اقوام کی کھیتی۔روداد…(2)

اساتذہ کے طفیل ‘ مجھے یقین ہے کہ اچھے اساتذہ کی ریاضت اور شفقت کے طفیل ہی اقوام کی کھیتی ہری ہوتی اور ہری رہ سکتی ہے۔
سوال: تو اس کے بعد؟
ہارون الرشید:لاہور میں 20 سال پورے ہوئے تو یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ اب میں اخبار میں نوکری نہیں کروں گا۔ شامی صاحب میرے ہاں تشریف لائے، اصرار کیا‘ مگر معذرت کرلی۔ عرض کیا میں مضمون لکھ دیا کروں گا، نوکری اب نہیں۔ مجھے ہمیشہ یہ اعتراض رہا کہ اخبارات میںحالاتِ کار( Working Conditions)اچھے نہیں۔ شدید گرمی ہو یا سردی، کسی کو کوئی پروا نہ ہوتی۔
سوال: انہی دنوں آپ نے جنرل اختر عبدالرحمن پر کتاب لکھی، اس کی کچھ تفصیل ؟
ہارون الرشید: میں نے ہفت روزہ زندگی میں جو آخری مضامین لکھے، ان میں سے ایک جنرل اختر عبدالرحمن پر تھا۔ معلومات جمع کیں تو حیران ہوا کیسی دلچسپ کہانی ہے۔ عام طور پر میں اسی وقت لکھ دیتا ہوں لیکن اس پر کچھ زیادہ محنت کی۔ ایک یتیم بچے کی حیران کن داستان‘ جس کا پس منظر عجیب وغریب تھا۔ جس کی اپنی شخصی خصوصیات بے حد منفرد تھیں۔
سوال: گویا کتاب کا خیال اس مضمون کے بعد ذہن میں آیا؟
ہارون الرشید: مضمون چھپا تو سوچا کہ اس موضوع پر کتاب لکھنی چاہیے۔جنرل اختر کے خاندان سے رابطہ کیا‘ دیکھا کہ تاخیر ہورہی ہے۔ ایسا کیوں تھا؟ بعد میں پتا چلا۔ جنرل صاحب کے خاندان سے کہا گیا تھا کہ اس شخص کا کوئی بھروسہ نہیں، ممکن ہے بہت اچھی کتاب لکھ دے، ممکن ہے بیچ ہی میں چھوڑکر چلا جائے۔ انہوں نے کہا : رائلٹی آدھی آدھی کہ اس پر کچھ اخراجات ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ اشاعت کے بعد رائلٹی میں سے اپنا حصہ لینے سے انکار کردیا۔ کہا: آپ نے ایسی کتاب لکھ دی ہے کہ ہم آپ کے ممنون ہیں۔ممنونیت کیا‘ یہ ان کی عالی ظرفی تھی۔ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کے اخراجات تو ہوئے تھے۔
کام شروع کیا، رکاوٹیں آتی رہیں۔ مثلاً: قاضی حسین احمد نے کہا کہ جنرل اختر عبدالرحمن قادیانی تھے اور سپرسیڈ بھی ہوئے۔ تقریباً دو ماہ تک مخمصے کا شکار رہا۔ اس سلسلے میں معلومات حاصل کرتا رہا۔ پتا چلا یہ بات درست نہیں۔ ان کی بیگم صدقے کے بکرے جامعہ اشرفیہ بھجوایا کرتیں۔ لیاقت بلوچ صاحب نے کہا کہ قاضی صاحب کبھی ایسی بات کرجاتے ہیں۔ قاضی صاحب اس قدر ناراض تھے کہ لیاقت بلوچ کو کتاب کی افتتاحی تقریب میں شرکت سے بھی روک دیا۔
مکمل طور پر یکسو ہوگیا تو پھر سے کام شروع کیا۔ ان دنوں صحت اچھی نہ تھی۔ میری عادت مگر یہ نہیں کہ میں کسی کام کو روا روی میں انجام دوں۔ اس میں ایک باب ایسا پیچیدہ تھا جو لکھا نہ جارہا تھا۔ 1948ء، 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں سپاہی کے کردار کو ایک ہی باب میں پرونے کی کوشش۔ راولپنڈی گیا، ہفتہ بھر ایک ہوٹل میں ٹھہرا رہا‘ مگر ایک لفظ بھی لکھ نہ پایا۔ پھر جس دن یکسوئی نصیب ہوئی، ایک ہی رات میں یہ طویل باب لکھ ڈالا۔
شاید کچھ مزید عرق ریزی کرتا، لیکن غازی خاں کا اصرار تھا کہ جلدی کرو دوسری برسی آپہنچی ہے۔ یاد ہے آخری دن سویا ہی نہیں۔ صبح لکھنا شروع کیا، رات ہوگئی، شب بیت گئی۔ اگلا دن دوپہر کا وقت ہوگیا تو اس کا آخری پیراگراف لکھ رہا تھا۔ اگلے دن عید تھی، میں اتنا تھک چکا تھا کہ فیصل آباد میں مغرب کے وقت اپنی والدہ کے ساتھ بات کرتے کرتے سوگیا۔ سوکر اٹھا تو سورج نکلنے میں بمشکل اتنا وقت تھا کہ فجر پڑھی جاسکے۔ نماز کے باب میں بی بی جی مرحومہ بہت سختی سے بازپرس کیا کرتیں۔
”فاتح‘‘ جنگ پبلشر نے شائع کی اور اللہ کے فضل سے مقبولیت کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ 20، 25 ہزار چند ماہ میں نکل گئی۔اہل حسد نالاں تھے‘ کچھ نے گالیاں بکیں‘ کچھ نے لکھ بھی ڈالیں۔ رائلٹی کے چار پانچ لاکھ روپے چند ماہ میں مل گئے۔ میری آخری تنخواہ سات ہزار ماہانہ تھی۔ مکان کا کرایہ 14 سو روپے ماہوار۔ اسی روپے سے اسلام آباد میں پلاٹ خریدا‘ بعد میں جس پر گھر بنایا۔ یہ بریک تھرو تھا۔ اچھی ملازمتوں کی پیشکشیں ہونے لگیں۔ ضیاء شاہد صاحب جنگ چھوڑ گئے تھے ‘ میر شکیل الرحمن نے مجھے میگزین ایڈیٹر کی آفر کی مگر معذرت کرلی۔ کچھ عرصہ بعد روزنامہ پاکستان والے زبردستی لے گئے، وہی اپنے شاہ جی‘ عباس اطہر صاحب۔
سوال: اسی اثناء میں جنرل اختر عبدالرحمن پر عرفان صدیقی نے بھی کتاب لکھی، اس کا کیا قصہ ہے؟
ہارون الرشید: عرفان صدیقی نے ان دنوں مدرّسی چھوڑدی تھی۔ ہفت روزہ زندگی اور تکبیر کے لیے لکھا کرتے۔ شامی صاحب نے عرفان صدیقی سے کتاب لکھنے کو کہا۔ وہ زود نویس ہیں، انہوں نے پوری کتاب چند ہفتوں میں لکھ ڈالی۔ صبر کیا۔ ایک لفظ تک نہ کہا۔ دراصل شامی صاحب نے میرے بارے میں اختر خاندان سے کہا تھا کہ اس کا کیا بھروسہ، لکھے تو بہت اچھی لکھ دے، نہ لکھے تو کون اسے روک سکتا ہے۔
غلطی میری بھی تھی۔ میں نے شامی صاحب سے کہا تھا: بڑا ہی دلچسپ موضوع ہے، اس پر ایک فیچر آپ قومی ڈائجسٹ میں چھاپ دیں۔ اسی کوعرفان صاحب نے کتاب میں ڈھال دیا۔
سوال: کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ آپ کو یہ کتاب نہیں لکھنی چاہیے تھی۔ کچھ کا خیال ہے کہ آپ نے مجبوری کے تحت لکھی، کیا آپ کو بعد میں کبھی احساس ہوا کہ نہ لکھتے تو بہتر تھا؟
ہارون الرشید: بالکل نہیں، کسی کے کہنے پر نہیں، اپنی مرضی سے لکھی۔ کوئی خبر یا کسی سماجی مسئلے پر فیچر کی بات دوسری ہے، عمر بھر کسی کے ایما پر کبھی کوئی اہم تحریر نہیں لکھی۔ بنیادی بات یہ کہ نیا تجربہ تھا۔ ان دنوں یہ بات میرے ذہن پہ سوار تھی کہ ”Roots‘‘کے مصنف ایلکس ہیلے کی طرح‘ کتاب پر کیوں بسر نہیں کی جا سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کتاب میں کچھ چیزیں دوسرے پیرائے میں لکھنی چاہیے تھیں۔ لیکن آج بھی اسے پوری طرح own کرتا ہوں۔ ان دنوں rewrite کرنے کا ارادہ ہے۔ اس کے بنیادی تصور کا میں آج بھی قائل ہوں۔ میں آج بھی افغان جہاد کی ڈٹ کر حمایت کرتا ہوں۔ میں آج بھی اختر عبدالرحمن کو پاکستان کے عظیم ترین جنرلوں میں شمار کرتا ہوں۔ میں انہیں ایک عظیم محب وطن سمجھتا ہوں۔ ان کے لیے ”حکمت کار‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی جو اردو صحافت میں رائج ہوگئی۔ میں اختر عبدالرحمن کو ایک نہایت دیانت دار آدمی سمجھتا ہوں۔ ان کا صرف ایک مکان تھا‘ کپڑوں کے چند جوڑے تھے۔ انہوں نے ایک سادہ اور شریفانہ زندگی بسر کی۔ میں نے کبھی اس پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔کیوں کروں؟ افغان جہاد میں اسٹریٹجی کی کون کونسی غلطیاں ہوئیں، اس کے ثمرات ہم کیوں نہ سمیٹ سکے، یہ الگ موضوع ہے۔
سوال: آپ نے صحافت کو ہی کیوں منتخب کیا؟
ہارون الرشید: ایک آدمی جو ایف اے کا امتحان پاس کرے، ابھی نتیجہ بھی نہ آیا ہو، گھروالے مصر ہوں کہ ایم بی بی ایس کرلو، اب اسے دوائیوں کی بُو ہی گوارا نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آدمی نے اس پیشے میں جانا ہوتا ہے جو اس کا مقدر ہو۔ سرکارﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ جو کام بندے سے لینا چاہے وہ اس کے لیے سہل کردیتا ہے۔ میرے پاس دو options تھے: ایم اے کی ڈگری لے کر اردو پڑھاتایا صحافت کرتا۔ گو سیاست سے زیادہ شغف نہ تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ اب بھی نہیں۔اللہ نے مجھے اس راستے پر ڈال دیا جو میرا راستہ تھا۔ سول سروس میں جاتا تو شاید سال چھ ماہ ہی گزار پاتا۔ میرے بھائی طارق چوہدری بارہ سال سینیٹر رہے، کئی بار پیشکش ہوئی، مگر وزارت قبول نہ کی ۔
سوال: آپ نے فرمایا کہ آپ کی اُردو اچھی تھی، کیسے اچھی تھی؟
ہارون الرشید: اپنے مشفقوں اور مہربان اساتذہ کے طفیل۔ میں نے پہلے عرض کیا بندے سے اللہ جو کام لینا چاہے۔ میرے پرائمری کے ایک استاذ ماسٹر رمضان تھے۔ سبھی اساتذہ کے لیے دُعا کرتا ہوں‘ ان کے لیے زیادہ۔ انہوں نے ہمیں اتنی اچھی املا لکھنا اور نثر پڑھنا سکھائی کہ مجھے آج تک اس پر تعجب ہے۔ میں تیسری میں تھا کہ ہر قسم کی نثر پڑھ لیتا ۔ سمجھ تو نہیں آتی تھی، لیکن عبارت پڑھنے میں کبھی دِقّت نہ ہوتی۔پھر تعمیر ملت ہائی اسکول رحیم یار خان ایسا شاندار بے مثال ادارہ۔ عمارت اور انگریزی کے سوا ایچی سن کالج سے بھی بہتر۔ بولنا اور لکھنا سکھایا جاتا۔ بہت اچھے اساتذہ تھے، ہمارے ایک استاذ انیس اعظمی صاحب تھے۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر خورشید رضوی نے بہت بعد میں مجھ سے کہا کہ جس نے انیس صاحب سے اُردو پڑھ لی، اسے کسی اور سے پڑھنے کی ضرورت نہ رہی۔ اعظمی صاحب ہمیں دسویں میں میرؔ‘غالبؔ اور اقبالؔ پڑھاتے ۔ایسے عظیم اخلاق‘ایسے خوش خط‘ ایسی خوبصورت آواز‘ ایسی نجابت‘ ایسا آدمی پھر نہ دیکھا۔ ان کی تصویر آج بھی نگاہوں میں گھومتی ہے۔ فرصت ہوتی تو لہک لہک کر شعر پڑھتے‘ آج بھی ان کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اللہ انہیں جیتا رکھے۔
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
جنابِ سرور صدیقی صاحب کا ذوق بھی ایسا ہی‘جو رحیم یار خان کی مٹی اوڑھے سو رہے ہیں‘ اپنے شاگردوں کی دعائوں میں ہمیشہ وہ زندہ رہیں گے۔ اللہ کی بارگاہ میں ان کے لیے دُعا کرتا رہتا ہوں۔ اسی سکول کے طالب علم جنرل عاصم باجوہ کے عم زاد‘ ڈاکٹر سعید باجوہ دنیا کے سب سے بڑے برین سرجن سمجھے جاتے ہیں۔ (جاری)
اساتذہ کے طفیل ‘ مجھے یقین ہے کہ اچھے اساتذہ کی ریاضت اور شفقت کے طفیل ہی اقوام کی کھیتی ہری ہوتی اور ہری رہ سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے