پاگل خانہ

کچھ لوگ اپنی زندگیوں کو عجیب و غریب چیزوں سے خوشگوار بناتے ہیں مثلاً ایک صاحب ہیں ان کی ساری خوشیوں کا دارومدار وہ وقت ہے جو زیادہ سے زیادہ غسل خانہ میں گزار سکیں ۔موصوف صبح چھ بجے غسل خانہ میں داخل ہوتے ہیں اور تمام اہلخانہ کے باری باری دروازہ پیٹنے پر آٹھ بجے باہر نکلتے ہیں اور ان کے ساتھ دھوئیں کے بادل بھی رہائی پاتے ہیں جو دس پندرہ سگریٹوں کی بدولت چھوٹےسے غسل خانہ میں قید ہو کر رہ گئے تھے ،میں نے ایک دن ان سے پوچھا ’’آپ اندر کرتے کیا ہیں ؟‘‘ بولے ’’ٹونٹی کے نیچے بیٹھ جاتا ہوں، پانی کی دھار سر پر پڑتی ہے تو مزا آ جاتا ہے ‘‘ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے دس منٹ یہ ہو گئے باقی ایک گھنٹہ پچاس منٹ ؟‘‘ فرمایا ’’جسم پر صابن ملتا ہوں اس کے بعد ایک دفعہ پھر ٹونٹی کے نیچے بیٹھ جاتا ہوں‘‘
’’دس منٹ اس کے لگالیں ، باقی ایک گھنٹہ چالیس منٹ ؟‘‘
’’چالیس منٹ شیو کے !‘‘اس دفعہ انہوں نے ٹائم کی تقسیم اپنے ذمے لے لی۔
’’چالیس منٹ ؟شیو پر تو پانچ منٹ لگتے ہیں !‘‘
’’میرے چالیس منٹ لگتے ہیں !‘‘ انہوں نے جھنجھلا کر کہا۔
’’چلو ٹھیک ہے‘‘میں نے بحث ختم کرتے ہوے کہا ’’باقی ایک گھنٹہ !‘‘
’’وہ میرا ذاتی ہوتا ہے ‘‘ موصوف نے کہا ’’تہذیب نے انسان کو پابندیوں میں جکڑ کر رکھ دیا ہے یہ کرو وہ کرو، ہر وقت سوٹ بوٹ میں کسے رہو، میں روزانہ ایک گھنٹہ ان پابندیوں کے خلاف عملی احتجاج کرتا ہوں! بلکہ جتنا وقت غسل خانہ میں گزارتا ہوں، تم اسے میرے احتجاج کا حصہ ہی سمجھو، میری زندگی کو خوشگوار میرے ان پرائیویٹ لمحوں ہی نے بنایا ہے ‘‘

ایک اور صاحب سے میری دیرینہ شناسائی ہے جنہوں نے دوسروں کی زندگیوں کو جہنم بنا کر اپنی زندگی کو جنت بنا رکھا ہے، یہ صاحب ریٹائرڈ ہیڈکلرک ہیں اور لاہور کے ایک نواحی گائوں میں رہتے ہیں، ضلع کچہری کے پاس انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر لے رکھا ہے، ان کا واحد شوق لوگوں کے خلاف جھوٹے مقدمے دائر کرکے انہیں تھانوں اور عدالتوں میں خوار کرنا ہے، وہ زیادہ تر مقدمے لاہور سے باہر کے لوگوں پر کرتے ہیں، دو چار سال بعد یہ مقدمہ خارج ہو جاتا ہے لیکن ان دو چار سالوں میں ان کا ہدف لاہور کے پھیرے لگا لگا کر اپنے علاقے میں ’’بھائی پھیرو‘‘ مشہور ہو جانا ہے ۔میں نے ایک دفعہ ان صاحب سے پوچھا ’’ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ‘‘ بولے ’’پولیس کے غریب اہلکاروں، وکیلوں کے منشیوں اور عدالتوں کے درجہ چہارم کے مظلوم ملازموں کے گھروں کا چولہا مجھ ایسے دردمند لوگوں ہی کی وجہ سے جلتا ہے۔میں تو سوچتا ہوں اگر میں فوت ہوگیا تو ان بے چاروں کا کیا بنے گا؟‘‘ایک اور صاحب ہیں جن کی زندگی کی ساری خوشیاں شرفا پر کیچڑ اچھالنے میں مضمر ہیں، موصوف کانوں کو ہاتھ لگاتے جاتے ہیں اور لوگوں پر گند اچھالتے جاتے ہیں، جیسے ہو مرنے ایک جگہ لکھا ہے ’’وہ اپنے مرے ہوئوں کو یاد کرتے جاتے تھے روتے جاتے تھے اور کھاتے جاتے تھے‘‘ اس طرح یہ صاحب بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں’’میں بھی بہنوں، بیٹیوں والا ہوں دل تو نہیں چاہتا کہ کسی کی دھی بہن کے بارے میں کوئی بات کہوں، مگر شیخ صاحب کی بیٹی نے تو پورے محلے کا ماحول خراب کیا ہے، اللہ معاف کرے، کیا زمانہ آ گیا ہے؟‘‘

کسی پولیس والے کو اپنے کسی دوست سے ملنے اس کے گھر جاتے دیکھ کر اگلے دن یہ صاحب ایک نئی کہانی سناتے ہیں ’’کل پولیس نے چوہدری صاحب کے گھر چھاپہ مارا تین کلو ہیروئن برآمد ہوئی، بڑی مشکل سے دے دلا کر خلاصی ہوئی ‘‘ لوگوں پر لوٹ مار کا الزام تو یہ عام ہی لگاتے ہیں، فلاں نے اپنے گھر کے صحن میں چار کروڑ روپے دبا رکھے ہیں، فلاں کی سادہ زندگی پر نہ جائو، اس کی سادگی اس کی کنجوسی کی وجہ سے ہے، اربوں روپے اس کے پاس ہیں مگر موصوف سے کسی الزام کا ثبوت مانگا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں’’ تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں، میرا اس میں کیا فائدہ ہے ؟‘‘ فائدہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کا ٹائم پاس ہو جاتا ہے اور جس پر الزامات لگتے ہیں، ایک دن اس کا بائی پاس ہو جاتا ہے ۔

کچھ لوگ ہر وقت کسی نہ کسی بات پر بڑبڑاتے رہتے ہیں، ان کے خیال میں وہ دنیا کے بدقسمت ترین فرد ہیں، ان کے پاس اس بدقسمتی کا ایک ثبوت یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے اسی دوران فضا میں پرواز کرتی ہوئی چیل نے ان پر بیٹ کر دی وہ اپنی بدقسمتی کی ایک اور مثال دیتے ہیں جس کے مطابق وہ فلم دیکھنے گئے جب وہ بکنگ آفس تک پہنچے تو ٹکٹ ختم ہو گئے یا فلم کے جس سین کے لئے انہوں نے ٹکٹ خریدا تھا جب وہ سین آیا تو بتی چلی گئی ، ایسے لوگ صبح کے ناشتے سے اپنی یا دوسروں کو آنکھیں بند ہونے تک یہ داستان الم جاری رکھتے ہیں۔اگر آپ انہیں سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ سمجھتے ہیں کہ آپ ان کے دوست نہیں ہیں۔میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں، کیا پاگل خانہ اس کو کہتے ہیں یا یہ کسی اور جگہ کا نام ہے ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے