سرمایہ دار اور دولت مند کا فرق

سرمایہ دار اور دولت مند بظاہر دو مترادف الفاظ ہیں. اردو میں ان کے معانی صاحبِ مال و مال دار کے آتے ہیں لیکن ان مترادفات کے بیچ طبقاتی مفادات کے غیر آباد مضافات میں تضادات کی ایک پوری دنیا آباد ہے. سرمایہ دار ہونا ایک مخصوص ذہنی کیفیت جبکہ دولت مند ہونا ایک خاص مالی حالت کا نام ہے. مختلف ادوار کے مختلف انسانی طبقات میں ذھنی کیفیات اور معاشی حالات کی یہ تقسیم زمانہ قدیم سے مسلسل چلی آرہی ہے جو زمانہ جدید میں بھی پوری آب و تاب سے جاری ہے.

ریاستی اقتدار میں "فرعونیت” سرمایہ داریت کی نمائندگی کرتی ہے جو فخر و غرور اور تکبر سے مرکب ہے اور "سلیمانیت” دولت مندی کی علامت ہے جو انکساری و خاکساری اور عاجزی کا مجموعہ ہے. "فرعونیت” ہر دور میں پوری انسانیت کو اپنی پوجا پر مجبور کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے. جس طرح فرعون کا اعلان "انا ربکم الاعلیٰ” درحقیقت اپنے قانون ساز ھونے کا دعویٰ تھا بالکل اسی طرح دورِ جدید کا کیپٹل ازم بھی "آئی ایم سُپر پاور” کے نعرے سے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا مُدعی ہے.

ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ فارسی زبان کا لفظ ہے. ‏عربی میں اسے رأس المال اور ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ میں کیپیٹل کہتے ہیں. ﻣﻌﺎﺷﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﮐﻮ پیدوار کے چار بنیادی عاملین میں سے شمار کیا جاتا ہے. فیکٹرز آف پروڈکشن یعنی ﻋﺎﻣﻠﯿﻦ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ میں سرمایہ، ﻣﺤﻨﺖ، ﺗﻨﻈﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﺍﯾﮧ چاروں شامل ہیں. گویا بنیادی طور پر ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﭘﯿﺪﺍﻭﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻣﻞ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺪﺍﻭﺍﺭ ہوتا ہے.

ﺩﻭﻟﺖ عربی ‏زبان کا لفظ ہے. سنسکرت میں اسے پونجی اور انگریزی میں ویلتھ کہتے ہیں. عموماً دولت سے ﻣﺮﺍﺩ مادی اشیاء مثلا سونا چاندی، روپیہ پیسہ اور ھیرے جواھرات ہیں ﻟﯿﮑﻦ ﻣﻌﺎﺷﯿﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﻭﮦ ﺗﻤﺎﻡ اشیاء ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﻼﻭﺍﺳﻄﮧ ﯾﺎ ﺑﺎﻟﻮﺍﺳﻄﮧ آدمیت کے مادی ﺍﺣﺘﯿﺎﺟﺎﺕ اور انسانیت کے احساسات و جذبات ﮐﻮ ﺗﺴﮑﯿﻦ ﺩیتی ہیں. ﺍﻥ ﻣﻌﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ حُب ﺍﻟﻮﻃﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﮩﻼﺋﮯ ﮔﯽ.
بعض اھلِ علم نے ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﯽ ﺩﻭ بڑی ﻗﺴﻤﯿﮟ بیان کی ﮨﯿﮟ. اول ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﯾﻌﻨﯽ ﻭﮦ ﺩﻭﻟﺖ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﻭ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ. ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﺩﯼ ﺷﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ اور ﻣﺤﻨﺖ، ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ و ﻣﮩﺎﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ اس طرح ﮐﺴﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﺣﻖ ﯾﺎ ﺳﺎﮐﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ تمام ﻣﺎﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﻣﺎﺩﯼ ﭼﯿﺰﯾﮟ باقاعدہ ﺧﺮﯾﺪﯼ اور ﺑﯿﭽﯽ ﺟﺎ سکتی ﮨﯿﮟ. دوم ﻏﯿﺮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﺩﻭﻟﺖ یعنی جس کی خرید و فروخت ناممکن ہے مثلاً ﻣﺎﮞ باپ ﮐﺎ ﭘﯿﺎﺭ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺗﺴﮑﯿﻦ تو ﺩﮮ سکتی ﮨﮯ ﻣﮕﺮ محبت کے یہ جذبات کسی قیمت پر ﺧﺮﯾﺪے ﯾﺎ بیچے ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ سکتے. ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ حُب ﺍﻟﻮﻃﻨﯽ کا جذبہ ﻗﻮﻣﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ.

اردو کے برعکس ﻓﺎﺭﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺑﯽ دونوں ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ عمومی طور پر ﺩﻭﻟﺖ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ مال و ﺛﺮﻭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺣﮑﻮﻣﺖ و ریاست ہوتی ہے. ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺮﻧﺴﯽ ﻧﻮﭨﻮﮞ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﻤﻠﮯ "ﺑﯿﻨﮏ ﺩﻭﻟﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ” ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ "ﺣﮑﻮﻣﺖ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﯿﻨﮏ”. ناچیز کے نقطہ نظر سے کرنسی نوٹ پر لکھے اس جملے میں بینک کا لفظ بین الاقوامی سرمایہ داریت کا نشان، دولت کا لفظ قومی اسٹیبلشمنٹ کی علامت اور پاکستان کا لفظ ان دونوں کے مابین لین دین کا ضمانت ہے. "ﺩﻭﻟﺖِ ﻋﺜﻤﺎﻧﯿﮧ” ﮐﺎ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ "ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻋﺜﻤﺎﻧﯿﮧ”، جس سے مراد ترکی میں چند عشرے قبل سقوط شدہ وہاں صدیوں سے قائم "خلافتِ عثمانیہ” ہے جبکہ”دولتِ مشترکہ” یا "کامن ویلتھ” کی اصطلاح تاجِ برطانیہ کے ماتحت سابقہ نو آبادیات کی سیاسی وحدت کے لئے استعمال ہوتی ہے.

یہ تہذیبی تصادم اور فکری بالادستی کا دور ہے. اس ٹکراؤ میں افکار و کردار کو اولیت اور دولت و سرمایہ کو اہمیت حاصل ہے. عصرِ حاضر ﮐﺎ ﺑﯿﻨﮑﻨﮓ نظام درحقیقت ﺳﻮﺩﯼ ﺑﻨﯿﺎﺩﻭﮞ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﮯ، مذہب اور تہذیب دونوں کا گہرا باہمی تعلق ہے. مذہب اگرچہ ﺑﯿﻨﮑﻨﮓ ﮐﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﺖ ﻧﮩﯿﮟ کرتا کیونکہ ﺑﯿﻨﮑﻨﮓ ﺩﺭ اصل ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺩﮦ ﺳﯽ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﯼ ﺗﺪﺑﯿﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ لیکن مذھبی نقطہ نظر سے ﺑﯿﻨﮑﻨﮓ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﻣﻀﺎﺭﺑﺖ کا اصول ﮨﮯ جس میں ﻋﻮﺍﻡ ﮐﻮ ﺍﺻﻞ ﻧﻔﻊ ﻭ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮐﺎ ﺷﺮﯾﮏ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺋﮯ. ﻣﻀﺎﺭﺑﺖ کا اصول معیشت کے تمام شعبوں تجارت، صنعت، زراعت اور ملازمت کی تعمیر و ترقی میں ممد و ﻣﻌﺎﻭﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻭﻟﺖ کو بھی ﮔﺮﺩﺵ میں رکھتی ہے جبکہ ﺳﻮﺩ سارا سرمایہ اور تمام ﺩﻭﻟﺖ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﺮ صرف ﭼﻨﺪ مخصوص ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ تک محدود کرتی ہے جس سے سرمایہ دار طبقے کو تو بھرپور فائدہ ملتا ہے لیکن قومی بنیاد پر معاشی استحکام اور اقتصادی ترقی کی تمام تر راھیں مسدود ہو جاتی ہیں. عام طور پر ﻣﻀﺎﺭﺑﺖ ﺳﮯ عوام کے لئے ﻋﻤﻮﻣﯽ ﻧﻔﻊ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ جبکہ ﺳﻮﺩ ﺳﮯ عوام کے ﺍﺳﺘﺤﺼﺎﻝ ﮐﻮ ﻓﺮﻭﻍ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ.

"ﺍﺳﻼﻣﯽ ریاست” یعنی "دینی دولت” ﮐﻮ ضرورت مند نہیں ﺩﻭﻟﺖ ﻣﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﺛﺮﻭﺕ ﻣﻨﺪ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ. اسلامی ریاست میں نہ صرف معاشی اور اقتصادی طور پر یہ اہلیت و ﺻﻼﺣﯿﺖ ﮨﻮنی چاہئے ﮐﮧ وہ ﺍﭘﻨﯽ ملی دولت اور قومی ﺛﺮﻭﺕ ﺳﮯ ملکی سطح پر معاشرے سے معاشی محرومیت کا مکمل خاتمہ کرسکے بلکہ اسے سیاسی اور عسکری لحاظ سے بھی اتنی قوت و طاقت کا حامل ہونا چاہئے کہ ﻋﺎﻟﻤﯽ ﺳﻄﺢ ﭘﺮ بھی ﺍﭘﻨﮯ ﺍعلیٰ مقاصد اور بلند ﺍﮨﺪﺍﻑ ﮐﻮ ﻋﻤﻠﯽ ﺟﺎﻣﮧ ﭘﮩﻨﺎ ﺳﮑﮯ. مذہب معاشی ترقی اور اقتصادی استحکام کی بھرپور تائید و حمایت کرتا ہے کیونکہ یہ انسانیت کے تمام افراد کو بنیادی ضروریات سے بے نیاز کرتے ہوئے ان کی روحانیت و علمیت میں اضافہ کرکے دینی وحدت و دینی دعوت کے عملیات کو مہمیز دیتا ھے لیکن یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سماجی انصاف کے بغیر معاشی ترقی کا خیال محض ایک خواب ہے. اسلام کا ابدی قانون یہی ہے کہ قانون کا استعمال ہمیشہ مساوی ہو.

انسانیت اس کائنات میں ﺭﻭﺣﺎﻧﯿﺖ و ﻣﺎﺩﯾﺖ ﮐﺎ سب سے ﺣﺴﯿﻦ ﺳﻨﮕﻢ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻣﺎﺩﮦ ﺳﮯ ﺍﺣﺘﺮﺍﺯ ﮐﯽ ﺗﺎﮐﯿﺪ کی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ہی ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮے ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻣﺎﺩﯾﺖ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﮐﯿﺎ ہے تاکہ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﺩﯼ ﺧﻮﺍﮨﺸﺎﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍپنے ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ تقاضوں کو پسِ پشت نہ ڈالے. ﺍﻧﺴﺎنیت ﮐﯽ ﻓﻼﺡ ﻭ ﺗﺮﻗﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺩﯾﺖ اور روحانیت دونوں کے ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺻﺮف ﺗﺴﻠﯿﻢ کیا گیا ہے ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﺐِ ﺣﻼﻝ ﮐﻮ ﺍﮨﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﻓﺮﯾﻀﮧ ﻗﺮﺍﺭ ﺩے کر درحقیقت ﺍﺳﻼم کے روحانی ﻧﻈﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺩﯾﺖ ﮐﻮ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﻋﺘﺪﺍﻝ ﻭ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ بے حد عمدہ اور مناسب جگہ ﺩﯼ گئی ہے.

دینِ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﮨﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﻣﻠﮑﯿﺖ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ خاص ﻣﻌﯿﺎﺭ ﻣﻘﺮﺭ کیا ﮨﮯ، معاشرے کے ﺟﺲ فرد ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻣﻌﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺩﻭﻟﺖ ﭘﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ریاست اس ﺳﮯ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺯکواﺓ ﮐﺎ ﻻﺯﻣﯽ ﺣﺼﮧ ﻭﺻﻮﻝ کرے گی. اس کے علاؤہ کفارات سمیت ﺻﺪﻗﺎﺕ ﻭ ﺧﯿﺮﺍﺕ اور عطیات ﮐﯽ بھی نہ صرف ﺧﻮﺏ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ہے بلکہ بار بار شدت سے تاکید اور سختی سے تلقین کی گئی ہے . اس طرح دولتمند افراد کی جانب سے حاجت مند افراد ﮐﯽ ﺣﺎﺟﺖ ﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ پورا ﺳﺎﻣﺎﻥ ﭘﯿﺪا کیا گیا ہے. قومی مسائل کا حل قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم میں ہے. وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور طبقاتی امتیاز و تفریق سے غربت و افلاس اور فقر و فاقہ جنم لیتے ہیں. وسائل میں اضافہ اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے باعث ہی انسانیت کے لئے دولت سے حقیقی استفادہ ممکن ہے.

باشعور معاشرے میں دولت کا وجود معیوب نہیں لیکن دولت کے بل بوتے پر انسانیت کو مرعوب کرنا معیوب ہے. مال کی کثرت بذاتِ خود عیب نہیں لیکن خود کو دولت کی بنیاد پر دوسروں سے برتر و بالاتر سمجھنا سرمایہ داریت کی علامت ہے جس میں آدمیت معتوب ہوتی ہے اور سرمایہ حاکم. مذھب میں حصولِ رزق کے لئے تلاشِ روزگار اور معاشی خوشحالی کے لئے حصولِ دولت جائز ہے لیکن ناجائز ذرائع سے دولت کا ارتکاز ہرگز جائز نہیں. اسلام سوشل ازم کی "قومی ملکیت” اور کیپیٹل ازم کی "نجی ملکیت” پر مشتمل دو انتہاؤں کے بیچ افراط و تفریط سے ہٹ کر عدل و انصاف پر مبنی "معاشی مساوات” کے نام سے راہِ اعتدال تجویز کرتا ہے. "سرمایہ داریت” کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہر طرف دولت کی ریل پیل اور ہر طرح کے ﻋﯿﺶ و عشرت ﮐﯽ ﮐﺜﺮﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ انسانیت کی غالب ترین اکثریت ﺫﮨﻨﯽ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﯽ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﮯ اب بھی کوسوں دور ہے. اس وقت دنیا میں سرمایہ کا وجود بے انتہا اور ﺩﻭﻟﺖ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﻭﺍﺭ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ان سب کے باوجود انسانیت بدترین پستی، ﺍﺧﻼﻗﯿﺎﺕ بدترین ﺗﻨﺰﻝ ﺍﻭﺭ اقدار بدترین ﺍﻧﺤﻄﺎﻁ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ.

سرمایہ داریت میں انسانیت کا سر، مایہ اور دار تینوں سرمایہ دار طبقے کی ملکیت ہوتے ہیں جبکہ محنت کش کے پاس سوائے محنت کے کچھ نہیں ہوتا مگر اسے اپنی محنت کا صلہ بھی نفرت سے ملتا ہے، محبت سے نہیں. اس دنیا میں اپنا مفاد کسے عزیز نہیں لیکن جب دنیا مفادات کی اسیر بن جائے تو دنیا پرست اور مفاد پرست عناصر جنم لیتے ہیں یہ ہوا پرست لوگ اہلِ دنیا کو ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭼﻤﮏ ﺩﻣﮏ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ تمام ﺟﺎﺋﺰ ﻭ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﺫﺭﺍﺋﻊ ﺳﮯ مال ﮐﻤﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﮐﺴﺎتے ہیں. اس نظام میں کارخانہ دار کے ہاں کام کرنے والا نادار محنت کش کارخانہ دار کے لئے اپنی محنت سے لا تعداد در و دیوار اور متعدد دار بنانے کے باجود اپنا دار بنانے کی استعداد نہیں رکھتا. سرمایہ دار کی شب و روز دست درازی سے محنت کش شب و روز دست کاری کے باوجود دستِ نگر رہتا ہے کیونکہ اس محنت کُش نظام میں محنت کَش کو اپنی محنت کا صلہ دستیاب ہوتا ہے نہ ہی معاشرے سے کوئی دستگیر.

یہ ہرگز ضروری نہیں کہ ہر سرمایہ دار آدمی دولت مند بھی ہو اسی طرح یہ بھی لازمی نہیں کہ ہر دولت مند آدمی سرمایہ دار بھی ہو. ابولہب و ابو جہل قبائلی سردار ضرور تھے مگر مالی حالت کے اعتبار سے اتنے بڑے مالدار نہ تھے لیکن ذھنیت کے اعتبار سے وہ سرمایہ دار ترین لوگ تھے جبکہ حضرت ابوبکر و عثمان قبائلی حیثیت سے عزت مند اور مالی حالت کے اعتبار سے بہت بڑے دولت مند تھے لیکن ذھنیت کے اعتبار سے وہ سرمایہ داریت کے سب سے بڑے فکری مخالف تھے. در اصل سماج کا ﮨﺮ ﻭﮦ ﻣﺰﺩﻭﺭ، ﮐﺴﺎﻥ، ہاری ﺍﻭﺭ ﻣﻔﻠﺲ و نادار ﺷﺨﺺ ﺟﻮ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﺩﺍﺭ اقلیت کی سرمایہ دارانہ ﻋﻘﻠﯿﺖ ﮐﻮ دل و جان سے ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ وہ ذھنیت کے اعتبار سے ﺍﯾﮏ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﺩﺍﺭ شخص ہی ﮨﮯ ﮐﯿﻮنکہ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻔﺲ کی لگام ﺣﺮﺹ و ہوس ﮐﮯ پجاری ﺷﯿﻄﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﺮﺩی ﮨﮯ.

سرمایہ دار حرص و ہوس اور حسد کا اسیر، عقلیت کا غلام، شیطانیت کا پجاری اور مادیت کا پیرو ہوتا ہے. بقول کسے ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ در حقیقت ﺩﻭﻟﺖ ﮐﺎ ﻇﺎﻟﻤﺎﻧﮧ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﮯ. ﺟﺐ ﺩﻭﻟﺖ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺩﻭﻟﺖ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ بن ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ. عالمگیریت در حقیقت سرمایہ داریت کا عالمی مظہر اور بین الاقوامی عمل ہے جس کا ردعمل اشتراکیت ہے. یہ دونوں نظام کہیں جمہوریت کے روپ میں ہے اور کہیں عسکریت کی شکل میں برسر پیکار ہیں. سرمایہ داریت ایک ایسا خونی عفریت ہے جس میں دولت کی فراوانی کے باوجود منڈی میں مندی کا رجحان اور تعداد میں غالب اکثریت کے باوجود آدمیت کے کچھ طبقے دِلت کہلاتے ہیں. سچ یہ ہے کہ یہاں دولت کا ﺗﺼﺎﺩﻡ معاشرتی غربت و افلاس سے ہے اور سرمایہ غریب و مفلس معاشرے سے تصادم میں ہے.

جدید و قدیم ریاستوں کے سیاسی اقدار اور ریاستی اقتدار میں مال و دولت کو ہمیشہ ایک اھم حیثیت حاصل رہی ہے. سیاسی تاریخ میں "قارونیت” سرمایہ دار حلقے کا نشان ھے جو ہمیشہ "احکامِ فرعونیت” کے فروغ و استحکام کا سبب بنا ہے جبکہ "صدیقیت” دولت مند طبقے کا استعارہ ھے جو ھر دور میں "پیغامِ رسالت” کی تعلیم و ترویج کا باعث بنا ہے. ابتدائے آفرینش سے سماج کا سرمایہ دار طبقہ ھمیشہ سامراج کے سنگ اور استعمار کے پہلو میں جبکہ دولت مند طبقہ معاشرے میں "ملی وحدت” اور "ملی دولت” کے قیام و استحکام کے لئے کوشاں ملے گا. دینِ اسلام کے سیاسی فسلفے کی رو سے ریاستی نظام میں خلافت و ملوکیت کا بنیادی فرق بھی سرمایہ دار اور دولت مند کا ہے. دراصل دولت اپنی ملت کے ساتھ انضمام کے حق میں ہے جبکہ سرمایہ اپنی ملت کا انہدام چاہتی ہے. نظامِ حیات میں دولت ملی اقدار کا تحفظ اور ملی اقتدار کا قیام چاہتی ہے جبکہ سرمایہ آدمیت سے انحراف اور انسانیت سے بغاوت کا خواہاں ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے