کیا گلگت بلتستان میں‌ احتجاجوں کے پیچھے انڈیا ہے؟

جعرافیائی طور پر گلگت بلتستان اپنے اطراف میں چار ممالک (پاکستان، چین، انڈیا اور افغانستان جن میں سے تین ایٹمی طاقتیں ہیں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت چین کا ون بیلٹ ون روٹ منصوبے کے تحت چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اسی متنازعہ خطے سے گزر رہا ہے۔راہداری کے ذریعے چائنہ کو پاکستان سے ملانے کے لیے اس علاقے سے پانچ سو کلومیٹر سے زائد کا راستہ طے ہوگا۔ سنگلاخ پہاڑی سلسلے میں سی پیک کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔ مگر اس اہم منصوبے کے نہ کسی اہم بین الممالک اجلاس میں گلگت بلتستان کو سٹیک ہولڈر کے طور پر حیثیت دی گئی اور نہ ہی یہاں باقی صوبوں کی طرح منصوبے لگائے جا رہے ہیں۔ جو لوگوں کے احساس محرومی کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔

گلگت بلتستان میں‌کوئی ایک بھی بڑا ہاسپتال نہیں، حتی کہ بعض علاقوں‌میں‌بنیادی صحت کی سہولیات بھی مفقود ہیں. لوگ سردیوں‌میں‌ کئی کئی دن اور گھنٹے چل کر مریضوں کو اپنے کندھوں یا لکڑی کی سیڑھیوں پر باندھ کر شہر کی طرف علاج کے لیے لے کر آتے ہیں. بہت سی وادیوں میں‌سڑک اور بجلی کی سہولیات بھی نہیں، جبکہ گلگت اور سکردو کے شہر اور مضافاتی علاقوں‌ میں‌ شدید لوڈشیڈنگ ہوتی ہے. 2002میں قراقرم یونی ورسٹی بننے تک علاقے میں ایک بھی قابل ذکر اعلیٰ تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ جبکہ ابھی بھی کوئی میڈیکل کالج، انجیئرنگ کالج سمیت کوئی بھی پروفیشنل ادارہ، تحقیق، زراعت اور معدنیات کے لیے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔

انسانی حقوق کی پامالی کا معاملہ بھی انتہائی سنگین ہے۔ قانون و انصاف کی فراہمی کے لیے موجود نظام جس چیف کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹ اور سیشن کورٹ شامل ہیں بہت ہی ناقص، سست اور ریاستی دباؤ سے متاثر ہے اور علاقے میں عوام کے لیے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ قانون و انصاف کے کمزور اور طرفدار نظام کے باعث علاقے میں میں ہزاروں ایکڑ اراضی پر بلا معاوضہ پاکستان کے سول و عسکری اداروں کا قبضہ کرنا، آزادی اظہار پر قدغن لگاتےہوئے سیاسی مسائل و حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے دسیوں سماجی کارکنوں کو جھوٹے مقدمات میں پابند سلاسل کرنا اس کی چند واضح مثالیں ہیں۔ ان مسائل پر انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی کئی رپورٹوں میں تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

گلگت بلتستان میں جرائم اور سماجی برائیوں کی شرح تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے جیلیں ان لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جو علاقے کی سیاسی خودمختاری کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ ان سب لوگوں پر اس آئین سے "غداری” کے مقدمات درج ہیں جس کے دائرے میں گلگت بلتستان شامل ہی نہیں ہے۔

نیز یہاں قانون و انصاف کی "بالا دستی” کا یہ عالم ہے کہ حالیہ احتجاجی تحریک چلانے والے پچاس متحرک قائدین و منتظمین سمیت پچھلے احتجاجوں کے درجنوں متحرک لوگوں پر نیشنل ایکشن پلان اور "انسداد دہشت گردی” کی دفعات تحت ایف آئی آر درج کیے گئے ہیں بھلے انہوں نے ایک پتہ بھی نہ توڑا ہو۔ ان کا واحد جرم حقوق کے لیے سوال اٹھانا ہے۔

نوکریوں سے برخاست، تنخواہیں روکنا، دور دراز علاقوں میں تبادلہ اور محکموں کا فنڈز روکنا، ترقیاتی منصوبوں پر کام روک دینا تو معمول کی بات ہے۔

مقامی وزراء کے سیاسی شعور اور پختگی اور عوام دوستی کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے کئی مرتبہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کو دہشت گردی، غداری، ملک دشمنی، بھارت کا ایجنٹ قرار دینے کے بیانات جاری کیے۔ اپنی سیاسی ضرورت کے تحت وہ علاقے میں‌ فرقہ وارانہ، لسانی اور نسلی تعصب کو ہوا دیتے رہتے ہیں.

عدالتوں‌کا بنیادی کام آئین کی تشریح کرتے ہوئے لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے مگر آئین پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا آئینی حصہ تسلیم ہی نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود گلگت بلتستان میں آئین پاکستان اور تعزایرات پاکستان اور پاکستانی قوانین کے مطابق ہی فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان کا اطلاق بھی ہوتا ہے مگر اس کے برعکس یہاں کے کورٹس کے فیصلوں کا اطلاق پاکستان کے شہریوں پر بھی نہیں ہوتا جس کے کئی نظائر موجود ہیں۔

چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں پبلک سروس کمیش نہ ہونے کے باعث کلیدی عہدوں کے لیے غیر مقامی اور نچلے گریڈ کی ملازمتوں کے لیے مقامی افراد کا کوٹہ مختص کرنے کے مسائل تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔

سن اکہتر اور اٹھانوے کی جنگوں سے متاثر ہونے والے سرحدی مہاجرین کے لیے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے باعث سینکڑوں مہاجرین بے گھر ہو کر در بدر ہو رہے ہیں۔ واہگہ بارڈر اور آزاد کشمیر بارڈر پر سرحد کی دونوں طرف تجارت بھی اور آمد و رفت بھی جاری ہے مگر بلتستان کے سرحدی علاقے کھرمنگ کرگل بارڈر مکمل طور پر تجارت و آمد و رفت کے لیے بند ہے جس کے باعث آزادی اور جنگوں کے دوران بچھڑنے والے دونوں‌طرف موجود خاندان کے پاس، پاس ہی پار بیٹھے اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے کوئی راہ نہیں‌۔

سوست بارڈر کے محصولات سمیت تمام اہم محاصل وفاق لے جاتا ہے جبکہ شاہراہ قراقرم، دریائے سندھ، دیامر بھاشا ڈیم اور سالانہ لاکھوں بین الاقوامی سیاحوں سے لیے جانے والے ریوینو سے گلگت بلتستان کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا جبکہ متنازعہ علاقے ہونے کے باعث ان سب پر اولین حق علاقے کا ہی بنتا ہے۔ حالانکہ ان سارے وسائل کا باقاعدہ رائلٹی علاقے کو ملنی چاہیے۔

حالیہ احتجاج کی شدت کی بنیادی وجہ یہی وہ سارے عوامل ہیں جو علاقے کے احساس محرومی میں اضافہ کرنے اور لوگوں کے غم و غصے کو بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔ وفاق کو گلگت بلتستان کی داخلی خود مختاری کے لیے فوری طور پر سیاسی اصلاحات کے عمل کو تیز کر کے اس حساس سرحدی اور تزویراتی علاقے کو مستحکم کرنے میں ستر سال گزرنے کے باوجود مزید تاخیری حربوں سے کام نہیں لینا چاہیے، کیونکہ خظے کی تعمیر و ترقی کے لیے اہم ترین عنصر سمجھا جانے والی چین پاکستان اقتصادری راہداری مضبوط و مستحکم اور پُرامن گلگت بلتستان میں ہی مضمر ہے۔

گلگت بلتستان کی دو ملین سے زائد آبادی کی تقریبا ایک تہائی تعلیم اور روزگار کے سلسلے میں‌ اس جنت نظیر علاقے کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور وہ اب مختلف آلودگی سے بھرپور شہروں‌ میں جا بس رہی ہے. لہذا عوامی حقوق کے لیے کیے جانے والے ہر احتجاج اور تحریک کو سازش کے کھاتے میں ڈال کر پاکستان کے کسی بھی آئینی صوبے سے بڑھ کر اس کے لیے ہزاروں افراد کی قربانی دینے والے علاقے کی بے لوث محبت و وفاداری پر سوال اٹھانے کے بجائے بنیادی انسانی حقوق سے متعلق گلگت بلتستان کے سنجیدہ مسائل کو فوری حل کرے۔ پاکستان کو دستاویزی فلمیں‌بنانے کے لیے گلگت بلتستان کے صرف وسائل اور خوبصورتی سے دلچسپی رکھنے کے علاوہ یہاں بنیادی مسائل و حقوق پر توجہ دینی ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے