اسلام آباد کی ناکہ بندی اوراحتجاجی مسلمان

انسان نے اپنی تباہی کا خود ساماں پیدا کرتے ہوئے اشرف المخلوقات کے درمیان کچھ لکیریں کھینچ دیں جن میں سے ایک لکیر مذہب کی، دوسری ملت کی، تیسری قوم کی، چوتھی زبان کی جبکہ پانچویں رنگ و نسل کیہے۔ ہاں تہذیب و تمدن اور ثقافت کی بنیاد پر یہ لکیر قائم ہوتی تو قابل قبول تھی۔انہی لکیروں کی بنا پر زمین جو کہ جنت کا نمونہ تھی جہنم کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ہر مذہب کے اندر اتنی گنجائش موجود ہوتی ہے کہ وہ غیر مذہب کو اپنے اندر جگہ دے اور اسے اپنے طور اطوار سے متاثر کر کے اپنا جیسا بنا دے ۔ مگر ان مذاہب کے ٹھیکیداروں کا کیا جائے جو پیٹ پوجا کی خاطر مذہب کے نام پر انسانیت میں تفرقہ ڈالے ہوئے ہیں ۔

میں جس شہر کا آج کل باسی ہوں وہ”شہر یزداں” ہے جو کہ ایک سچے مذہب اسلام کے نام پر قائم ہوا اور” اسلام آباد” ٹھہرا۔ مگر اس اسلام آباد کو آج کل اسلام کے چند اہم ٹھیکیداروں نے چاروں طرف سے بندکر رکھا ہے۔ اس کے گرد ایک خاص گروہ کا حصار ہے جو دن بھر سڑک کی چاروں طرف پھیلا رہتا ہے اور ہٹنے کا نام تک نہیں لیتا۔ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے مسلمانان پاکستان کے جذبات کو ابھارنے والا یہ قبیلہ یہاں آرام و سکون سے سیاست کر رہا ہے جبکہ حکومت وقت خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے ۔ سکول وکالج اور یونیورسٹیوں کا رخ کرنے والے تشنگانِ علم مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ قوم کے معمار راستے کھلنے کے منتظر ہیں۔ مائیں اپنے جگرگوشوں کو سڑک پر نبضیں ہارتا دیکھ رہی ہیں۔ سرکاری افسران گھر کے اندر مقید بیویوں کی صورت دیکھ دیکھ کر اکتا چکے ہیں اور پولیس والے کنٹینرز کھڑے کیے کسی نہ آنے والے”آرڈر ” کے انتظار میں تھک ہار کر موسیقی انجوائے کر رہے ہیں ۔

سارے کا سارا میڈیا نواز شریف کی کرپشن اور عمران خان کی کامیابیوں کو سمیٹ سمیٹ کر پاکستانی عوام کی جھولی میں ڈال رہی ہے ۔ گاڑیاں قطار اندر قطار نو دنوں سے کسی غیبینصرت کا انتظار کر رہی ہیں ۔اسلام آباد کے باسی ہی اس تکلیف سے واقف ہیں اور وہ لوگ جو راولپنڈی اسلام آباد کے راستے پاکستان کے دیگر شہروں کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں وہ اس حقیقت حال سے واقف ہیں ۔ باقی وہ لوگ جو آج کل اسلام آباد اور پنڈی سے دور ہیں انہیں اس کی کیا خبر کہ” اسلام آباد” ، "جہنم آباد” کا منظر پیش کر رہا ہے ۔ تحقیق کی تو یہ بات سامنے آئی کہ حکومت وقت نے ایک آئینی ترامیم کی جس میں ختم نبوت کی شق کو ختم کر کے ملک میں قادیانیت کو ’فروغ‘ دیا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی کہ جلد ہی آئین میں ترمیم کر کے ختم نبوت کی شق کو دوبارہ بحال کر دیا گیا۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ممبران کی اکثریت مسلم ہے(چند اقلیتیں بھی اسمبلی میں موجود ہیں ) اور سینٹ میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ کوئی بھی قانون جب پاس ہوتاہے تو اس قانون کا مسودہ تمام ممبران اسمبلی کو دیا جاتا ہے جس کو پڑھنے کے بعد ہی وہ قانون کے حق یا مخالفت میں ووٹ دیتے ہیں۔

کیا تمام کے تمام ممبران اسمبلی کو آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں ملا؟ کیا انہوں نے اس کو نہیں پڑھا ؟ کیا ممبران اسمبلی ان پڑھ اور جاہل ہیں؟ اگر ایسا کچھ نہیں تو پھر جب بل پیش کیا گیا اس وقت منہ کیوں بند رکھے؟ پاس کیسے ہوا؟ چلو جی اسمبلی سے پاس ہو گیا تو سینیٹ میں سنییٹرز کیا دھنیا پی کر سوئے ہوئے تھے؟ انہوں نے بھی اس ترمیمی مسودے کو نہ دیکھا؟ سینیٹ میں تو مولانا غفور حیدری صاحب ڈپٹی چیئرمین ہیں کیا وہ بھی سوئے رہے؟ آخر کو صدر پاکستان نے بھی اس قانون کو پاس کر دیا تو کیا سب کے سب مسلمان غفلے کا شکار نہیں ہوئے؟

جب بل پاس ہو جاتا ہے تو اس کے بعد سب سے بڑے مومن شیخ رشید کو اچانک یاد آتا ہے کہ یہ تو توہین رسالت ہو گئی۔ پھر اس کے بعد گدی نشین حضرت پیر شاہ محمود قریشی صاحب کے اندر کا مومن بھی جاگتا ہے اور خورشید شاہ صاحب بھی اپنے مسلمان ہو نے کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ حکومت اور اراکینِ حکومت کو بے نقط سناتے ہیں اور خوب سیاست کرتے ہیں۔ انہی کی شہہ پر مولویوں کی بھی غیرت بھی جاگتی ہے اور وہ سڑک پر آ کر عوام کا برا حال کر دیتے ہیں۔

ختم نبوت کا کون منکر ہے؟ کلمہ طیبہ کا پہلا حصہ توحید تو دوسرا حصہ ختم نبوت کو واضح کرتا ہے ۔ تحفط ناموس رسالت پہ قربان ہونے کیلیے امت مسلمہ کا بچہ بچہ ہر لحظہ تیار بیٹھا ہے مگر جو کچھ پاکستان کے اندر ہو رہا ہے اس کیلیے کوئی بھی تیار نہیں ہے ۔ مولوی حضرات جو کچھ کر رہے ہیں ، وہ محل نظر ہے ۔ پوچھنا چاہیے کہ عوام کو خوار کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ سنت ہے میرے نبی ﷺ کی؟ کیا یہ عشق ہے میرے نبی ﷺ کی ذات سے؟ کیا یہ اسلام ہے؟ کیا یہ دوسروں کیلیے رحمت ہے یا پھر زحمت؟ کیا اس عمل سے اسلام سے محبت ہوتی جا رہی یا پھر لوگوں کی ایسے اسلام سے دوری؟راستوں کو بند کرنا، دوسروں کو تکلیف دینا، رستے روکنا، یہ کہاں کا اسلام ہے ؟ یہ کہاں کی سنت ہے؟ یہ کو ن سے عاشق رسول ﷺ ہیں؟ یہ کیسے مسلمان ہیں؟؟اور یہ کیسا اسلام ہے ؟

حکومت وقت کو فی الفور ان احتجاجی مولویوں سے مذاکرات کر کے عوام کو یرغمالی سے چھڑایا جائے یا پھر مولوی صاحبان ان کو پکڑیں جو اسمبلی اور سینٹ کے اندر اپنے فرائض انجام دینے سے غافل رہے اور سیاست کی خاطر چپ سادھ لی اور اب خوب سیاست کو چمکا رہے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے