لاہور کی الحمراء آرٹ کونسل میں دو روزہ فیض انٹرنیشنل فیسٹیول اٹھارہ اور انیس نومبر کو منعقد ہوا ۔ میلے کے پہلے دن یعنی ہفتے کو دفتری مصروفیات کی بنا پر شرکت ممکن نہ ہوسکی ، اس لیے اس دن ہونی والی تقریبات پر تبصرہ ممکن نہیں ۔ فہرست کے مطابق اس دن فن قوالی پر گفتگو کے لیے زہرہ نگاہ، ڈاکٹر ارفع سیدہ نے جبکہ اردو زبان اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عنوان پر ڈاکٹر سرمد حسین ، ڈاکٹر آغا علی رضا، مشرف علی فاروقی ، ڈاکٹر کامران ملک نے اظہار خیال کیا۔ ایک کتاب کی تقریب رونمائی بھی ہوئی۔ آزادی کے ستر برس کے عنوان کے تحت ڈاکٹر نادرہ خان ، ڈاکٹر یعقوب بنگش اور ڈاکٹر شمیم اظہر نے بات چیت کی ۔ اسی طرح سیاست دانون پر مشتمل سیشن بھی ہوا جس میں سیاست ، ایکٹوزم اور مستقبل کے بارے میں بات ہوئی ۔ ڈان کے مضمون نگار اور مصنف ندیم فاروق پراچہ کی گفتگو کے لیے بھی ایک سیشن خاص تھا ۔ اس کے علاوہ موسیقی ، رقص اور تھیٹر کے سیشن بھی پہلے دن کی سرگرمیوں کا حصہ تھے ۔ مختلف ممتاز اداکاروں سے بات چیت کا سیشن ہوا ۔ یہ پہلے دن ہونے والی سرگرمیوں کا خلاصہ ہے۔
دوسرے دن چونکہ اتوار تھا ، رش بہت زیادہ تھا ۔ میں دوپہر الحمراء پہنچا ،پارگنگ میں جگہ مشکل سے ملی ، سامنے لگے استقبالیے سے پروگرامات کی فہرست وصول کی جس میں سیشنز کی تفصیل ، مقامات و شرکائے گفتگو کے نام درج تھے ۔پہلے سیشن میں ’ٹی وی اور پرفارمنگ آرٹ کے ستر برس‘ کے عنوان کے تحت اصغر ندیم سید نے گفتگو کی۔’افسانے کی دہلیز پر‘ کے عنوان سے ایک سیشن تھا جس کی میزبانی علی اکبر ناطق کے سپرد تھی اور مہمان ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی اور ارسلان احمد راٹھور تھے۔دوسرے سیشن میں’خواتین اور تخلیقی عمل اردو ادب کے تناظر میں‘ کے عنوان کے تحت نجیبہ عارف اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر نے گفتگو کی ، اس سیشن کی میزبان یاسمین حمید تھیں۔ تیسرے سیشن میں اداکاری ، میوزک اور امن وغیرہ پر مختلف پروگرام تھے ۔
مجھے گیلری میں ’’کیا پاکستان کی جمہوریت پدرسری(patriarchal) ہے؟ ‘‘ کے عنوان سے ہونے والے سیشن میں بیٹھنے کا موقع ملا ۔ مہمانوں میں ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ ، خاور ممتاز ، فوزیہ وقار اور آئی اے رحمان تھے جبکہ میزبانی ڈاکٹر علی چیمہ کر رہے تھے ۔ہال میں سبھی نشستیں مصروف تھیں ۔پینل کے شرکاء نے کھل کر گفتگو کی اور تقریباً اس نکتے سے اتفاق کیا کہ پاکستانی سیاسی پارٹیوں میں عورت کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ، اگر کہیں ہے بھی تو وہ محض علامتی ہے ۔ ڈاکٹر عطیہ عنایت اللہ کا کہنا تھا کہ خواتین کو لیڈر شپ کا کردار دیا جانا ضروری ہے۔ آئی اے رحمان نے تاریخی تناظر میں تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورت حال شروع سے ہی چلی آ رہی ہے ۔ اس جانب نیک نیتی سے توجہ نہیں دی گئی ۔ اس پروگرام میں میرے پہلو میں ایک شخص تشریف فرما تھے ۔ اپنے انداز سے وہ ہالی وُڈ فلموں کے ہیرو لگتے تھے ۔ سیاہ سیدھے بال جو پیچھے کی جانب ’’استری ‘‘ کیے ہوئے تھے اور انہوں نے ناک پر سیاہ چشمے لگا رکھے تھے ۔ گمان تھا کہ اس شخص کو کہیں دیکھا ہے، پھرگمان سچ ثابت ہوا اور وہ مشہور وکیل سلمان اکرم راجہ تھے ، پھر باہر ایک عدد تصویر بھی ان کے ساتھ بنائی گئی ۔ صحافی دوست حسان خالد بھی اس تصویر کا حصہ بنے ۔
اڑھائی سے پونے تین بجے کے درمیان سیاست ، اداکاری (بشریٰ انصاری) ، شاعری پر زہرہ نگاہ سے بات چیت ، مزاحمتی شاعری سے متعلق ڈاکٹر ناصر عباس نیئر اور امر سندھو کی گفتگو وغیرہ شامل تھے ۔ حالات حاضرہ و سیاست میں دلچسپی کی وجہ سے میں نے سیاسی سیشن میں شرکت کی ۔ اعتزاز احسن نے اقلیتوں کے حقوق ومسائل پر بات کی ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جمہوریت کو لاحق خطرات میں ساری ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دینا کافی نہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے افراسیاب خٹک نے مختلف سوالوں کے جوابات دیے ، ان کی گفتگو کا زیادہ حصہ پاکستانی سیاست میں غیر جمہوری قوتوں کی بے جا مداخلت پر تنقید پر مبنی تھا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے اسد عمر نے کہا کہ ہمارے ہاں اسٹیبلشمٹ کی طاقت کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے ، حقیقت میں ایسا نہیں۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اب نظریاتی سیاست ختم ہو چکی ۔ عوامی ورکرز پارٹی کے ڈاکٹر عاصم سجاد نے اس پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا ۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر تنقید کے معاملے میں ڈاکٹر عاصم اعجاز اور افرا سیاب خٹک بہت حد تک ایک پیج پر تھے ۔ دو باتیں میں نے البتہ محسوس کیں ہیں ۔ ایک تو اعتزاز احسن نے غیر ضروری رام کہانیاں سنانے میں زیادہ وقت لیا دوسرے اسد عمر کی گفتگو کے دوران تالیاں نسبتاً زیادہ پیٹی گئیں ۔ شاید ان کا حامی مجمع زیادہ تھا۔
چار بجے شام سے پانچ کے دوران موسیقی ، اداکارہ ماہرہ خان کی گفتگو (میزبان سرمد کھوسٹ اور میرا ہاشمی) ، اس سیشن میں شرکت کے لیے بے شمار لوگ بے تاب تھے ، اس کی ایک وجہ ماہرہ خان کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ورنہ‘‘ بھی ہے ۔ ہال نمبر تین میں ’’بائیں بازو کی سیاست ،کرنا کیا چاہئے ؟‘‘ کے عنوان کے تحت جواد احمد، عابد میر اور عمار علی جان کی گفتگو تھی جس کے میزبان ڈاکٹر عاصم سجاد تھے ۔ جواد احمد نے ابتداء کی اور پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے احیاء کے بارے میں اپنے پروگرام کے متعلق بتایا۔انہوں نے اپنے تیءں سوشلزم کی تعریف بھی بیان کی جس پر بعد میں کچھ سوال بھی اٹھائے گئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے کوئی بڑی امیج بنانا ہوگی تبھی ہم سیاست میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ دانشور و صحافی عابد میر کوئٹہ سے تشریف لائے تھے ۔ انہیں وقت کم مل سکا لیکن انہوں نے جو گفتگو کی اس ٰمیں بلوچستان کے المیے پر بات ہوئی ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بلوچستان کی ریاست کے ساتھ شروع میں جیسے تیسے معاملات ہوئے ، لیکن بعد میں اس کی جانب توجہ دی جانی چاہیے تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان ایک اجنبی جزیرہ بن چکا ہے ۔ انہوں نے اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں اخبارات کی ترسیل بند ہے اور گوادر سمیت کئی شہروں کے پریس کلب بند پڑے ہیں ۔ سی پیک سے متعلق تنازعات پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ’’ ہاں ! ہم نے بھی ٹی وی پر سنا ہے کہ کوئی سی پیک بن رہا ہے جس کے بارے کہا جا رہا ہے کہ اس سے پاکستان کی قسمت بدل جائے گی ، باقی علم نہیں ‘‘۔ جواں سال عمار علی جان نے بائیں بازو کی سیاست پر کافی جاندار گفتگو کی ۔ڈاکٹر عاصم سجاد تھے تو میزبان لیکن چونکہ خود بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں ،اس لیے سامعین کو ان کی طویل تمہیدیں بھی برداشت کرنا پڑیں ۔
اس سیشن کے آخر میں سوالات کے دوران میں کچھ شور شرابہ ہوا ۔ ایک نوجوان نے جواد احمد سے ان کے ایک جملے کو لے کرسوال کر ڈالاتو جواد ذرا غصے میں آ گئے ۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے اپنے علاقے میں گیس نہ ہونے کا ذکر کیا تو جواد احمد بولے ’’اپنے سرداروں سے پوچھیں جو گیس بیچتے رہے ، کیا آپ کبھی ان کے خلاف کھڑے ہوئے ؟‘‘ آخر میں جواد احمد نے اپنے نظریات کی عکاسی کرتی ایک نظم کے کچھ بول بھی سنائے ۔ اس سیشن میں کے آخری لمحات کے مناظر دیکھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں میں تضادات اور .فرقہ واریت کی جڑیں کافی گہری ہیں ۔ البتہ دلچسپ بات یہ تھی کہ ہال نمبر تین میں منعقدہ اس سیشن میں شرکاء کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ بہت سوں کو نشستیں نہ مل سکیں ، انہیں سیڑھیوں پر بیٹھا پڑا اور کئی لوگ کھڑے ہوکر گفتگو سنتے رہے ۔ اس سے سمجھاجا سکتا ہے کہ ابھی بائیں بازو کی موت واقع نہیں ہوئی ۔ ممتاز صحافی و روزنامہ ڈان کے کالم نگار آئی اے رحمان سیاست دانوں کی گفتگو والے سیشن کے بعد بائیں بازو کی سیاست سے متعلق اس پروگرام میں بھی سامعین کی صفوں میں موجود تھے ۔ صحافی کامریڈ زوار حسین بھی اس سیشن کے سامعین میں موجود تھے۔
پانچ سے چھ بجے کے دوران موسیقی ، ’آکھیے بسم اللہ ‘کے عنوان سے مشتاق صوفی ، عارف لوہار ، بہار بیگم اور ظفر اقبال کی گفتگو پر مشتمل ایک سیشن تھاجس کی میزبان صغریٰ صدف تھیں۔ ’شاعری کے ستر برس‘ کے عنوان سے امجد اسلام امجد کی گفتگو تھی جس کی میزبان معروف شاعرہ عنبرین صلاح الدین تھیں ۔ میں کچھ دیر کے لیے اس سیشن میں شریک رہا ۔عنبرین صلاح الدین نے اردو شاعری کے پس منظر سے متعلق تمہید کے بعد امجد اسلام امجد سے گفتگو شروع کی ۔ امجد اسلام امجد نے اردو زبان کی تاریخ ، مآخذاور شاعری پر جامع گفتگوشروع کی ، اس دوران مجھے کسی کام سے باہر جانا پڑا۔ خیال یہ ہے کہ وہ سیشن بھی بھرپور رہا ہوگا ۔
اس کے علاوہ باہر ادبی بیٹھک میں مختلف اوقات میں اسٹیج ڈرامے ، تھیٹرز اور موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی رہیں ۔ رات آٹھ بجے استاد شفقت علی خان نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ میں ذرا پہلے نکل آیا تھا ، اس وقت لان میں کچھ نوجوان ’’ہم بھی دیکھیں گے‘‘ انسٹرومنٹس کے ساتھ گا رہے تھے اور سینکڑوں لوگ وہاں چاروں طرف کھڑے تھے ۔ باہر کی جانب بڑا لان فوڈ کورٹ کے لیے مختص تھا ، جہاں کی رونق خوب تھی ۔درمیان میں ایک جگہ کتابوں کے کچھ اسٹالز بھی تھے ۔یہ درست ہے کہ وہاں نظر آنے والے چہروں کی خاصی تعداد مالی طور پر آسودہ گھرانوں سے متعلق محسوس ہوئی لیکن دیگر طبقات کے لوگ بھی کچھ کم نہ تھے ۔ خاص طور پر طلبہ ، صحافی ، دانشور وغیرہ۔
میں ایک وقفے کے دوران باہر کھڑا تھا تو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم رہنما سبط حسن سے ملاقات ہو گئی ۔ بے تکلفی تو ہے ہی ، میں نے پوچھا کہ سرمایہ داروں کی جانب سے سپانسرڈمیلے میں کیسے آمد ہوئی ؟ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا :’’ آپ درست کہتے ہیں لیکن اسی بہانے کسی نہ کسی سطح پر بائیں بازو کی بات تو ہو گی ناں ‘‘ ۔ ان کے بقول ہماری پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستگی کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہمارے پاس کوئی دوسرا مناسب آپشن نہیں‘‘
اس وقت فیض انٹرنیشنل فیسٹیول پر بعض حلقوں سے تنقید کی جارہی ہے ۔ اکثر ناقدین دائیں بازو کی فکر سے متعلق ہیں لہذا ان کی جانب سے تنقید غیر متوقع نہیں۔ میرا ماننا البتہ یہ ہے کہ اس طرح کی سرگرمیاں ،جن میں لوگوں کو مختلف شعبہ ہائے زندگی کے تجربہ کار افراد کی گفتگو سننے کا موقع میسر آئے ، کسی غنیمت سے کم نہیں ۔ جہاں تک معاملہ سرمایے کی سرپرستی کا ہے تو ظاہر ہے اس سطح کا منظم ایونٹ بھاری سرمائے کے بغیر ممکن نہیں ۔
کچھ لوگوں نے یہ پھبتی کسی کہ اس فیسٹیول میں شامل ہونے والوں سے گیٹ پر ہی فیض کے نام’ نذرانے‘ وصول کیے جاتے ہیں ، ان کااشارہ ٹکٹوں کی جانب تھا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسرے دن کے آخری لمحات میں ہونے والے گلوکارہ ٹینا ثانی والے پروگرام کے علاوہ سب سیشنز میں شرکت ہر خاص و عام کے لیے کھلی تھی ۔ کسی قسم کی کوئی ٹکٹ نہیں لی گئی ۔ ہاں یہ بات ضرور محسوس ہوئی کہ دو دن کے اس میلے میں کچھ شخصیات کو مکرر موقع دیا گیا ۔اگر ان کی جگہ دیگر اہل علم کو موقع دیا جاتا تو بہتر ہوتا ۔
فیض صاحب کی شخصیت کا ایک رخ ان کا صحافی ہونا بھی ہے، لیکن اس سے متعلق کوئی سیشن نہیں تھا۔فیض کی صحافتی زندگی پر روشنی ڈالنے کے لیے معروف دانشور وسینئرصحافی وجاہت مسعود اور اسلم ملک سے رجوع کیا جاسکتا تھا ۔ اس میلے میں بائیں بازو سے متعلق کچھ نمایاں شخصیات(ڈاکٹر مبشر حسن ،عبدالرؤف ملک ، عابد حسن منٹو ، ڈاکٹر لال خان وغیرہ) کی کمی بھی محسوس ہوئی۔موجود ہوتے تو اچھا لگتا ۔ بہرحال مجموعی طور پر یہ ایک اچھا ایونٹ تھا جس نے لاہور کے باذوق شہریوں کو ایک بھرپور ویک اینڈ کا لطف اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔