فاٹا اصلاحات کیا گیم چل رہی ہے؟

فاٹا کا کل رقبہ 27220 مربع کلو میٹر ہے۔ خیبرپختونخوا کیساتھ الحاق کے بعد فاٹا کی محرومیوں کا ازالہ ہو گا۔

فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تین چیزیں ہیں جو ہر پاکستان کو معلوم ہونی چاہئیں۔ فاٹا کا مرکز سے فاصلہ بہت زیادہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک تو مرکز کا اس پر کنٹرول بہت کم ہوگیا، دوسرا وہاں پر ترقیاتی منصوبے بہت کم تھے اور حکومتی اختیار بھی چیلنج ہو تارہا، چنانچہ فاٹا کو ملحقہ صوبے خیبر پختونخوا کیساتھ ضم کرنیکا فیصلہ ہوا جس سے صوبہ خیبر پختونخوابھی رقبے کے لحاظ سے بڑھا ہو جائیگا اور 22 سے 23 اسمبلی کی نشستیں بھی بڑھ جائینگی۔ فاٹا کا کل رقبہ 27220 مربع کلو میٹر ہے۔ خیبرپختونخوا کیساتھ الحاق کے بعد فاٹا کی محرومیوں کا ازالہ بھی ہو گا اور اس پر ترقی کے دروازے بھی کھلیں گے، نئے ترقیاتی منصوبے آ سکیں گے۔ اس وقت وہاں پر ایف سی آر قانون رائج ہے جو 1905 میں بنا تھا اور ابھی تک نافذ ہے، جسے کالا قانون کہا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بہت سی ایسی ظالمانہ چیزیں ہیں جو بشری حقوق کیخلاف ہیں، یعنی اگر کسی خاندان کا ایک فرد غلط کام کر کے بھاگ جاتاہے تو وہ خاندان کا دوسرا بندہ پکڑ کر لے جاتے ہیں، اس کے گھر کو مسمار کر دینا وغیرہ،یہ بدقسمتی سے اکیسویں صد ی میں بھی ہم کو دیکھنے کو مل رہا ہے۔

1905 میں بھی اسے نافذ کرتے وقت انگریز افسر نے کہا تھا یہ ایک کالا قانون ہے ،مگر ہمارے پاس اسے لاگو کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں۔ موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ فاٹا کا خیبر پختونخواکیساتھ الحاق ہو جائے مگر فضل الرحمن اور محمو د اچکزئی یہ نہیں چاہتے ،ان کے اس حوالے سے اپنے عزائم ہیں ۔مولانا صاحب کے وہاں مدرسے بہت زیادہ ہیں جن کا ابھی تک آڈٹ نہیں ہوااور جب یہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن جائیگا تو پھر ان کا آڈٹ ہونا شروع ہو جائیگا اور پتہ چل جائیگا کہ پیسہ کہاں سے آرہا ہے اور کہا ں جارہا ہے ۔باقی ملک میں تو وفاق کے تحت وفاق المدارس کا ادارہ ہے جو ان مدرسوں کے معاملات کو دیکھتاہے کہ کیا پڑھایا جارہا ہے ،کہاں سے پیسہ آرہا ہے ،ان کے نصاب میں بھی حساب کتاب ہوتاہے ،لیکن اس کا اختیار فاٹا میں نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن فاٹا کو ایک صوبہ بنانے کے حق میں ہیں کیونکہ وہاں مدرسوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی سیاسی پوزیشن بھی ہے اور اگر ایسا ہو جاتاہے تو وہ آسانی سے اپنی جماعت کا وزیر اعلیٰ بنوا سکتے ہیں لیکن اگر اس مخالفت کے باوجود انضمام ہو جاتاہے تو ان کو اس سے بہت بڑا نقصان ہوگا۔

فاٹا کے عوام کے ذہنوں میں یہ بات آچکی ہے کہ مولانا کی وجہ سے انضمام کا معاملہ رکا ہوا ہے ۔دوسری طرف اچکزئی قوم پرستی کی بنیاد پر مخالفت کررہے ہیں ،لیکن ان کی مخالفت مجموعی طور پر سمجھ سے بالا ہے ۔ان کا اس علاقے میں ووٹ بینک نہیں اور نہ ہی کبھی ان کا امیدوار یہاں سے کامیاب ہوا ہے ۔ان کا خیال یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں بسنے والے پختون ایک ہیں ،حالانکہ ایسا نہیں ۔سرحدیں بن چکی ہیں ،ویسے تو اس علاقے کو اگر دیکھا جائے تو پھر لوگ خود کو ہندوستانی کہنے لگیں کیونکہ کبھی یہ پورا علاقہ ہندوستان بھی تھا لیکن ہم یہ نہیں کہتے بلکہ اب ہم پاکستانی ہیں ۔اسی طرح کسی زمانے میں جہاں افغانستان بھی حکمران تھا ،ہم اس وقت افغان تھے مگر افغانی نہیں تھے ۔افغان اور افغانی بننے میں فرق ہے ۔اچکزئی کی کئی چیزیں سمجھ نہیں آرہیں ۔وہ بار بار پشتونوں کو افغانی بنانے کے چکروں میں ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ دونوں چونکہ موجودہ حکومت کے گہرے اتحادی ہیں تو اس لئے حکومت ایک قدم آگے اور دوقدم پیچھے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ وہ چاہتے بھی ہیں اوررک بھی رہے ہیں۔ آئندہ تین چار ماہ میں حکومت پارلیمنٹ سے ایسا بل پاس کرالے گی، جس سے یہ یقینی ہو جائے گا کہ فاٹا اصلاحات آرہی ہیں تا کہ فاٹا کے عوام کو مطمئن کر سکیں کہ ہم نے جو وعدہ کیا تھا وہ پوراکر دیا لیکن و ہ اس کیساتھ ان دونوں جماعتوں کو بھی راضی رکھنے کیلئے بیچ کا راستہ اختیار کرینگے کیونکہ جلد ہی انتخابات ہونے ہیں اور ایسے میں حکومت کو ان کی سخت ضرورت ہے۔

2018 کے انتخابات میں اس حوالے سے تھوڑا وقت رہ گیا ہے ،اگر یہ ایک ماہ میں بھی فاٹا اصلاحات کرتے ہیں تو پھر بھی اسے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے عمل کیلئے ایک مخصوص وقت درکا ر ہے ۔فاٹا سیکرٹریٹ ،اعلیٰ عدلیہ اور دوسری انتظامی مشینری کو وہاں تک پہنچانے کیلئے ایک پورا طریقہ کار اختیارکرنا پڑتا ہے ۔لہذا عام انتخابات تک یہ اصلاحات کر تو لیں گے لیکن وہاں صوبائی انتخابات نہیں ہوسکیں گے ،جس کی وجہ سے فاٹا کو انضمام کا فائدہ نہیں ہوگا ۔ خیبر پختونخوا کے لوگ بھی انضمام کے حوالے سے بہت جذباتی ہیں ،مسلم لیگ ن کو اس تاخیر کا بہت زیادہ سیاسی نقصان ہوا ہے ،اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور اچکزئی کو بھی آئندہ انتخابات میں نقصان ہوگا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے