’’بے کار اور بیمار شخص‘‘

مخدوم جاوید ہاشمی میں بے شمار خامیاں ہیں مثلاً یہ کسی بھی وقت کسی بھی معمولی سی بات پر آپ کے خلاف تیسری عالمی جنگ چھیڑ سکتے ہیں‘ یہ نہ صرف مرنے مارنے پر تیار ہو جائیں گے بلکہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت بھی آپ کے کھاتے میں ڈال دیں گے‘ یہ آپ کی تین نسلوں کی کنڈلی کھول کر بیٹھ جائیں گے مثلاً یہ جب اکھڑ جائیں تو ان کو منانا اور سمجھانا ناممکن ہو جاتا ہے‘ یہ کام میاں نواز شریف نے دسمبر2011ء میں کر کے دیکھ لیا‘ یہ پارٹی چھوڑ کر جا رہے تھے۔
خواجہ سعد رفیق نے ان کے پاؤں کو ہاتھ لگایا‘ بیگم کلثوم نواز نے ان کی منتیں کیں اور ن لیگ کے کارکن ان کے راستے میں لیٹ گئے لیکن یہ سمجھنے کے لیے تیار ہوئے اور نہ ہی ماننے کے لیے‘ یہ کام عمران خان نے بھی کیا‘ مخدوم جاوید ہاشمی 2014ء کے دھرنے سے قبل پاکستان تحریک انصاف سے ناراض ہو گئے، یہ ملتان میں جا بیٹھے‘ پوری جماعت جاوید ہاشمی کی ٹھوڑی کو ہاتھ لگاتی رہی لیکن جب تک عمران خان نے انھیں پرامن دھرنے کی یقین دہانی نہ کرا دی یہ ملتان سے باہر نہیں نکلے‘یہ 30 اگست 2014ء کو دوسری بار ناراض ہو گئے۔
یہ پارلیمنٹ ہاؤس کے گھیراؤ کے خلاف تھے لیکن خان صاحب نے کارکنوں کو اچانک آگے بڑھنے کا حکم دے دیا‘ جاوید ہاشمی کنٹینر سے اترے اور چلتے چلتے پاکستان تحریک انصاف کی گلی سے باہر نکل گئے‘ انھیں پھر کوئی منا سکا اور نہ ہی سمجھا سکا‘ میاں نواز شریف کی خواہش تھی یہ 3ستمبر 2014ء کو قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہ دیں‘ یہ پاکستان تحریک انصاف کا فارورڈ بلاک بنا لیں‘ خواجہ سعد رفیق ان کے پاس پیغام لے کر آئے لیکن جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر فرمائی اور استعفیٰ دے کر ملتان چلے گئے۔
ن لیگ انھیں اس وقت بھی منا سکی اور نہ ہی سمجھا سکی اور مثلاً جاوید ہاشمی مار کھانے کے بہت شوقیں ہیں‘ ملک میں جب بھی مارشل لاء لگا جاوید ہاشمی کی پارٹی بھاگ گئی لیکن انھوں نے جم کر مار کھائی‘ آپ کسی دن جاوید ہاشمی کی کمر دیکھ لیں‘ اس گورے چٹے انسان کی پوری کمر سیاہ ہے‘ یہ آمریت کی سیاہی ہے‘ یہ جمہوریت کی جدوجہد کے نشان ہیں اور یہ نشان جاوید ہاشمی کے مرنے کے بعد بھی قائم رہیں گے‘ اس شخص کو منجمد سردیوں میں برفوں کی سلوں پر بھی لٹایا گیا‘ الٹا بھی لٹکایا گیا اور اس کی کمر پر اتنے درے‘ اتنے بید مارے گئے کہ اس کی پوری جلد اتر گئی لیکن ان تمام خامیوں کے باوجود جاوید ہاشمی میں چند حیران کن خوبیاں بھی ہیں۔
یہ خوبیاں پاکستان کے معاشرے اور سیاست دونوں میں ناپید ہیں‘ مثلاً یہ جسم کے آخری مسام تک جمہوریت پسند ہیں‘ یہ آمریت کو کسی قیمت پر قبول نہیں کرتے‘ یہ ایوب خان سے جنرل پرویز مشرف تک جب بھی ملک کے بڑے بڑے لیڈر ہر خاکی چیز کو دیکھ کر خاموش ہو جاتے تھے یہ اس وقت سڑکوں پر ہوتے تھے‘ یہ براہ راست ڈنڈے کھا رہے ہوتے تھے‘ جنرل پرویز مشرف کے ’’ٹیک اوور‘‘ کے بعد پوری جماعت ’’ٹو تھرڈ میجارٹی‘‘ کے ساتھ غائب ہوگئی ‘ چوہدری نثار پوری زندگی میاں نواز شریف کا دایاں بازو رہے۔
یہ دایاں بازو بھی چکری کی بیٹھکوں میں جا سویا لیکن جاوید ہاشمی نہ صرف بیگم کلثوم نواز کے ساتھ کھڑے رہے بلکہ یہ اس وقت بھی پارٹی چلاتے رہے جب میاں نواز شریف جدہ میں پاکستان سے آنے والے فون بھی نہیں سنتے تھے‘ یہ پارٹی کے دفتر کے اخراجات بھی دوستوں کی مدد سے پورے کرتے تھے‘ یہ 29اکتوبر 2003ء کو گرفتار ہوئے، ان پر غداری کا مقدمہ بنا‘ یہ چارسال جیل میں رہے۔
جیل کے ان دنوں میں شریف خاندان کی طرف سے ان کا حال پوچھنا تو درکنار میاں برادران جاوید ہاشمی کی ملاقات کے لیے جانے والوں سے بھی ناراض ہو جاتے تھے‘یہ سمجھتے تھے پارٹی میں ایک نیا لیڈر سر اٹھا رہا ہے‘ بہرحال یہ 3اگست 2007ء کو رہا ہوئے اور یہ تلخیاں بھلا کر دوبارہ میاں نواز شریف کے ساتھ بیٹھ گئے‘ 2008ء کے الیکشن ہوئے جاوید ہاشمی چارحلقوں سے امیدوار بنے‘ یہ تین حلقوں سے جیت گئے۔
میاں نواز شریف چاہتے تھے یہ ملتان کی سیٹ چھوڑ دیں اور یہ راولپنڈی کی این اے 55کی نشست پر قومی اسمبلی کا حلف اٹھائیں لیکن جاوید ہاشمی نے اچانک راولپنڈی کی نشست چھوڑ دی اور ملتان کی سیٹ سے حلف اٹھا لیا‘ میاں نواز شریف کے دل میں گرہ پڑ گئی‘یہ گرہ بڑی ہوتی چلی گئی‘ چوہدری نثار بھی جاوید ہاشمی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
یہ تلخیاں بڑھتے بڑھتے24 دسمبر2011ء تک چلی گئیں‘ یہ اٹھے اور اس وقت پارٹی چھوڑ دی جب صاف نظر آ رہا تھا ملک میں اگلی حکومت میاں نواز شریف کی ہو گی اور جاوید ہاشمی پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر ہوں گے ‘ یہ عین اس وقت پارٹی چھوڑ کر چلے گئے جب مردے بھی قبروں سے اٹھ کر ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ گا رہے تھے اور جب جنرل پرویز مشرف کے قریبی ساتھی جنرل عبدالقیوم‘ جنرل عبدالقادر بلوچ اور جنرل صلاح الدین ترمذی میاں نواز شریف کو بتا رہے تھے ہم آپ کی واپسی کے لیے کتنی دعائیں‘ کتنی کوششیں کرتے رہے۔
جاوید ہاشمی بھرا میلہ چھوڑ کر عمران خان کے کنٹینر پر چڑھ گئے اورپھر یہ عین اس وقت عمران خان کے کنٹینر سے اتر گئے جب انھیں میاں نواز شریف کا ستارہ ڈوبتے اور عمران خان کا چاند چڑھتے نظر آ رہا تھااور جب کراچی سے لے کر خیبر تک ہر سمجھ دار سیاستدان ’’جب آئے گا عمران خان‘‘ گا رہا تھا‘ مثلاً یہ اپوزیشن کے سیاستدان ہیں‘ یہ برے وقت کے ساتھی ہیں‘ میاں نواز شریف پر جب بھی برا وقت آیا یہ ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کر دی‘ یہ ان کے ساتھ رہے‘ میاں برادران جلا وطن ہوئے‘ یہ میاں نواز شریف کی پارٹی کی چوکیداری کرتے رہے‘ میاں نواز شریف کی حکومت 2014ء میں ایک دھکے کی دوری پر تھی یہ دیوار بن کر سامنے کھڑے ہو گئے‘ شریف برادران اس وقت بھی گرم پانیوں میں کھڑے ہیں‘ جاویدہاشمی اِس وقت ایک بار پھراُس نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں جو اپنے سگے بھائی کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہے ‘ جسے اب چوہدری نثار جیسے ساتھی پر بھی بھروسہ نہیں رہا اور جب پارٹی مکمل طور پر ’’اوور‘‘ ہو رہی ہے‘ یہ سلسلہ صرف یہاں تک نہیں رہے گا۔
مجھے یقین ہے اگر کبھی عمران خان پر بھی برا وقت آیا‘ یہ بھی جیل گئے یا یہ جلاوطنی کے دور سے گزرے تو جاوید ہاشمی واحد سیاستدان ہوں گے جو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور وہ تمام پرندے عمران خان کے کندھوں سے اڑ چکے ہوں گے جو جاوید ہاشمی کو پچھلے ساڑھے تین برسوں سے ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہیں‘ جو پارٹی کے ’’آفیشل پیجز‘‘ سے ان کی کردار کشی کر رہے ہیں اور مثلاً جاوید ہاشمی کو آپ سچ بولنے‘ بات کرنے اور اختلاف کرنے سے باز نہیں رکھ سکتے‘ یہ پارٹی کے اندر ہوں یا پارٹی کے باہر آپ انھیں چپ نہیں کرا سکتے۔
آپ ان کی کتابیں پڑھ لیں‘ یہ کتابیں ملک‘ جمہوریت اور پارٹیوں کے اندر موجود فضا کا نوحہ ہیں‘ یہ حقیقتاً ایک باغی شخص کی تحریریں ہیںاور یہ تحریریں ثابت کرتی ہیں یہ پارٹی کے اندر ہوں یا باہریہ آپ کو ہمیشہ باغی کے روپ میں نظر آئیں گے‘ یہ آپ کو اپنا یا دوسروں کا گریبان چاک کرتے دکھائی دیں گے۔جاوید ہاشمی کی کتابیں پاکستان مسلم لیگ ن اور شریف فیملی کا سیاسی پروفائل بھی ہیں‘ بالخصوص ان کی آخری کتاب ’’زندہ تاریخ‘‘ ویک اپ کال کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ کتاب جاوید ہاشمی کی جیل کی روداد ہے‘ یہ جیل میں روزانہ ڈائری لکھا کرتے تھے‘ یہ ڈائری بعد ازاں کتاب بنی اور اس کتاب نے تہلکہ مچا دیا‘ جاوید ہاشمی نے مجھے تین ماہ قبل یہ کتاب بھجوائی‘ میں کتاب پڑھ کر حیران ہوا اور پھر آہستہ آہستہ پریشان ہوتا چلا گیا‘ تین دسمبر کو کتاب کی رونمائی تھی‘ میں بھی رونمائی میں مدعو تھا لیکن میں بیمار ہو گیا چنانچہ میں تقریب میں شریک نہ ہو سکا تاہم میں نے یہ تقریب ٹیلی ویژن چینلز پر دیکھی‘ میں نے مقررین اور جاوید ہاشمی کی دھواں دھار تقریر بھی سنی۔
جاوید ہاشمی 4دسمبر کو میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے پنجاب ہاؤس آئے‘ میاں صاحب نے انھیں گلے لگایا اور مریم نواز نے ’’ویلکم ہوم‘‘ کہا‘ میں نے جب یہ مناظر بھی ٹیلی ویژن پر دیکھے تو مجھے مریم نواز کا 27 مئی 2012ء کاایک ٹویٹ یاد آ گیا ‘ خاتون نے تازہ تازہ ’’ٹویٹس‘‘ شروع کی تھیں‘ انھوں نے اس وقت جاوید ہاشمی کے بارے میں ٹویٹ کیا ’’احسان فراموش‘ ایک بیکار‘ ایک بیمار آدمی‘ ہاشمی ہاشمی‘‘میں سیاست کی ستم ظریفی پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا کیونکہ آج اسی بیمار ‘ اسی بیکار اور اسی احسان فراموش شخص کو ’’ویلکم ہوم‘‘کہا جا رہا تھا۔
مجھے اس دن وہ وقت بھی یاد آ گیا جب جاوید ہاشمی پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لیے 24دسمبر2011ء کو کراچی گئے تھے تو عمران خان نے ائیر پورٹ پر پہنچ کر ان کا استقبال کیا تھا اور یہ جب 30اگست 2014ء کو عمران خان کے کنٹینر سے اتر رہے تھے تو پارٹی کا کوئی عہدیدار اس بیمار‘ اس بیکار اور احسان فراموش شخص کو منانے کے لیے نیچے نہیں آیاتھا‘ یہ گالیاں کھاتے ہوئے اکیلے واپس چلے گئے تھے۔
یہ آج بھی بیمار‘ بے کار اور احسان فراموش ہیں اور یہ مرنے تک احسان فراموش‘ بیکار اور بیمار رہیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ جب مفاد سیاست کا قبلہ اور ذات جمہوریت کا مذہب ہو تو اس وقت جاوید ہاشمی جیسے لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں‘ بیکار بھی ہوتے ہیں اور احسان فراموش بھی ہوتے ہیں اورہمیں یہ حقیقت بہرحال ماننی ہوگی مفاد ہماری سیاست کا قبلہ اور ذات ہماری جمہوریت کا مذہب ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے