کیا کشمیر تقسیم ہو رہا ہے؟

بھارت وپاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دونوں حصوں میں کچھ چیزیں مشترک ہیں ۔ بھارتی زیر انتظام حصے میں جس طرح دہلی کی خوشامد کر کے اقتدار حاصل کیا جاتا ہے ، بالکل اسی طرح سیز فائز لائن کے اِس پار یعنی پاکستانی زیر انتظام کشمیرمیں عموماً اقتداراسی کو ملتا ہے جسے اسلام آباد سرکارکی آشیربادحاصل ہو۔آر اور پار دونوں جانب کی سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر کے نام پر سیاست کرتی ہیں ۔ جوسیاسی جماعتیں الیکشن ہار کر حزب مخالف قرار پاتی ہیں ۔ وہ بھی تنازع کشمیر کے نام پر حکومت پر چڑھائی کرتی ہیں ۔

حال ہی میں نیشنل کانفرنس کے صدرڈاکٹرفاروق عبداللہ کا ایک بیان پڑھ کر مجھے آر اور پار کی یہ’ مشترکہ سیاسی اقدار‘گنوانے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ فاروق عبداللہ نے کہا کہ کشمیر کا جو حصہ پاکستان کے قبضے میں ہے ،وہ اس کا ہے اور جموں کشمیر بھارت کا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آخر کب تک معصوم لوگ جنگوں میں مرتے رہیں گے ۔ آر اور پارتعینات فوجوں کی جھڑپوں میں کشمیری مرتے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ حقیقت (یعنی کوئی اپنے زیر قبضہ علاقہ نہیں چھوڑے گا)بدل نہیں سکتی جو مرضی کر لیا جائے ۔ تجویز یہ دی کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیریوں کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات حل کرنے چاہییں اور انہیں داخلی خودمختاری دی جانی چاہیے۔

ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس بیان پر کافی لے دے جاری ہے ۔ ریاست جموں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے والے بھارتی حلقے اور کشمیری آزادی پسند سبھی فاروق عبداللہ کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں ۔ ریاست جموں کشمیر کواٹوٹ انگ سمجھنے والوں کا شکوہ یہ ہے کہ پاکستانی زیر انتطام کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ کشمیری آزادی پسندوں کا کہنا یہ ہے کہ اس طرح کا بیان کشمیر کی تقسیم کا کُھلا مشورہ ہے ، جس سے وہ متفق نہیں ہیں۔

فاروق عبداللہ نے حالیہ عرصے میں اپنی تقریروں میں ریاستی حکومت پر سخت تنقید بھی کی لیکن ان کے اس بیان سے جڑی حساسیت کے پیش نظر، اس پر بات چیت زیادہ ہو رہی ہے ۔ابھی تک یہ بات طے نہیں ہو سکی کہ آیا فاروق عبداللہ کی جانب سے اچانک چھوڑی گئی اس پُھلجڑی کا پس منظر کیا ہے ۔ یہ محض ایک سیاسی بیان ہے یا پھر ان کے پاس اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کا کوئی قابل عمل منصوبہ بھی ہے ۔ بظاہر ان کے پاس ایسا کوئی منصوبہ نہیں ہے ، جسے کشمیری عوام کی اکثریت قابل قبول سمجھ سکے گی۔

فاروق عبداللہ کے بیان پر تو بات ہو ہی رہی ہے ،لیکن اسی ماہ کے شروع میں پاکستان کے وزیراعظم کے ایک بیان نے بھی کشمیریوں کو کسی قدر جھنجھوڑا ہے ۔ پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے لندن اسکول آف اکنامکس میں ’’فیوچر آف پاکستان ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک تقریب میں کہا کہ’’ کشمیر کی آزادی کی باتیں تو بہت سنی جاتی ہیں لیکن اس موقف کی کشمیرکے کسی حصے اوردنیا بھر میں مقیم کشمیریوں میں کوئی حمایت نہیں ہے۔ ان کے بقول ’آزاد کشمیر‘ کے تصور کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ ‘‘

اس بیان کے بعد اس شک کو کسی قدر تقویت ملی کہ پاکستان بھی غیر علانیہ طور پر اسٹیٹس کو کو قبول کر چکا ہے یا پھر قبول کرنے والا ہے ۔دوسرے لفظوں میں ہم اسے کشمیر کی تقسیم پر رضامندی کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن پاکستان کا عموی موقف بظاہر یہی ہے کہ وہ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کی حمایت کرتا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ بیان سے یہ بات بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ ان کے نزدیک کشمیریوں کی آزادی کا مطلب آزادی نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ الحاق ہے ۔اس پس منظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت اور پاکستان میں کشمیر کو لے کر بے شمار اختلاف کے باوجود یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں ملک ’کشمیر کی آزادی ‘ کے حق میں نہیں ہیں۔

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے شروع ہونے کے بعد مسئلہ کشمیر ایک اور جہت سے بھی زیر بحث آرہا ہے ۔ اوروہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق ہے ۔ گلگت بلتستان کا علاقہ جموں وکشمیر کی قریب پچاسی ہزار مربع میل رقبے پر محیط ان تین اکائیوں میں سے ایک ہے ، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازع قرار پائیں۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں گلگت بلتستان کا عبوری انتظام حکومت آزادکشمیر سے ایک معائدے کے تحت پاکستان نے لیا تھا، لیکن اسے پاکستان کا باقاعدہ حصہ قرار نہیں دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ ابھی تک خواہش کے باوجود گلگت بلتستان کو مکمل صوبے کا درجہ نہیں دیا جا سکا۔

اقتصادی راہداری کا روٹ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت تو زیر بحث ہے ۔لیکن پاکستان کے لیے بڑی مشکل یہ ہے کہ اگر وہ گلگت بلتستان کو اپنا آئینی حصہ قرار دے دیتا ہے تو یہ ایک طرح سے بھارتی زیر انتظام کشمیر کی متنازع حیثیت سے دست برداری کا اعلان ہوگا ۔اور اس سلسلے میں کشمیر کی آزادی کے لیے جد وجہد کرنے والی ریاستی جماعتوں اور عوام کی جانب سے شدید ردعمل بھی آ سکتا ہے ۔

جہاں تک وزیراعظم پاکستان کے آزادکشمیر کے تصور کو مسترد کرنے کا تعلق ہے تو اسے ان کی لاعلمی پر ہی محمول کیا جاسکتا ہے ۔ گزشتہ دنوں ایک میٹنگ کے دوران جب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر سے لاہور کے کچھ صحافیوں نے یہ سوال پوچھا کہ کیاریاست میں’ آزادکشمیر ‘کے حامی بھی موجود ہیں تو انہوں نے اثبات میں جواب دیااور کہا کہ میں ان کی موجودگی سے انکار نہیں کرتا۔

اس کے علاوہ ماضی میں کچھ سروے رپورٹس بھی جاری ہوچکی ہیں ، جن میں کشمیر کی آزادی ، سیلف گورننس اور وحدت کے حامی کشمیریوں کی بڑی تعداد رپورٹ کی گئی ۔اسی طرح کشمیر میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش رکھنے والوں کے وجود کی نفی بھی نہیں کی جاسکتی ۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ ، نیشنل عوامی پارٹی وغیرہ کے حامیوں کی آواز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔اس کے علاوہ برطانیہ ، یورپ و مغربی دنیا میں مقیم کشمیریوں کی واضح تعداد کشمیر کی آزادی کی بات کرتی ہے۔ یہ سادہ سی حقیقت سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی پرجوش داعی ریاستی پارٹی آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس بھی تقسیم کشمیر کی کبھی بھی حامی نہیں رہی ہے ۔وہ پہلے کشمیر کی مکمل آزادی اور پھر اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بات کرتی ہے ۔ وزیراعظم پاکستان کو ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بیان جاری کرنا چاہیے تھا ۔

چند دن قبل پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں برسراقتدار پارٹی پاکستان مسلم لیگ کے ایک بزرگ لیڈر اور سابق وزیر اعظم سکندر حیات نے بھی ایک ریاستی اخبار روزنامہ جموں کشمیر کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونی چاہیے ۔ منقسم کشمیر کے دونوں اطراف اس بیان کو ایک اجنبی موقف کے طور پر لیا گیا ۔ اس بیان پر کوئی بڑی بحث نہ ہونے کی وجہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں سکند ر حیات کی اہمیت وتعارف کانہ ہونا اور ان کا قدرے غیر متعلق ہو جانا ہے ۔

فاروق عبداللہ کے تقسیم کشمیر کے بیان کے بعد کچھ اور بیانات بھی سامنے آئے ہیں جو ان کی فکر میں موجود تضادات کو آشکار کرتے ہیں ۔ ایک طرف تو وہ کنٹرول لائن پر پاک بھارت جھڑپوں میں مرنے والے کشمیریوں کے لیے فکر مند ہیں جبکہ دوسری طرف وہ بھارت کے آئین کا جموں کشمیر پر غیر مشروط اطلاق چاہتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرح قرار دے دیا جائے ۔ ان کا تضاد مزید کھل کر اس وقت سامنے آتا ہے جب وہ تقسیم کے ساتھ ساتھ ریاست کی اٹانومی کی بات بھی کرتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بھارتی زیرا نتطام جموں کشمیر میں برسراقتدار پارٹی سے سخت خفا ہیں اور مختلف بیانات کے ذریعے میڈیا میں جگہ حاصل کر نے اور ایشو کے ساتھ متعلق رہنے کے لیے کوشاں ہیں ۔

اس پیچیدہ صورت حال میں کشمیر کے مستقبل کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں کشمیریوں کو تشویش میں مبتلا کر رہی ہیں ۔ پاکستان اور بھارت کو ماضی کے اقدامات(خاص طور پر مشرف واجپائی دور میں ہونے والی بیک ڈور پیش رفت )کو ملحوظ رکھتے ہوئے مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے ۔ مشرف فارمولے کے بیشتر نکات ایسے ہیں جن کی بنیاد پرمسئلے کے حقیقی فریق یعنی کشمیریوں سے بامقصد بات چیت ممکن ہے۔

منطقی بات یہی ہیکہ ریاست کے مستقبل کے بارے میں حتمی اور فیصلہ کن رائے ریاست کے باشندوں ہی کی ہونی چاہیے ۔ اس لیے اہم یہ ہے کہ ریاست کی سبھی اکائیوں میں موجود سیاسی و مزاحمتی قیادت سے رابطہ قائم کر کے انہیں مشاورت کا حصہ بنایا جائے اور خطے میں دیر پاامن کا کوئی ایسا فارمولا متعارف کرایا جائے جو بیک وقت کشمیریوں کی امنگوں کی ترجمانی بھی کرے اور ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود دیرینہ مخاصمت کے خاتمے کی بنیاد بن سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے