نظریہ کبھی مائنس نہیں ہوتا

بی بی مریم نوازنے صحیح کہا ہے کہ نوازشریف نظریہ ہے اور نظریہ مائنس نہیں ہوتا۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کی بدقسمتی ہے کہ جب کوئی سیاسی رہنما عوام میں مقبول ہوتا ہے، انہی لمحوں میں مائنس کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں اور قدرت کا کرشمہ یہ ہے کہ وہ شخصیت تو مائنس نہیں ہوتی، ترقیاتی عمل مائنس ہو جاتا ہے، ہر بار ملک میں ایک بحران کی صورت پیدا ہوجاتی ہے اور پاکستان جگ ہنسائی کا باعث بن جاتا ہے۔ ہم پہلے ہی کہاں اتنے نیک نام ہیں کہ ہردفعہ ایک نیا دھبہ ہم پر لگ جاتا ہے۔ مائنس پلس کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی ہوتی ہے مگر عوام منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور یار لوگ مائنس مائنس کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ نوازشریف کے ساتھ تو یہ عمل تیسری مرتبہ دہرایا جارہا ہے۔ اس مرتبہ تو حدہی ہوگئی، ان کے پورے خاندان کو صفحۂ سیاست سے مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے، جھوٹ اور بہتان کی ایک یلغار ہے جو ان پر جاری ہے، بھائی کو بھائی سے لڑانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ مگر یار لوگ اس خاندان کی روایات سے واقف نہیں ہیں۔ شہباز شریف اپنے تمام تر قد کاٹھ کے باوجود اپنے بڑے بھائی کے سامنے چھوٹے بھائیوں کی طرح BEHAVEکرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کا قد مزید بڑھ جاتا ہے۔

ہماری عدلیہ نے تو جو کیا سو کیا، اس سے بڑی عدالتیں روزانہ رات کو آٹھ بجے چند مخصوص ٹی وی چینلز کے اصطبل میں لگتی ہیں، جہاں کچھ گھوڑے بھی ہوتے ہیں، زیبرے بھی نظر آتے ہیں، ایک آدھ سانڈ بھی نظر آتا ہے اور پھر روزانہ نت نئے فیصلے سنائے جاتے ہیں، ان میں سے کچھ کی باتیں سنیں تو لگتا ہے یہ اپنے ’’قبیلے‘‘ کے کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں جنہیں کشف کے ذریعے آنے والے حالات کا پتہ چلتا رہتا ہے، چنانچہ 2013ء سے آج 2017ء تک کی گئی ان کی ’’کشفیات‘‘ کتابی صورت میں شائع کی جائیں تو اردو کے مزاحیہ ادب میں یہ ایک شاندار اضافہ ہوگا۔ مجال ہے ان کا کوئی ایک ’’کشف‘‘ بھی صحیح نکلا ہو۔ ان پہنچے ہوئے لوگوں کی تو کوئی بددعا بھی قبول نہیں ہوتی، ان کے تشنےاور طعنے بھی کوئی کام نہیں دکھاتے۔ گزشتہ چار برسوں میں منعقد ہونے والے تمام انتخابات میں نوازشریف مسلسل عوام کے دلوں پر راج کرتے نظر آتے ہیں۔ اب ممکن ہے انہیں عدالتیں سزا بھی سنا دیں، مگر بڑی سے بڑی سزا بھی نوازشریف کے اعصاب شل نہیں کر سکے گی، کیونکہ نوازشریف ایک دور میں صرف نوازشریف تھا، اب وہ ایک نظریہ ہے اور نظریہ اپنے سے بڑے کسی نظریئے سے تومات کھا سکتا ہے، سازشیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں بلکہ اس کا پھیلائو بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ آپ ان دنوں سوشل میڈیا پر جا کر دیکھیں، وہ لوگ جن کا مسلم لیگ (ن) سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ جو نہ عہدیدار ہیں، نہ کارکن ہیں اور نہ کبھی وہ نوازشریف سے ملے ہیں۔ مگر وہ جمہوریت کے خلاف ہونے والی سازشوں کے حوالے سے شمشیربرہنہ بنے دکھائی دیتے ہیں، یہی صورت حال ایسے بہت سے کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں کی ہے جو آج جمہوریت کی جنگ لڑتے نظر آتے ہیں۔

اور یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کے حوالے سے یہ طبل جنگ بجایا جا چکا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اندر سے مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے، چنانچہ جب مسلم لیگ کی صدارت کا بل پارلیمنٹ میں پیش ہوگا تو ووٹنگ سے پتہ چلے گا کہ مسلم لیگ کے ایم این اے جماعت کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں، سیاسی مزاحیہ اداکار شیخ رشید تو ٹی وی چینلز پر ایک کاغذ لہرا لہرا کر یہ بتا رہے تھے کہ اتنے ایم این ایز جماعت کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیں گے، مگر جب ووٹنگ ہوئی تو مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کو ان کے جن ایم این ایز کے ووٹ بوجوہ نہیں پڑے، ان ووٹوں کی شرح فیصد تقریباً ایک جتنی تھی، چنانچہ مسلم لیگ (ن) نے ایک بار پھر پارلیمنٹ کی مہر تصدیق کے ساتھ نوازشریف کو اپنا صدر قرار دے دیا۔ اپنی شکست کے ’’سانحہ‘‘ پر شیخ رشید کو کہنا پڑا ’’گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں‘‘ پتہ نہیں یہ کون سے شہسوار ہیں جو چار سال سے نوازشریف کو گرانے کی کوشش میں ہر بار خود گر جاتے ہیں بلکہ اب تو اتنے گر چکے ہیں کہ انہیں اٹھانے والے کوشش بھی کریں تو اٹھا نہیں سکیں گے۔ ان کا مقدر بیساکھیاں بن چکی ہیں۔ان کٹھ پتلیوں کو کون بتائے کہ نظریہ کبھی مائنس نہیں ہوسکتا۔
اور اب آخر میں برادر مکرم عرفان صدیقی کی تازہ غزل؎

گردش شام و سحر کے درمیاں چلتی رہی
اک کہانی داستاں در داستاں چلتی رہی
راستی کے راستوں کی خانہ ویرانی محال
کارواں ٹھہرے تو گرد کارواں چلتی رہی
سرد بازاروں کے مارے شہر بے برکت میں بھی
میرے چھوٹے سے محلے کی دکاں چلتی رہی
ایک سناٹا نوائے شوق میں ڈھلتا رہا
اک حکایت در حدیث دیگراں چلتی رہی
آگ برساتی رتوں میں بھی کنول کھلتے رہے
دشت میں بھی ایک ہوائے مہرباں چلتی رہی
فیصلے سب بارگاہ ناز میں ہوتے رہے
عدل گہر میں ایک مشق رائیگاں چلتی رہی
جانے کس کے ہاتھ میں تھا ما تھا کاروبار؟
اور تہت برسر پیر مغاں چلتی رہی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے