گلگت بلتستان کے نام

پیارے گلگت بلتستان! امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔ آپ کا ذکر خیر بہت دفعہ سنا ہے، تاریخ کی کتابوں میں بھی آپ کے بارے میں کئی دفعہ پڑھا ہے، چین جاتے ہوئے جہاز سے آپ کو کئی دفعہ دیکھا ہے، لیکن کبھی آپ سے بالمشافعہ ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ سنا ہے اللہ نے آپ کو قدرتی حسن سے مالا مال بنایا ہے، سنا ہے پاکستان کو چین کا ہمسایہ آپ ہی نے بنایا ہے، سنا ہے چین کے ساتھ زمینی تجارت کا واحد راستہ بھی آپ کے ہاں سے گزرتا ہے، سنا ہے چین کو گوادر کے ساتھ ملانے والے میگا پروجیکٹس آپ کے جغرافیے کی وجہ سے ہی وجود میں آئے ہیں۔ سنا ہے آپ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کا مسکن ہیں، سنا ہے کہ دنیا کے طویل ترین گلیشئر بھی آپ کے ہاں پائے جاتے ہیں۔ سنا ہے آپکے ہاں 4000 سال پرانی تہذیب کے نشانات کا کھوج لگایا گیا ہے۔

سنا ہے آپ کی اور ہماری ماضی کی تاریخ ریکارڈ کرنے والے چینی بدھ سیاح فاشیان (Faxian) پانچویں صدی اور شوان زانگ (Hsuan Tsang) ساتویں صدی میں گلگت بلتستان آئے۔ سنا ہے میری طرح آپ پر بھی رنگ رنگ کے حملہ آور وارد ہوئے اور بالآخر ہماری طرح آپ بھی لڑھکتے لڑھکتے 1947 تک پہنچ گئے۔ سنا ہے میری طرح آپ نے بھی آزادی کے خواب سینچے تھے۔ سنا ہے آپ کے دل میں بھی میری طرح آئینی حقوق، سول حقوق، بنیادی انسانی حقوق اور حقِ خود اختیاری کی تمنا موجزن ہوئی تھی۔ سنا ہے آپ نے بھی اپنی آنکھوں میں جمہوریت کے سپنے سجائے تھے۔ سنا ہے آپ کے خوابوں کا انجام بھی وہی ہوا جو میرے خوابوں کا ہوا۔

؎ جس کی کچھ تعبیر نہ ہو
خواب اسی کو کہتے ہیں

محترم گلگت بلتستان! آپ کے ساتھ پچھلے ستر سالوں میں جو کچھ ہوا، مجھے اس کا دلی طور پر ملال ہے۔ستر سال سے آپ کی حیثیت ہی طے نہیں کی گئی اور اس سارے عرصے میں آپ کو آئینی، سول اور انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ لیکن یہ کیا کہ آپ مجھے ہی اپنا مجرم بنائے بیٹھے ہیں۔ آپ کو آزادی کے بعد بھی اگر آزادی نہیں ملی تو میں کونسا آزادی کی گنگا نہائے بیٹھا ہوں۔

؎ تیرا غم میرا غم اک جیسا صنم
ہم دونوں کی ایک کہانی
آ جا لگ جا گلے دل جانی

پہلے تو آپ کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ میری طرح آپ کے دل میں بھی یہ غلط فہمی گھر کر گئی تھی کہ یہ ملک آپ کے اور میرے لئے آزاد ہوا تھا۔ لیکن شکر ہے کہ آپ کو اور مجھے اس غلط فہمی کی وہ سزا نہیں ملی جو وقتاً فوقتاً سرحد کے پشتونوں، کراچی کے اردو بولنے والوں، سندھ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کو ملتی رہی ہے۔ انہیں بھی اب سمجھ میں آ گیا ہے اور میری طرح آپ بھی سمجھ لیں کہ وطن عزیز عوام کی آزادی کیلئے آزاد نہیں ہوا تھا بلکہ یہ تو جرنیلوں، ججوں اور ڈی ایم جی کے بابوئوں کیلئے آزاد ہوا تھا۔ عوام چاہے پنجاب کے ہوں، مشرقی پاکستان کے یا پھر گلگت بلتستان کے، ایک جیسے ہی سادے ہوتے ہیں۔

ویسے بھی عوام کو کچھ خوفِ خدا کرنا چاہئے، دوسروں کا حق مارنے کی کوشش کرینگے تو یہی کچھ ہو گا۔ پاکستان بنانے کیلئے انہوں نے کوشش کی تھی یا انہوں نے قربانیاں دی تھیں جو وہ آزادی مانگتے ہیں؟ آزادی کی تحریک جرنیلوں، ججوں اور آئی سی ایس والے بابوئوں نے چلائی تھی یا عوام نے؟ کون انگریزوں کی تنخواہ لے کر آزادی کے متوالوں پر گولیاں چلاتا تھا؟ کون انہیں پھانسیوں کی سزائیں دیتا تھا؟ ماضی میں ان پر انتظامی حکمرانی کون کرتا تھا؟ جرنیل، جج اور آئی سی ایس کے بابو یا عوام؟ یہ ملک انتخابی طریقہ کار سے 1946ءکے انتخابات میں ووٹ ڈال کر عوام نے حاصل کیا تھا کیا جو سیاستدان اس پر حقِ حکمرانی جتاتے ہیں؟ یا پھر جرنیلوں نے جنگ جیت کر پاکستان فتح تھا، یا ججوں نے عدالتی حکم صادر کر کے ملک آزاد کرایا تھا، یا پھرکمشنر صاب بہادر نے دفعہ 144لگا کر پاکستان کی بنیاد رکھی تھی؟ ایک دفعہ میں غلطی سے اس حکمراںتکون کے ایک جیالے سے بحث میں الجھ پڑا، اس نے ایسے ایسے سوال کئے کہ مجھے تو چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔

پوچھنے لگا جب پنجاب دو لخت ہوا تھا تو لاکھوں کی تعداد میں جانیں عوام نے دی تھیں کیا؟ ہزاروں عصمتیں عوام کی لٹی تھیں کیا؟ اپنا گھربار، روزی روٹی، سامان، جائیداد چھوڑ کر ہجرت عوام نے کی تھی کیا؟ اب عوام حقِ حکمرانی کس منہ سے مانگتے ہیں؟ کس منہ سے جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہیں؟ ان صاحب نے صاف کہہ دیا کہ عوام کو اپنے حقِ حکمرانی سے دستبردار ہو جانا چاہئے۔ اس ملک کو یہی حکمراں تکون انگریز دور میں چلا رہی تھی، تقسیم کے بعد یہی حکمراں تکون پچھلے ستر سال سے ملک چلا رہی ہے اور آئندہ ستر سال بھی یہی تکون ملک کو چلائے گی۔ آمریت اس قوم کا مستقبل ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ کنٹرولڈ جمہوریت۔

پیارے جی بی! آپ کا کہنا ہے کہ پارلیمان میں نمائندگی کے بغیر ٹیکس کیسا؟ آپ کی شکایت ہے کہ آئین سازی اور قانون سازی میں شراکت سے کیوں محروم رکھا گیا اب تک؟ آپ کو پاکستان کا صوبہ بننے کا شوق ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ مجھے تو پارلیمان میں نمائندگی بھی حاصل ہے، مجھے قانون سازی کا حق بھی ہے، میں تو ایک صوبہ بھی ہوں لیکن کیا یہ سب کچھ ہونے سے میں آزاد ہوں؟ کیا مجھے میرے آئینی، سول اور انسانی حقوق میسر ہیں؟ کیا مجھ پر ٹیکس میری مرضی سے لگتا ہے؟ آپ کا گِلہ ہے کہ انتظامی افسران باہر سے آتے ہیں، جج باہر سے آتے ہیں، اصل کنٹرول اسلام آباد کے ہاتھ میں ہے۔

آپکی تقدیر کے فیصلے آپکے عوام کے ہاتھ میں نہیں ہیں بلکہ یہ فیصلے باہر بیٹھے چند غیر منتخب افراد کرتے ہیں، آپکا گِلہ جائز ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنے حقوق کی جنگ لڑنا چھوڑ دیں، میں یہ کہہ بھی نہیں سکتا کہ میں خود اپنے اور اپنے شہریوں کے حقوق کی جنگ اب تک لڑ رہا ہوں لیکن مجھے اتنا کہنے کا حق تو ہے کہ تم مجھے نا حق الزام نہ دو۔ سندھیوں، بلوچوں، مہاجروں، کشمیریوں، گلگتیوں اور بلتستانیوں کی طرح میرے شہری بھی مرحوم ہیں، میں بھی آئینی، شہری اور انسانی حقوق مانگ رہا ہوں، میں بھی اپنے عوام کے لئے حقِ حکمرانی کا سوال اٹھا رہا ہوں، مجھے بھی جمہوریت کی تمنا ہے، میں بھی غیر منتخب، غیر نمائندہ اور غیر جوابدہ فیصلہ سازی کا ستایا ہوا ہوں۔ میں تو صرف اتنا کہتا ہوں کہ مجھ سے دل کھٹا نہ کرو۔

میری تو بس ایک ہی خواہش ہے کہ سندھی، بلوچی، پشتون، مہاجر، کشمیری، گلگتی اور بلتستانی مجھے بھی اپنی جدوجہد میں شمار کریں۔ میری استدعا بس اتنی ہے کہ ہماری منزل ایک ہے، ہمارے ستم گر ایک ہیں، ہماری جدوجہد ایک ہے تو ہماری آواز بھی ایک ہونی چاہئے۔ ہمیں جدوجہد بھی مل کر کرنی چاہئے۔ ہمارے ستم گر ہمیں ایک دوسرے سے لڑا کر ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں، ہمارے حقوق غصب کرنے والوں نے ہمارے دل ایک دوسرے کے خلاف تعصب سے بھر دیئے ہیں۔ ہم جتنی جلدی یہ سب سمجھ لیں، ہمارے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ حقیقی جمہوریت کی اس جدوجہد میں ہمیں قدم سے قدم ملا کر چلنا ہو گا۔والسلام…آپ کا خیر اندیش، صوبہ پنجاب، پاکستان

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے