دھرنوں کا باب بند کرنا فوج سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے، چوہدری نثار

اسلام آباد: سابق وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کہا ہے کہ دھرنوں کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرنا فوج سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے۔

ٹیکسلا میں پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ ماضی میں دھرنے کی اجازت وزارت داخلہ نے نہیں حکومت نے دی، پہلے دھرنے میں نوازشریف نے مداخلت کرکے دھرنے کی اجازت دی، میں ریڈ زون میں اجازت دینے کے خلاف تھا مگر اس وقت کے وزیراعظم نے اس کی اجازت دی، وہ پہلَے دھرنے کے وقت سے کہہ رہے ہیں اگر آج ہم نے یہ روایت ڈال دی تو پھرچند لوگوں کا جتھہ آئے گا اور اپنے مطالبات دہرائے گا، ملک کو اگرآگے بڑھنا ہے تو ہمیں دھرنوں کا باب مکمل طورپربند کرنا ہوگا، ورنہ یہاں انارکی پھیلانے والوں کی حکومت ہوگی، جو زیادہ طاقتور ہوگا وہ اسلام آباد پرقبضہ کرے گا اوراپنی بات منوائے گا۔

چوہدری نثارعلی خان نے کہا کہ پاکستان کی پولیس اورایف سی کے پاس دھرنے کو روکنے کی پوری صلاحیت ہے۔ 2014 میں عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے کے 14 ہزار مظاہرین کو اسی پولیس اور ایف سی نے روکا، فرق یہ تھا کہ اس وقت کا وزیر داخلہ پولیس اور ایف سی کے ساتھ وہاں کھڑا تھا، بحیثیت وزیر داخلہ ان کے دور میں اسلام آباد میں دو دھرنے ہوئے لیکن کبھی تشدد نہیں ہوا، ان کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی کہ کسی صورت میں بھی فیض آباد انٹرچینج پر قبضے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ اس پر قبضہ دونوں شہروں کو سیل کرنے کے برابر ہے لیکن بدقسمتی سے اس بار ایسا نہیں ہوسکا۔ دھرنوں کا باب ہمیشہ کے لیے بند کرنا فوج سمیت تمام اداروں کی ذمہ داری ہے۔
فیض آباد دھرنے کے بعد اپنے گھر پر حملے کے حوالے سے چوہدری نثار نے کہا کہ وہ سیاست میں عدم تشدد پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ کوئی پناہ گزیں نہیں کہ کوئی آئے اور ہمارے گھر پر حملہ کردے، ہمارے گھر کی دیواریں اونچی ہیں، اندر کی کوئی گولی ہو تو بھی باہر نہیں جاسکتی۔

ایک سوال کے جواب میں سابق وفاقی وزیر نے مسلم لیگ (ن) لیگ کو مشورہ دیا کہ پارٹی پر مشکل وقت آیا ہوا ہے، اس لیے جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے۔ اداروں کو نشانہ بنانے کے بجائے توجہ آئندہ الیکشن پر دینا چاہیے۔ حکومت مدت پوری کرے گی یا نہیں، یہ حکومت سے پوچھیں کیونکہ میں حکومت میں نہیں ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے