دس برس بعد!

جس دن بینظیر بھٹو کے قتل کو دس برس مکمل ہوئے‘ اسی شام میں اور عامر متین‘ تین گھنٹے تک سر جھکائے اقوام متحدہ کی بینظیر بھٹو انکوائری رپورٹ پڑھتے رہے۔جب ہم دونوں نے رپورٹ ختم کی تو بے ساختہ سر اٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھا اور بولے کہ سب نے مل کر بینظیر بھٹو کو باقاعدہ پلیٹ میں رکھ کر قاتلوں کے سامنے پیش کیا تھا۔

میں اور عامر متین بینظیر بھٹو کی زندگی میں ان کے مداح نہیں رہے۔ پیپلز پارٹی حکومتوں کی کرپشن اور بدعنوانیوں کے نتائج برطانیہ میں سرے محل اور سوئٹزرلینڈمیں زرداری صاحب کے چھ ارب روپے کی شکل میں نکلے تھے۔اسی وجہ سے ہم بینظیر بھٹو کے سیاسی اور حکومتی کردارکو سراہ نہ سکے۔ شروع میں بینظیر بھٹو سے بہت امیدیں تھیں لیکن پھر وہ زرداری سکول آف تھاٹ کے سامنے‘ اس وقت ہتھیار ڈال گئیں جب زرداری صاحب نے انہیں سمجھایا کہ اگر پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو پھر آپ کو نواز شریف سے زیادہ پیسہ کمانا ہوگا۔ لیکن جس طرح بینظیر بھٹو ماری گئیں اس پر ان کے بدترین مخالف بھی افسردہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

اس رپورٹ کو پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ یہ وہ رپورٹ ہے جسے تیار کرنے میں پاکستان نے ساٹھ کروڑ روپے عوام کی جیب سے ادا کیے تھے، جسے حکمرانوں سے لے کر سیاستدانوں اور پولیس افسران اور بیوروکریسی تک کسی نے پڑھنے کی زحمت بھی کی؟ اگر کسی نے وہ رپورٹ پڑھی ہے تو اس پر کتنا عمل کیا گیا ہے۔

باقی چھوڑیں کہ کسی نے پڑھی یا نہیں‘ کیا پولیس افسران نے وہ رپورٹ پڑھی کہ کیسے کیسے نالائق افراد ان کی فورس کو چلا رہے ہیں؟ چلیں پولیس افسران کو بھی چھوڑیں کیا یہ رپورٹ سیاستدانوں اور حکمرانوں نے پڑھی، جنہوں نے انہی پولیس افسران اور اہلکاروں پر بھروسہ کر رکھا ہے کہ وہ ان کی جان کی حفاظت کریں گے؟ چلیں سیاستدانوں کو بھی چھوڑیں کیا خود پیپلز پارٹی نے وہ رپورٹ پڑھ کر نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی کہ ان کی لیڈر جہاں جنرل مشرف کی طرف سے سکیورٹی نہ ملنے کی وجہ سے ماری گئیں‘ وہیں پولیس کی نالائقی کا بھی اس میں برابر کا کردار تھا۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے پولیس اہلکار اور وفاداریوں کی بنیاد پر افسران کی تعیناتی خود سیاستدانوں کے لیے بہت خطرناک ہے۔

چلیں! زرداری صاحب اور رحمن ملک کو چھوڑیں کہ انہوں نے وہ رپورٹ پڑھی یا نہیں؟ کیا آکسفورڈ گریجویٹ بلاول زرداری نے وہ رپورٹ پڑھی ہے کہ ایک اچھی اور ایماندار پولیس فورس خود حکمرانوں کی اپنی ذات کے لیے کتنی اہم ہوتی ہے؟ اگر بلاول نے پڑھی ہوتی تو کیا سندھ پولیس کو زرداری صاحب کی شوگر ملوں کے لیے کسانوں سے زبردستی گنا خریدنے کے کام پر لگایا جاتا یا کسانوں، استادوں پر تشدد کے لیے استعمال کیا جاتا؟

میرا خیال تھا کہ اقوام متحدہ کے عالمی شہرت یافتہ افسران کی یہ رپورٹ پورے ملک کو ہلا کر رکھ دے گی اور بڑے پیمانے پر پاکستانی پولیس اور بیورو کریسی کو درست کرنے کا عمل شروع ہوگا۔ پیپلز پارٹی اس رپورٹ کو پارلیمنٹ میں لائے گی اور بیورو کریسی کی کارگردگی بہتر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اور کچھ نہیں تو پیپلز پارٹی خود سندھ میں ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گی جن کی طرف اشارہ اس رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ کیسے بیورو کریسی کا ڈھانچہ بکھر چکا تھا اور افسران اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے میں بری طرح ناکام رہے تھے۔

کیا کبھی سنا کہ پولیس گروپ نے بیٹھ کر‘ اس رپورٹ کی روشنی میں خود احتسابی کی کوشش کی ہو؟کیوں ان کے اندر وہ قابلیت نہیں جو عالمی تفتیش کاروں کو متاثر کر سکتی؟ ہر دوسرے صفحے پر اقوام متحدہ کے افسران حیران ہیں کہ کیا پولیس افسران ایسے ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں جیسے پاکستان میں ہو رہا ہے؟ کہیں سنجیدگی نہیں۔ نالائقیوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔

شاید سیاستدان ہی ذمہ دار ہیں جنہوں نے قوم کو ایسی فورس تیار کر کے دی ہے کہ اب خود مارے جاتے ہیں لیکن وہ ریفامز لانے کو تیار نہیں۔ ہر کسی کو ایک ذاتی ملازم درکار ہے۔ ایک ایسا بیورو کریٹ چاہیے جسے تنخواہ تو عوام کے پیسوں سے ملے لیکن وہ غلامی ان کے خاندان کی کرے۔ اگر پاکستانی پولیس کے سربراہان نے وہ رپورٹ پڑھی ہوتی تو ماڈل ٹائون کا واقعہ پیش نہ آتا۔

اقوام متحدہ کے تفتیش کار حیران تھے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے دو دن بعد تک پولیس نے جائے وقوعہ کا معائنہ نہیں کیا تھا۔ ایک سینئر پولیس افسر سعود عزیز جائے وقوعہ کو چالیس منٹ کے اندر دھلوا چکا تھا۔ اس موقع پر سعود عزیز اور ان کے ایس پی خرم شہزاد کے بولے گئے جھوٹ بھی اقوام متحدہ کی ٹیم کو افسردہ کر گئے۔ پنڈی کے ڈپٹی کمشنر عرفان الٰہی کا کردار بھی متاثر کن نہیں۔ اقوام متحدہ کے لوگ اس وقت مایوس ہوئے جب انہیں پتا چلا کہ جو جے آئی ٹی لاہور اور کراچی کے پولیس افسران پر مشتمل تھی وہ سیدھی جائے وقوعہ پر جانے کی بجائے پہلے دن ڈی پی او سعود عزیز کے دفتر میں بیٹھ کر گھنٹوں لنچ کرتی رہی اور جب شام ہونے لگی تو انہیں خیال آیا کہ اوہ! ہم نے تو جائے وقوعہ پر جانا تھا۔ اس پر سعود عزیز نے کہا کہ اب کیا فائدہ؟ ویسے ہی شام ہو رہی ہے۔ کیا ضرورت ہے تفتیش کی کہ بقول بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال چیمہ قاتل بیت اللہ محسود ہی ہے۔ جب عبدالمجید نے تفتیش شروع کی تو انہوں نے سب کچھ اللہ کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ سندھ سے آئے ہوئے افسران یہ رویہ دیکھ کر واپس چلے گئے کہ یہاں تو کوئی سنجیدہ ہی نہیں ہے۔

دراصل قصور ان بین الاقوامی تفتیش کاروں کا ہے جو عالمی معیار کو سامنے رکھ کر پاکستانی پولیس کی کارگردگی کا جائزہ لینے بیٹھ گئے۔ انہوں نے شاید سمجھ لیا تھا کہ پاکستانی پولیس بھی شرلاک ہومز ماڈل فورس ہے یا پھر یہ سکاٹ لینڈ یارڈ کے مقابلے کا ادارہ ہے اور پاکستانی پولیس افسران ایف بی آئی کو مات دے دیں گے۔

میرا خیال تھا اگر پاکستان کا درد رکھنے والے حکمران اور بیورو کریٹس یہ رپورٹس پڑھتے تو فوری طور پر حکومتیں ایکشن میں آتیں۔ پولیس فورس کے سلیبس، ٹیکنیکس، تفتیش، کردار اور سلیکشن پر توجہ دی جاتی۔ ٹریننگ اکیڈمی میں مینوئل تبدیل ہوتے۔ پولیس کا سیاسی کردار ختم کیا جاتا۔ سی ایس ایس کے انٹرویو بورڈز ممبران کو وہ رپورٹ پڑھنے کو دی جاتی کہ پولیس افسران کی سفارش کرتے وقت امیدواروں کے ذہنی معیار اور شعور کو جانچنا چاہتے ہو تو اس رپورٹ سے بہت مواد مل جائے گا کہ اچھا پولیس افسر کیسا ہوتا ہے اور اسے مشکل وقت میں کیا کرنا ہوتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو ممبران انٹرویو کرتے وقت پولیس گروپ میں جانے کے خواہشمندوں سے اتنا تو پوچھ ہی سکتے تھے کہ آپ نے اقوام متحدہ یا سکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ پڑھی ہے اور اگر پڑھی ہے تو اس پر آپ کی رائے کیا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ پولیس میں طاقت کا نشہ لے کر بھرتی ہونے والوں کو چھوڑیں ان ریٹائرڈ ممبران نے بھی شاذ ہی رپورٹس پڑھی ہوں گی۔

میں کئی مواقع پر رپورٹ پڑھتے ہوئے بے ساختہ ہنسا بھی اور عامر متین کا بھی دھیان دلوایا کہ دیکھیں یہ گورے ہمارے دیسی پولیس سے کیا کیا توقعات لے کر پاکستان آئے تھے اور انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ پاکستان میں پڑھے لکھے افراد بیوروکریسی میں نہ تو عوام کی خدمت کرنے آتے ہیں اور ہی نہ ریاست کی خدمت ان کی ترجیح ہوتی ہے۔ ان کی ترجیحات ذاتی پوسٹنگ سے شروع ہوکر پرموشن پر ختم ہو جاتی ہیں۔ ہر ضلع میں کئی افسران ماتحتوں کا ویلفیئر فنڈ اور پٹرول کا بجٹ کھانے تک محدود ہوتے ہیں۔ ماتحت افسران ساری عمر ایسا بڑا افسر ڈھونڈتے رہتے ہیں جسے وہ خوش رکھ سکیں اور ان کا اعلیٰ افسر اپنے ایم این ایز، وزیر اور وزیراعلیٰ کو خوش رکھنے کے چکر میں ہوتا ہے۔ انہیں تو تربیت ہی یہ دی گئی ہے کہ صرف کمزوروں پر چڑھائی کرنی ہے۔بہرحال اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ ایک طمانچہ ہے ہم سب کے منہ پر کہ کیسے نالائق افراد ڈھونڈ کربھرتی کئے گئے۔

اقوام متحدہ کی انکوائری رپورٹ کے برسوں بعد ہم نے یہ سبق سیکھا کہ لاہور میں پولیس کے ہاتھوں حکمرانوں نے سیاسی مخالفت میں چودہ لوگ مروا دیئے تو پی پی پی کی سندھ حکومت نے بینظیر بھٹو قتل کے دس برس بعد پولیس کو مرضی کی قیمت پر غریب کسانوں سے گنا چھیننے کے کام پر لگایا ہوا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے