کے نام پر سب و شتم (گالم گلوچ) کا نشانہ بناتے ہیں۔ آپ سیاسی طاقت کے حصول کے لیے مذہب کو استعمال کر تے ہیں ۔ آپ دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھنے کے بجائے اسے ہمیشہ دشمن کی صف میں لا کھڑا کرتے ہیں ۔ آپ خود کو زمین پر خدا کا واحد نمائندہ سمجھتے ہیں تو پھر مسئلہ پیدا ہوتا ہے ۔

اس لیے کسی کا شیعہ ہونا ، دیوبندی ، بریلوی ، اہل حدیث ہونا ، جماعت اسلامی ، غامدی ، احمدی ، پرویزی ، بہائی ، ہندو ، سکھ یا مسیحی بن ہونا ۔ خود کو پارسی ، یہودی اور اسماعیلی مزہب کا پیروکار بنا کر نسل تک محدود کر لینا ۔ خدا کو ماننے کا اعلان کرنا اور عملا نہ ماننا ، خدا کو اپنی مرضی کے مطابق ماننا ۔ مسلم لیگ ق ،ن ، پپیلز پارٹی ، تحریک انصاف ، جے یو آئی میں شامل ہو جانا ،جے یو آئی چھوڑ کر تحریک انصاف یا عوامی نیشنل پارٹی میں چلے جانا ، بلکہ میں سے آگے چل کر کہوں گا طالبان ، القاعدہ ، لشکر جھنگوی ، مہدی لیشیا ، حزب اللہ ، سپاہ محمد یا داعش کی سوچ اختیار کر لینا، سب کچھ ہمارے سامنے ہے ۔

خود کو ہمیشہ ٹھیک اور حق پر اور دوسرے کو ہمیشہ غلط اور باطل پر سمجھنا بھی ایک بیماری ہے ۔ یہ بیماری انسان میں انتہا پسندی پیدا کر دیتی ہے جو اگلے مرحلے میں عسکریت پسندی کا رخ کر تی ہے ۔ انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے ماحول میں بات کرنے کی جگہ ختم ہو جاتی ہے ۔ لوگ ڈر کے مارے میں بات نہیں کر سکتے ۔ جہاں بات کی آزادی نہ ہو وہاں نئے خیالات کو پر پرواز نہیں ملتا ۔ ان معاشروں میں ترقی اور استحکام نہیں آسکتا ۔ وہاں خوف اور گھٹن کی فضا ہوتی ہے جس میں لوگ گھٹ گھٹ کر موت کو جیتے ہیں ۔

ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ ایک زندہ اور بیدار معاشرہ ہم نے کیسے تیار کرنا ہےیا بے حسی کا یہ سلسلہ کب تک چلائے رکھنا ہے ۔ کسی دن تو ہمیں اس ماحول سے خود کو اور اپنی نسل کو نکالنا ہے ۔

جس دن آپ میں رائے کا اختلاف برداشت کرنے اور سے فطری سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ، اس دن سے آپ کا وجود ایک مقصد کے سانچے میں ڈھل جائے گا ۔ تاہم یہ سمجھنا بھی ضروری ہے اختلاف رائے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو گفتگو کرنے کا سلیقہ بھی آتا ہو، آپ کی گفتگو با معنی اور پر مقصد ہو ۔ آزادی رائے کو بھونکنے دو کا مطلب تو آپ سمجھتے ہوں گے ؟؟؟

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے