نئے سال سے میری توقعات

دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ نئے سال کا خیرمقدم مثبت توقعات سے کروں ۔تھوبڑا اچھا نہیں تو کم ازکم بات ہی اچھی کر لوں اور رخصت ہوتے برس کے آخری دن کوئی گھٹیا صحافتی لچ تلنے سے باز رہوں۔ یہ کوئی آسان چیلنج نہیں۔ پھر بھی کوشش میں حرج نہیں۔
اگرچہ سر پے تین ہزار واٹ کا احتسابی بلب روشن رہے گا، کانوں کے قریب نصب لاؤڈ سپیکرز کا سر پھاڑ شور دماغ ماؤف رکھے گا، پیٹھ پر دھرنوں کے چھتر مسلسل پڑتے رہیں گے۔پھر بھی توقع ہے کہ قلتِ نیند سے ٹوٹی مسلم لیگی حکومت جیسے کیسے گھسٹتی آئینی مدت پوری کر لے گی۔

اس برس عمران خان شیخ رشید سے پاک کم از کم ایک جلسہ ضرور کریں گے، دو جلسوں میں عمران خان غصے میں آئے بغیر تقریر کریں گے، تین جلسوں میں وہ دورانِ خطاب طنزیہ کے بجائے دل سے ہنسیں گے اور کم از کم ایک پریس کانفرنس ضرور ایسی ہوگی جس میں چور، ڈاکو ، گدھے ، ضمیر فروش ، مافیا ، ریلو کٹا اور شریف برادران وغیرہ جیسے الفاظ ان کے منہ سے نہیں جھڑیں گے۔

چونکہ یہ انتخابات کا سال ہے اس لیے یہ توقع بے جا نہیں کہ والدِ محترم آصف زرداری اور پھوپھی فریال مغرب کی اذان تک بلاول کو گھر سے باہر کھیلنے کی اجازت دینا شروع کر دیں گے اور بلاول کو ہفتے میں کم ازکم ایک بار اپنے ہم عمر دوستوں کو گھر پر مدعو کرنے اور ڈرائنگ روم میں بٹھانے اور ہنسنے بولنے کی بھی آزادی ہوگی۔

انتخابات جب بھی ہوں امید ہے کہ اس بار عورتوں کو کسی بھی بہانے یا رواج کی آڑ میں ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا اور الیکشن کمیشن انتخابی فہرستوں سے غائب ایک کروڑ عورتوں میں سے بیشتر کو تلاش کر کے ان کے ناموں کا اندراج کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

انتخابی فہرست سے ایک کروڑ عورتیں غائب ہونے پر یاد آیا کہ سال دو ہزار سترہ میں بھی پاکستانی شہریوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔توقع ہے کہ نئے برس میں پہلے سے کم شہری لاپتہ ہوں گے۔ جو غائب ہیں ان میں سے کم ازکم نصف اپنے گھروں کو صحیع سلامت لوٹ آئیں گے یا ان پر باقاعدہ فردِ جرم عائد ہوگی۔توقع ہے عدالتوں کو سال دو ہزار اٹھارہ میں ہائی پروفائیل سیاسی مقدمات سننے کی مشق سے کچھ وقفہ مل جائے گا تاکہ عام پاکستانیوں کے زیرِ التوا انیس لاکھ مقدمات اگر کم نہ بھی ہو سکیں تو تعداد میں مزید اضافہ نہ ہو۔
مجھے پوری امید ہے کہ فنِ خطابت کی طاقت سے خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد میں ڈھالنے والے اور فاٹا کے عوام کے سنہری مستقبل کی خاطر ماہی بے آب سے تڑپنے والے حضرت مولانا فضل الرحمان اس بار بھی اصولی موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹتے ہوئے اچانک اعلان کریں گے ‘جا فاٹا جا ، جی لے اپنی زندگی۔’ برائے کرم میری روحانی خوش امیدی کا مادی سبب جاننے پر اصرار نہ کیا جاوے۔

سال دو ہزار اٹھارہ میں پرویز مشرف کم از کم ایک بیان ایسا ضرور دیں گے کہ دوست دشمن بے ساختہ پکار اٹھیں ‘واہ کیا عقل کی بات کی ہے۔’قوی امید ہے کہ اس سال قومی مفاد کی محافظ اسٹیبلشمنٹ بھارت، افغانستان ، امریکہ ، چین، ایران اور خلیجی ریاستوں سے تعلقات کے بارے میں پاکستانی دفترِ خارجہ سے حساس معلومات شیئر کرنے کی روایت ڈالے گی اور اندرونی حالات کی بابت وزارتِ داخلہ کو بھی اعتماد میں لینا شروع کرے گی۔توقع ہے بھارتی اور پاکستانی میڈیا سال دو ہزار سترہ میں ناشائستگی کی حدود پار کرنے کے منفی سیاسی و سماجی اثرات کے ازالے کے لیے دو ہزار اٹھارہ میں شائستگی کی تمام حدود پار کر جائے گا۔
ہیپی نیو ایئر۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے