وادی نیلم کی سِسکتی روحیں

میں نیلم ویلی کے مسائل پر وقتا فوقتا لکھتا رہتا ہوں۔ حالانکہ وہاں کے معروضی حالات کا علم بہت محدود ملتا ہے اور وہ بھی سماجی ابلاغ کے توسط سے لیکن چند مسائل اتنے قوی ہیں کہ دیار غیر میں بیٹھا کوئی بھی شخص ان کا ادراک کر سکتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت نے نیلم ویلی کو ذرائع آمدن کی ایک منڈی سمجھا اور وہاں سے جتنا لوٹ سکتے تھے لوٹ لیا۔ اور یہ صرف نیلم ویلی سے منتخب ہو کر ہی آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر بننے والے شرفائ کا وطیرہ نہیں رہا بلکہ ہرچند جس کا ہاتھ چلتے پانی میں پڑ سکا اس نے ہاتھ صاف کیے۔ شراب مفت کی ملے تو قاضی بھلا کیوں چھوڑے۔

نیلم ویلی کے چند بنیادی مسائل میں سے اول اور سنگین مسئلہ صحت کی بنیادی سہولیات کا ہے اور یہ مسئلہ اتنا سنگین ہے جس کا کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ کوئی ادارہ نیلم ویلی میں مورٹیلٹی ریٹ کا اندازہ لگا رہا ہے تاہم سومیرے ذاتی مشاہدے کے مطابق یہ ریٹ سو میں سے تین سے پانچ ضرور ہو گا۔ صرف پچھلے دو ماہ میں کئی خواتین زچگی کے دوران جان کی بازی ہار چکی ہیں۔ اور ان میں سے اکثر خواتین ہسپتال بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے دم توڑتی ہیں ان کے پیارے خطرناک پہاڑوں سے کندھوں پر اٹھا کر ان کو لاتے ہیں اور ان کو جواب میں ایک لاش ودیعت کی جاتی ہے ۔

نیلم ویلی کے اکثر علاقوں میں بیسک ہیلتھ یونٹ ببائے گئے ہیں جن مین ایک ایل ایچ وی بیٹھتی ہے لیکن ستر فیصد بی ایچ یوز کی ایل ایچ ویز بغیر حاضری کے تنخواہ لے رہی ہیں ان کے لیے ان دور دراز علاقون میں جانا اور وہاں پر رہائش اختیار کرنا جائے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور کچھ یہی حال ڈسٹرکٹ ہیلتھ یونٹ اٹھمقام کا ہے جسے حال ہی میں تعمیر کیا گیا ہے وہاں کوئی بھی لیڈی ڈاکٹر، ڈاکٹر، گائنا کالوجسٹ یا سرجن موجود نہیں ہے ۔ مختلف علاقوں سے علاج کی غرض سے تشریف لانے والے لوگ سول ہسپتال کے بجائے جھمبر آرمی کے ہسپتال کو ترجیح دیتے ہیں۔ جبکہ زیادہ سنجیدہ کیسز کو وہ بھی ہاتھ نہیں لگاتے نیتجتا مریض کو مظفرآباد بھیجا جاتا ہے اب یہ اس کی قسمت پر منحصر ہے کہ وہ بے ہنگم اور گھڈے زدہ سڑک پر مظفرآباد زندہ پہنچ سکتا ہے یا پھر بیچ راستے مین داعی اجل کو لبیک کہتا ہے۔

ایکسیڈنٹ کے کئی کیسز میں معمولی زخمی ہونے والے لوگ بھی بنیادی طبی مدد نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور ان میں سے ایک نئی کئی ایسے کیسے کا میں خود گواہ ہوں۔ مریض کو شروعات میں چند ضروری ادویات اور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے عملہ اس کی ذمہ داری لینے سے منع کر دیتا ہے مریض کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ہے کہ وہ جھمبر یا پھر مظفرآباد پہنچ سکے نتیجتا اس کے پاس مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا ہے۔

نیلم ویلی کے سرکاری ہسپتال بھی عطائی ڈاکٹروں کے نرغے میں ہیں جن کو تیس سال قبل چند ماہ کی ٹریننگ دے کر ڈاکٹر بنا دیا گیا تھا اور اب تک پریکٹس کر رہے ہیں میڈیکل سائنس کی اتنی ترقی کے باوجود بھی ابھی تک وہی پرانے طریقہ علاج کے تحت مریضوں کو ٹھیک کر رہے ہیں۔

اس وقت تک نیلم ویلی کی سیٹس سےایک سو سے زائد طالب علم ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر کے باقائدہ ڈاکٹر بن چکے ہیں ان میں سے چند ایک اسپیشلائزیشن کے بعد سرجن بھی بن چکے ہیں لیکن نیلم ویلی سے فائدہ اٹھانے کے بعد واپس وہاں پر جان کر خدمت کرنا شاید ان لوگوں کے شایان شان نہیں ہے۔ مختلف مواقعوں پر سول سوسائٹی اس حوالے سے آواز اٹھاتی رہی ہے جس میں نیلم ویلی سے منتخب شدہ نوجوانوں کو نیلم ویلی میں لگانے کا مطالبہ بھی شامل رہا ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا نتیجتا نیلم ویلی میں اس وقت تک کوئی بھی ڈاکٹر تعینات نہیں ہو سکا۔

جب سے نیلم ویلی میں نوجوان طبقے نے سر اٹھایا ہے یہ ایک مثبت تبدیلی دیکھنے میں ملی ہے کہ اب لوگ سڑکوں پر اپنے حقوق کے لیے نکل رہے ہین اس کی ایک بڑی وجہ بے روزگاری بھی ہو سکتی ہے لیکن اپنے حقوق کو پہچانتے ہوئے حکومت وقت کے خلاف سڑکوں پر نکلنا یقینا ایک بڑا قدم ہے جسے نہ سراہنا زیادتی ہو گی۔ لیکن اس کو سیاست کی نظر کرنا اور سیاست کی گند سے جائز مطالبات کو ناپاک کر کے ذاتی مفادات حاصل کرنے والے چہروں کو بے نقاب کرنا بھی لازمی ہے۔

اب یہ نوجوانوں کو سوچنا ہے کہ وہ صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے دیگر مسائل کے جائز مطالبات بے حس لوگوں سے بچتے ہوئے کیسے منواتے ہیں۔ ہمیں ایک متبادل اور منظم تحریک کی ضرورت ہے جو اس گھٹن زدہ حالات میں نوجوانوں کو متحد کر کے علاقائی اور قومی نوعیت کے مسائل کے لیے تیار کر سکے۔ شاید یہی وہ پود ہو جو ریاست کی تاریخ کو تبدیل کرنے میں اور اس کو انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے