پاکستان کے خلاف نئی مغربی سازش

نائن الیون کے بعد جب امریکہ کی قیادت میں نیٹو کی افواج طالبان حکومت کے خلاف کارروائی کا آغاز کررہی تھیں تو نہ صرف پاکستان نے دبائو میں آکر پوری طرح ساتھ دیا بلکہ ایران ، روس اور چین بھی تعاون کررہے تھے ۔ اس تعاون کی وجہ سے طالبان حکومت امریکی منصوبے سے ختم ہوئی ۔ افغانستان استحکام کی طرف جانے لگا ۔ لویہ جرگہ منعقد ہوا ۔ آئین پر اتفاق ہوا۔ انتخابات منعقد ہوئے اور طالبان منتشر ہوگئے ۔ بدقسمتی سے کامیابی کے زعم میں مبتلا ہوکر امریکی سی آئی اے نے افغانستان پاکستان، چین ، ایران اور روس کے خلاف اپنے تزویراتی خواب دیکھنے شروع کئے(حالانکہ امریکہ کی سیاسی قیادت اس حق میں نہیں تھی ۔ تفصیل امپیریل ہیوبرس (Imperial Hubris) نامی کتاب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔پھر افغانستان کو سنبھالے بغیر امریکہ عراق پر حملہ آور ہوگیا ۔ جس کی وجہ سے ایران اپنے آپ کو درمیان میں سینڈوچ پاکر القاعدہ اور طالبان سے درپردہ روابط استوار کرنے لگا۔ دوسری طرف پاکستان کے خدشات کے برعکس ہندوستان کو افغانستان میں غیرضروری طور پر دخیل کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سی آئی اے نے پاکستان کوسبق سکھانے کے لئے ڈیورنڈ لائن تنازع کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لئے سازشوں کا آغا ز کردیا۔ چنانچہ ردعمل میں پاکستان نے بھی طالبان کے معاملے میں پالیسی بدل دی ۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کرتا رہا اور جواب میں پاکستان نے بھی ڈبل گیم کیالیکن چونکہ پاکستان کے ڈبل گیم کا نقصان امریکیوں سے زیادہ افغانوں کو پہنچ رہا تھا ، اس لئے افغانستان نے بھی انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کا آغاز کردیا اور افغان سرزمین پوری قوت کے ساتھ پاکستان کے خلاف استعمال ہونے لگی ۔

ڈیل گیم کے جواب میں ڈبل گیم اور اس کے جواب میں ایک اور ڈبل گیم کی وجہ سے افغانستان، فاٹا اور خیبر پختونخوا کے لوگ بالخصوص اور پورے پاکستان کے بالعموم تباہ ہوتے رہے ۔شروع میں امریکہ اور افغانستان کا پلڑا بھاری رہا لیکن دھیرے دھیرے روس اور چین بھی امریکہ اور بھارت کی پالیسیوں سے تنگ آکر پاکستان کے ہمنوا بننے لگے جس کی وجہ سے امریکہ اور انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہونے لگی ۔ اسی تناظر میں پاکستان امریکی صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کے ڈومور کے جواب میں نومور کہنے کے قابل ہوا ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی میں پاکستانی فوج فاٹا کو خیبر پختونخوا میں مدغم کرنے کی مخالف تھی کیونکہ پولیٹکل ایجنٹوں اور کے ساتھ ساتھ وہاں پر تعینات سیکورٹی اہلکاروں کے مفادات بھی اس سے وابستہ تھے کہ فاٹا شہرناپرسان بنے رہے لیکن چونکہ فوجی اداروں کو یہ بھی احساس ہوگیا کہ بوقت ضرورت امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی ڈیورنڈ لائن کے ایشو کو پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ، اس لئے اس نے بارڈرمینجمنٹ کے لئے کوششوں کا آغاز کردیا۔ دوسری طرف جب سرتاج عزیز کی قیادت میں قائم کمیٹی نے فاٹا کے خیبر پختونخوا کے ساتھ ادغام کے آپشن کو قبائلی عوام کی خواہشات سے ہم آہنگ قرار دےکر اسے ہی قابل عمل قراردیا تو بارڈرمینجمنٹ اور پاکستان کی سلامتی کے تناظر میں فوجی قیادت نے بھی اس آپشن کے حق میں اپنی سابقہ سوچ کو بدل دیا۔ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بحث ہوئی اور سوائے دو بندوں کے باقی سب نے حق میں رائے دی ۔ سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ میں فاٹا کے انیس پارلیمنٹیرین کی دستخط شدہ وہ قرارداد شامل ہے جس میں انہوں نے پہلے آپشن کے طور پر فاٹا اور خیبر پختونخوا کے انضمام کا مطالبہ کیا ہے ۔

چنانچہ سی آئی اے ، را اور بعض دیگر مغربی ممالک کی ایجنسیوں کو خدشہ پیدا ہوا کہ اگر فاٹا اور خیبر پختونخوا مدغم ہوگئے تو ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر پاکستان کو بلیک میل کرنے کی اس کی صلاحیت ختم ہوجائے گی ۔ اگرچہ امریکہ اور برطانیہ کی وزارت خارجہ بظاہر انضمام کی مخالفت نہیں کررہی ہیں لیکن باخبر لوگ جانتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے سی آئی اے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ یا پھر برطانوی وزارت خارجہ اور ایم آئی سکس وغیرہ کی سوچ ایک نہیں ۔ جس طرح ہمارے ملک میں بعض اوقات سیاسی قیادت کچھ اور جبکہ انٹیلی جنس ادارے کچھ اورکررہے ہوتے ہیں ، یہی کچھ اس وقت امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں بھی ہورہا ہے ۔ چنانچہ اسی تناظر میں سی آئی اے اور را نے کچھ دیگر مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو آگے کیا اور یہ ٹاسک دیا کہ وہ فاٹا اور خیبر پختونخوا کے انضمام کا راستہ روکیں تاکہ ایک طرف افغانستان کے تناظر میں پاکستان کو اپنا موقف بدلنے کے لئے بلیک میل کیا جاسکے اور دوسری طرف فاٹا کا خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام نہ ہو ۔ اس گھنائونی سازش کو پرکشش بنانے کے لئے فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا دل خوش کن نعرہ تراش لیا گیا جو بظاہر تو قبائلی عوام کے فائدے میں نظر آتا ہے لیکن درحقیقت وہ ایک قبائلی ایجنسی کو دوسرے سے اور اسی طرح فاٹا اور خیبر پختونخوا کے عوام کو لڑانے کی گہری سازش ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی جو حکومت اٹھارویں آئینی ترمیم منظور کررہی تھی ، اس کا مولانا فضل الرحمان بھی حصہ تھے اور حمیداللہ جان آفریدی بھی وزیر تھے ۔

ان دونوں میں سے کسی نے بھی اس وقت فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کی تجویز نہیں دی ۔ اسی طرح جب سرتاج عزیز کمیٹی تشکیل پارہی تھی اور پھر وہ ایک سال تک اپنا کام کررہی تھی ، تو اس پورے عرصے میںبھی اس حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود نہ تو مولانا فضل الرحمان اور نہ ہی محمود خان اچکزئی نے کمیٹی بنانے کی بجائے ریفرنڈم کرانے یا پھر الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کا وقت آیا تو ان سب کو اچانک الگ صوبے کا خیال آگیا ۔ ایک طرف فاٹا کے انیس پارلیمنٹرینز کے دستخط ہیں ، دوسری طرف ملک کی تمام بڑی جماعتیں یعنی مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی ، اے این پی ، جماعت اسلامی ، جے یو آئی (س) انضمام کے حق میں ہیں ۔ فاٹا سیاسی اتحاد کے نام سے پہلے سے تمام سیاسی جماعتوں کا اتحاد انضمام کے حق میں تحریک چلارہا ہے ۔ فاٹا کی تمام طلبہ اور نوجوانوں کی تنظیمیں فاٹا یوتھ جرگہ کے نام سے انضمام کے لئے ایسے اکٹھی ہوگئی ہیں کہ اس فورم پر انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم لیگ یوتھ ونگ یا پھر اسلامی جمعیت طلبہ اور پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی قیادت ایک ساتھ بیٹھی ہے ۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمان صاحب این جی اوز کے تین نمائندوں کے ساتھ الگ صوبے کا نعرہ بلند کرنے لگے ہیں ۔لیکن کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہاں مولانا کی قیادت میں فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے لئے تحریک شروع ہوئی اور وہاں افغانستان کی پارلیمنٹ میں پاکستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کے خلاف بحث کا آغاز ہوگیا ۔ کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ جس روز(گیارہ نومبر) نشترہال پشاور میں فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے لئے این جی اوز کا کنونشن ہورہا تھا ، اسی روز سرحد کی دوسری جانب پکتیا وغیرہ میں بارڈر مینجمنٹ کے خلاف را اور سی آئی اے کے اسپانسرڈ مظاہرے ہورہے تھے۔ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کی تحریک چلانے والے اپنی تقریروں میں خیبر پختونخوا کے خلاف تقاریر کرکے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ خیبر پختونخوا فاٹا کے ساتھ زیادتی کررہا ہے یا وہ مستقبل میں کرے گا ۔

تادم تحریر فاٹا کے عوام خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں، اسپتال یا انفراسٹرکچر کو اسی طرح استعمال کررہے ہیں جس طرح کہ یہاں کے مقامی لوگ کررہے ہیں اور حقیقتاً وہ یہاں کے وسائل کے اسی طرح دعویدار ہیں جس طرح کہ مقامی باشندے ہیں۔ خود فاٹا کے الگ صوبے کے دعویدار بھی اپنے کنونشنز خیبر پختونخوا حکومت کی ملکیت نشترہال میں منعقد کرتے ہیں ۔ تاہم فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کے دعویداروں کا یہ لب و لہجہ اسی طرح برقرار رہا توردعمل میں خیبر پختونخوا میں مقیم قبائلیوں کے خلاف مقامی لوگوں کا غصہ جنم لے سکتا ہے جو ایک بڑے فساد کا پیشہ خیمہ ہوگا۔ اسی طرح فاٹا الگ صوبہ بن سکتا ہے اور نہ کبھی بنے گا لیکن یہ خطرہ موجود ہے کہ دارالحکومت سے لے کر دیگر دفاتر تک ہر معاملے پر باجوڑ یا وزیرستان ، کرم اور مہمند ایجنسی کا جھگڑا ہوگا۔ قبائلی عوام اور خیبر پختونخوا کے عوام کو ابھی دہشت گردی کے عذاب سے پوری طرح نجات نہیں ملی کہ انہیں ایک داخلی اور بدترین خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی سازش ہورہی ہے ۔ الگ صوبے کی تحریک چلانے والوں سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات کے لئے قبائلی عوام کے جذبات سے کھیل کر اس خطرناک کھیل کا مزید حصہ نہ بنیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کی سلامتی اور قبائلی عوام کے خلاف ہونے والی اس سازش کی تمام تفصیلات دلائل کے ساتھ سامنے آجائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے