سر رہ گزر رَٹ لگی ہے رِٹ نہیں ہے!

عدالت عظمیٰ بار بار کہہ رہی ہے حکومت کی رِٹ کہاں ہے؟ اور حکمران کہہ رہے ہیں؎
کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا؟
سنا ہے 5کروڑ سے ڈیڑھ ارب تک ایک حلقے سے انتخاب لڑنے پر خرچ ہوتا ہے، جتنا اہم حلقہ اتنے زیادہ پیسے، اب کہئے اگر انتہائی دولت مند ہونا اور دولت خرچ کرنا ہی حکمران، وزیر، مشیر، ایم این اے ، ایم پی اے بننے کے لئے ضروری ہو اور صادق و امین ہونا کوئی معنیٰ نہ رکھتا ہو تو کیا حکومت جو آئے گی اس کی رٹ ہو گی؟ یہ تو انویسٹمنٹ ہے سرمایہ کاری ہے اور اس کا منتہائے مقصود منافع کمانا ہے، کہاں کی جمہوریت، کیسی حکمرانی اور خدمت؟ ہم 70سال سے یہی کاروبار حکومت و سیاست دیکھ رہے ہیں جب جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ کے مقاصد ایک ہوں تو جمہوریت فقط بدنام ہو گی اور ذلت و رسوائی عوام کی ہو گی، رٹ آف گورنمنٹ کس چڑیا کا نام ہے؟ اور اگر یہ چڑیا ہے بھی تو پنجرے میں بند ہے اسے دانہ پانی ملتا رہتا ہے تاکہ کہا جا سکے یہاں جمہوریت ہے مگر محبوس ہے اور عروس ہزار داماد ہے، مجبور و مقہور و محروم عوام ایک ہی گناہ کرتے ہیں کہ ووٹ ڈال دیتے ہیں شاید یہ خطا بھی حالات کا جبر ہے، حافظ شیرازی کہتے ہیں؎
گناہ گرچہ ہنوز اختیار ما حافظ
تو در طریق ادب کوش و گو گناہِ من است
(اگرچہ گناہ میرے اختیار میں نہ تھا، لیکن تم ازراہ ادب یہی کہو ہاں میرا ہی گناہ ہے)
دیکھیں جی تنقید وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی ناقابل تنقید بھی ہو، جہاں آوے کا آوا ہی خراب ہو وہاں کیسی تنقید کسی نکتہ چینی، بس سب مل کر کہو سب اچھا ہے، ایک چھوٹی سی بات کرتے ہیں کہ عید شب برأت بھی گزر گئی، عید میلاد النبی کا مبارک دن بھی رخصت ہو گیا مگر کیا آتش بازی کا شور تھما، ہوائی فائرنگ رُکی، لائوڈ اسپیکر کا غلط استعمال بند ہوا؟ تو پھر باقی خرابیوں کے بارے یہی کہہ سکتے ہیں؎
قیاس کن زگلستان من بہار مرا
(میرے چمن کی درگت دیکھ کر میری بہار کا اندازہ لگا لو)
٭٭٭٭
پولیس! گلا تو گھونٹ دیا اہل حکومت نے ترا
پولیس کبھی تازہ دم ہوا کرتی تھی جوان ہوتی تھی، مگر اب وہ ارباب حکومت کے کام کرتے کرتے بوڑھی ہو جاتی ہے، حکمران اور ان کے ہیچمدانوں کی ڈیوٹی ختم ہو گی تو وہ عوامی ڈیوٹی پر بھی ایک دن آ ہی جائے گی، مگر فکر مند ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کہ عوام کے کام سر انجام دینے کے لئے فوج موجود ہے اس لئے پولیس بکار سرکار مصروف رہنے کے لئے فارغ بھی ہے تازہ دم بھی ہے، ہم سلام پیش کرتے ہیں اپنی پاک فوج کو کہ وہ اس ملک کی بقاء کی خاطر چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے، بھارت اور پاکستان میں اب ایک باریک فرق رہ گیا ہے وہاں اذان کے احترام میں مودی صاحب از خود خاموش ہو گئے ہمارے ہاں کہنا پڑتا ہے کہ بھائی صاحب اذان ہو رہی تقریر روک دیں، روز و شب کی گردش بھی انسان کو کیا کیا منظر دکھاتی ہے، نیب کے نئے سربراہ نے بھی سنا ہے کرپشن کے خلاف دھرنا دے دیا ہے اور وہ کہتے ہیں سارا مال مسروقہ برآمد کر کے چھوڑیں گے، یہ تو جملہ معترضہ تھا اصل اعتراض تو پولیس کی حالت زار پر ہے کہ انہیں مصروف بکار خواص و اشرافیہ کس نے بنایا، سب سے بڑھ کر عدم تحفظ کا شکار عوام ہیں مگر ان کی حفاظت کے لئے پولیس دستیاب نہیں، پولیس بڑوں کے کام کر کے جب تھوڑی دیر کے لئے فارغ ہوتی ہے تو عوام کا رخ بھی کرتی ہے ان کا کام کرنے کے لئے نہیں ان سے کام لینے کے لئے، اور یہ کام کیا ہوتا ہے یہ عوام ہی کو معلوم ہے، تھانوں کو خبر ہے، البتہ سرکار بے خبر ہے اور اسے جاننے کی ضرورت بھی کیا ہے اب 2018کا چاند چڑھنے والا ہے تب کتنے چن چڑھیں گے یہ تو خود چاند ہی کو پتا ہو گا جس سے تارے کہتے ہیں؎
چڑھ وے چناں تے کر روشنائیاں
تیرا ذکر کریندے تارے ہو
پولیس خوش ہے، اسے خوش رکھا جاتا ہے مگر جب اسے دھرنا سنبھالنے کی ڈیوٹی دی جاتی ہے تو اس کی بیلٹ ڈھیلی ہو جاتی ہے، سپریم کورٹ میں اس نے اپنا نوحہ لکھ کر پیش کر دیا ہے، اصل کام یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ پولیس کو اپنی اصل ڈیوٹی پر واپس لائے وہ وہاں بھی ڈیوٹی دیتی ہے جہاں ڈیوٹی نہیں دینی چاہئے۔
٭٭٭٭
دھرنالوجی
بیالوجی، زوالوجی میں اگر نہ سہی تو دھرنالوجی میں تو ہم نوبیل انعام کے حق دار ہیں، اب اگر محکمہ تعلیم اس سبجیکٹ کو بھی نصاب میں شامل کر لے تو ہمارے پاس ماہرین کی کمی نہیں، سب سے بڑے بانی دھرنالوجسٹ کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں اور ان کے فیض یافتگان کی بھی کمی نہیں، حکومت کو بھی اس نئے دلچسپ مضمون کی عادت سی ہو گئی ہے اس لئے دھرنوں میں کچھ وقفہ پڑ جائے تو وہ کوئی ایسی حرکت ضرور کرتی ہے کہ پھر سے کوئی دھرنا اٹھے اس کی قوم کی جڑوں میں بیٹھے، واضح رہے کہ ختم نبوت کے حوالے سے دھرنے کو استثناء حاصل ہے کیونکہ وہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے لئے کوئی بھی مسلمان کچھ بھی کر سکتا ہے مگر یہ جو خالصتاً سیاسی دھرنے ہیں ان کی بھی کوئی شریعت ہونی چاہئے ورنہ یہاں تو مذہب ہی بدل کر رہ جائے گا، الغرض دھرنالوجی کو حکومت کی اعلیٰ کارکردگی نے خوب فروغ دیا ہے دھرنا دینے والوں کو یہ علم ہو گیا ہے کہ گھی ٹیڑھی انگلی ہی سے نکلے گا اس لئے اب دھرنا ٹیکنالوجی رکے گی نہیں روز افزوں بڑھتی جائے گی، اور یہ دھرنوں کا ظہور ایک طرح سے پیمانہ بھی ہے حکومتی اہلیت و صلاحیت کو ماپنے کا، پچھلے دنوں حکومت پاکستان سے سہواً یا عمداً ایسی خطا سرزد ہو گئی کہ اگر وزیراعظم، آرمی چیف کے سامنے دھرنا نہ دیتے تو پورا ملک دائو پر لگ جاتا، دھرنا کلچر، حکومتی نا اہلی کی پیداوار ہے، اور شاید دھرنوں میں اس کا بھی فائدہ ہے کیونکہ ان دھرنوں سے کئی حکومتی یا حکومت کے ہینڈلرز کو بھی فائدہ ہوتا ہے، پاکستان دنیا کی نظر میں بھی ’’دھرنستان‘‘ بنتا جا رہا ہے، دھرنوں سے حکومت کو براہ راست تو کوئی نقصان نہیں ہوتا مگر عوام اس قدر خجل خوار ہوتے ہیں کہ اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ کہیں 20کروڑ عوام ہی دھرنا دے کر اس کا مرنا یقینی نہ بنا دیں پھر وہ دھرنا ختم کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرتی ہے، اور دھرنے کی افادیت پر ایک شعر ہو گیا ہے ملاحظہ فرمائیں؎
دھرنا دھرنا لوکی آکھن میں وی آکھاں دھرنا
جیکر میرا کم نہ نبڑے اوہ دھرنے نوں کی کرنا
٭٭٭٭
کھیل تماشا
….Oبلاول زرداری:بس کر دیں، کھیل تماشا بند کردیں۔
ہمارا بھی شروع ہونے دیں!
….Oخبر ہے:حلف نامے میں تبدیلی سے شروع ہونے والا معاملہ سنگین ہونے والا ہے،
ابھی کتنی سنگینیاں باقی ہیں یکمشت بتا دیں تاکہ دل جگر کو آمادئہ تسلیم و رضا کر لیں۔
….Oاحمد اویس (ماہر قانون):ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کہیں گم ہو گئی،
کہیں گم نہیں ہوئی بلاول ہائوس میں زرداری اسے بپتسمہ دے رہے ہیں،
….Oتیل مہنگا کر دیا گیا، ایل پی جی 10روپے کلو مہنگی، البتہ بجلی سوا دو روپے یونٹ اکتوبر کے لئے سستی کر دی گئی،
مجموعی رائے یہی ہے کہ اب بازار میں بندہ مفلس کو مزید مہنگائی کا سامنا ہو گا اور وہ چاروں شانے چت ہو گا، مگر ایک ٹولہ ہے جسے مہنگائی رسوائی، جگ ہنسائی کی کوئی پروانہیں کہ وہ ہر چند کہیں کہ یہاں ہے مگر نہیں ہے۔
….Oہوس کی کوئی حد ہے؟
ہوس کی تو نہیں مگر ہوس پرست کی حد ہے،

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے