تل ابیب: ہماری سانس میں کئی امراض کے سالمات پائے جاتے ہیں جنہیں حساس آلات کے ذریعے شناخت کیا جاسکتا ہے تاہم امریکی اور اسرائیلی ماہرین نے جداگانہ طور پر ایسے آلات تیار کیے ہیں جو صرف سانس کے ذریعے 17 مختلف امراض کی شناخت کرسکتے ہیں۔
اسرائیلی سائنسدانوں نے ایک سادہ آلہ تیار کیا ہے جو کسی مرض کے شکار انسان کے سانس میں چھپے کیمیکلز شناخت کرسکتا ہے جب کہ دوسری طرف امریکی ماہرین نے ملاوی میں ملیریا کو سانس کے ذریعے بھانپنے کے ایک نظام کی آزمائش شروع کردی ہے۔ ابھی یہ سانس کے ذریعے مرض شناخت کرنے کی ابتدا ہے لیکن بہت جلد سانس سے مرض بھانپنے والے آلات عام دستیاب ہوں گے۔ آلے کی قیمت 100 سے 200 ڈالر یعنی 10 سے 20 ہزار ڈالر تک ہوسکتی ہے لیکن ایک آلے کو ہزاروں مرتبہ، بار بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ دونوں نظام صحتمند شخص اور کسی مریض کی سانس کو شناخت کرکے اس کا موازنہ صحت مند سانس کی کیمیائی ترکیب سے کرتے ہیں اور کسی بیماری کی اطلاع دیتے ہیں۔ اگرچہ اسرائیلی ایجاد فوری طور دستیاب نہیں لیکن ماہرین پُرامید ہیں کہ بہت جلد یہ عام دستیاب ہوگی اور مریضوں میں فوری اور کسی تکلیف کے بغیر مرض کی موجودگی یا عدم موجودگی کی تصدیق کرسکے گی۔
ہماری سانس میں بہت سے امراض کی نشانیاں ہوتی ہیں اور اسی بنا پر تربیت یافتہ کتے کینسر سے لے کر مرگی تک شناخت کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیلی ماہرین نے جو آلہ تیار کیا ہے اسے ’نے نوز‘ کا نام دیا ہے جس کے معنی ’نینوذرات والی ناک‘ کے ہیں جو سانس میں چھپی ایک درجن سے زائد بیماریاں شناخت کرسکتا ہے جن میں پارکنسن، کینسر اور دیگر امراض شامل ہیں جبکہ اس آلے کی درستگی 86 فیصد تک نوٹ کی گئی ہے۔
دوسری جانب یونیورسٹی آف واشنگٹن کی پروفیسر اوڈرے اوڈم جان نے ایسی ہی ایک ٹیکنالوجی سے ملیریا شناخت کرنے کا کام لیا ہے جب کہ اس کی درستگی کا معیار 83 فیصد تک بتایا جارہا ہے۔ روایتی طور پر خون کے ٹیسٹ 90 سے 95 فیصد درستگی سے ملیریا شناخت کرلیتے ہیں۔ اس لحاظ سے سانس کا آلہ بہت بہتر اور مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر اوڈرے کی ٹیم اسے تجرباتی طور پر افریقہ کے ایک غریب ملک ملاوی میں آزما رہی ہے۔ اس میں ایک حساس اسپیکٹرومیٹر لگا ہے جو سانس میں موجود کیمیکلز شناخت کرکے مرض کا پتا لگالیتا ہے۔
ڈاکٹر اوڈرے کے مطابق ملیریا کی بعض اقسام خون کے ٹیسٹ میں نہیں آپاتیں کیونکہ مریضوں میں اس کا پروٹین مختلف ہوسکتا ہے۔ دوسری جانب غریب افریقی ممالک میں اکثر خون کے ذریعے ملیریا کی شناخت کا انفراسٹرکچر موجود نہیں جس میں تربیت یافتہ عملہ، خون رکھنے کےلیے ریفریجریٹر اور جدید خردبین وغیرہ شامل ہیں۔