کیا پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ میں ‘سرفراز’ ہو سکے گی؟

اگر 2017 چیمپیئنز ٹرافی کی فتح کا سال تھا تو 2018 گزشتہ 12 ماہ میں حاصل ہونے والے اعزازات کے دفاع کا سال ہو گا۔ سرفراز کی زیر قیادت اور مکی آرتھر کی کوچنگ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والی پاکستانی ٹیم کا 2018 میں پہلا امتحان نیوزی لینڈ کی ٹیم لے گی۔ پانچ ون ڈے اور تین ٹی20 میچوں کی سیریز میں کین ولیمسن کی ٹیم یقینی طور پر اپنے ہوم گراؤنڈ پر پاکستان کی صلاحیتوں کا بھرپور امتحان لے گی۔ دونوں ٹیموں کے کھیل کو دیکھتے ہوئے اس سیریز کو جارحیت بمقابلہ جارحیت سے تعبیر کیا جا رہا ہے، تو آئیے 2018 کے آغاز میں شروع ہونے والی اس دلچسپ سیریز کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

[pullquote]تاریخ میں کیویز کا پلڑا بھاری[/pullquote]

آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں کیویز ناصرف پاکستان سے ایک درجہ آگے موجود ہیں بلکہ تاریخ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران نیوزی لینڈ کا پاکستان پر پلڑا بھاری رہا ہے۔

نیوزی لینڈ اور پاکستان کی ٹیمیں 1973 سے ایک دوسرے سے کھیلتی آ رہی ہیں۔ 45 سال کا مجموعی ریکارڈ پاکستان کی برتری کی عکاسی کرتا ہے لیکن اگر ان ریکارڈز کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اعدادوشمار میں پاکستان کو نیوزی لینڈ پر حاصل برتری دراصل 1990 کی دہائی میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے اسٹارز کے سنہرے دور کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے پاکستان کو متعدد شاندار فتوحات سے ہمکنار کرایا۔

اس وقت پاکستان کے پاس ایک ایسی ٹیم تھی جو مقام اور کنڈیشنز سمیت کسی بھی بات سے قطع نظر کسی بھی طرح کے حالات میں میچ جیت سکتی تھی۔ ان میں سے ایک 1994 میں ایڈن پارک میں کھیلا گیا یادگار میچ ہے۔ 161 رنز کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان شکست کی دہلیز تک پہنچ چکا تھا اور نیوزی لینڈ کو فتح کیلئے صرف 20 رنز درکار تھے۔ چھ وکٹیں ہاتھ میں ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دو سیٹ بلے باز وکٹ پر موجود تھے۔ 19 رنز بعد یہ میچ ٹائی پر ختم ہوا۔ یہ 1990 کی دہائی کی پاکستانی ٹیم تھی اور نیوزی لینڈ کی ٹیم مبہوت رہ گئی تھی۔

1990 کی دہائی میں دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے 31 میچوں میں سے 23 میں فتح نے گرین شرٹس کے قدم چومے۔ بے شک یہ ایک انتہائی شاندار ریکارڈ ہے لیکن سِکے کا دوسرا رخ تلخ حقیقت کی منظر کشی کرتا ہے۔ اگر دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے ان میچوں کو مجموعی ریکارڈ سے نکال دیا جائے تو ریکارڈ یکدم کیویز کی برتری کی عکاسی کرتا نظر آئے گا (پہلا ٹیبل دیکھیں)۔ اس سے انکشاف ہوتا ہے کہ 90 کی دہائی میں قومی ٹیم کی شاندار کارکردگی نے دراصل نیوزی لینڈ کے خلاف واجبی سی کارکردگی پر پردہ ڈال دیا تھا۔

لہٰذا یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں کہ حالیہ عرصے میں نیوزی لینڈ کا پلڑا بھاری رہا ہے۔ 2010 کے بعد سے دونوں ٹیمیں 16 مرتبہ مد مقابل آئیں جس میں سے پاکستانی ٹیم صرف پانچ میچز جیتنے میں کامیاب رہی۔ یہ ریکارڈ نیوزی لینڈ کی سرزمین پر مزید بدترین شکل اختیار کر جاتا ہے جہاں پاکستان کو بغیر کوئی میچ جیتے گزشتہ دونوں ون ڈے سیریز میں شکست ہوئی۔

[pullquote]سرفراز الیون پر ایک نظر[/pullquote]

یہ بات ابھی تک بحث طلب ہے کہ کیا پاکستان تقریباً گزشتہ ایک دہائی سے پرانے اور 90 کی دہائی کی کرکٹ کھیل رہا ہے؟ سرفراز احمد کی قیادت کے منصب پر ترقی کے بعد سے چیزوں میں تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے جہاں باصلاحیت کھلاڑیوں پر مشتمل نوجوان کھلاڑیوں کی تکنیک اور کھیل کے انداز میں واضح بہتری نظر آئی۔ ڈسپلن کے اصول پر کاربند کوچ مکی آرتھر چاہتے ہیں کہ کھلاڑی فٹ رہیں اور ٹیم میں اپنے کردار سے آگاہ رہ کر وہ کارکردگی دکھائیں جس کی ان سے تووقعات وابستہ کی گئی ہیں۔ پاکستان کرکٹ کے مزاج اور ثقافت میں یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

نیوزی لینڈ سے سیریز کیلئے منتخب کردہ ون ڈے اسکواڈ زیادہ تر نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جو جارح مزاج اور دلچسپ کرکٹ کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ٹیم کے مزاج میں اس تبدیلی کے نتائج بھی فوری طور پر آنا شروع ہو گئے۔ 2017 میں پاکستان نے 18 میچز کھیلے جن میں سے 12 جیتے اور سال کا اختتام 66.66 فیصد کی عمدہ اوسط کے ساتھ کیا۔ یہ شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک انتہائی بہتر کارکردگی کی عکاسی کرتی ہے جہاں 2016 میں قومی ٹیم کی کامیابی کی اوسط 45.45 رہی۔

۔
۔
نیوزی لینڈ کے سابقہ دوروں میں عمومی طور پر پاکستان کی بیٹنگ ہی اس کی سب سے بڑی کمزوری رہی ہے۔ ٹیم کو کنڈیشنز کے مطابق خود کو ڈھالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیم کو ایک مرتبہ پھر یہی چیلنج درپیش ہو گا لیکن اگر 2017 کی کارکردگی کو سامنے رکھا جائے تو اس مرتبہ ہم دونوں ٹیموں کے درمیان بھرپور مسابقت کی امید رکھ سکتے ہیں۔ موجودہ کرکٹ میں بابراعظم دنیا کے چند بہترین ون ڈے کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے وہ عمدہ کھیل پیش کر رہے ہیں اور اپنی بیٹنگ صلاحیتوں کو نکھارتے ہوئے وہ پاکستانی بیٹنگ کے سرخیل بن گئے ہیں۔ گزشتہ سال شعیب ملک اور فخر زمان نے بھی بلے بازی کا عمدہ مظاہرہ کیا اور یہ وہ کھلاڑی ہیں جن کے بڑے شاٹس کھیلنے کی صلاحیت کی وجہ سے ٹیم بڑے ہدف کے حصول کیلئے ان کے کاندھوں پر بھروسہ کر سکتی ہے۔

پاکستان کے پاس چند اچھے آل راؤنڈرز بھی موجود ہیں جو باآسانی بڑے شاٹس کھیل سکتے ہیں۔ انجری کے سبب عماد وسیم کے دورہ نیوزی لینڈ سے باہر ہونے کے باوجود فہیم اشرف ٹیم کے ہمراہ ہیں جن کے پاس ان کنڈیشنز میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا پورا موقع ہے جو ان کے باؤلنگ کے انداز کے لیے انتہائی موزوں ہیں۔ تاہم بیٹنگ کی زیادہ تر ذمہ داری بابر اعظم اور شعیب ملک کے کاندھوں پر ہو گی۔

نیوزی لینڈ میں کنڈیشنز میں عموماً فاسٹ باؤلرز کے لیے زیادہ سازگار ہوتی ہیں اور پاکستان کے پاس اب ایک ایسی شاندار باؤلنگ لائن اپ موجود ہے جو ان کنڈیشنز کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ ٹیم کی بینچ بھی بہت مضبوط ہے جس کی بدولت روٹیشن پالیسی کو اپنا کر کھلاڑیوں کو انجری سے بچاتے ہوئے مختلف کامبی نیشن میں آزمایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ سال 17.04 کی اوسط سے 45 وکٹیں لینے والے حسن علی ایک مرتبہ پھر سب کی نگاہوں کا محور ہوں گے جبکہ سوئنگ کیلئے موزوں ان کنڈیشنز میں محمد عامر بھی بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کی بیٹنگ میں بابر اعظم ایک مرتبہ پھر امیدوں کا محور ہوں گے۔
پاکستان کی بیٹنگ میں بابر اعظم ایک مرتبہ پھر امیدوں کا محور ہوں گے۔
اسپن کے شعبے میں نوجوان شاداب خان 2017 کی دریافت ثابت ہوئے۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ہر خاص و عام کو متاثر کرنے کے بعد وہ جلد ہی قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور سال کا اختتام ٹی20 میں پاکستان کے بہترین باؤلر کی حیثیت سے کیا۔

[pullquote]کین ولیمسن کی نیوزی لینڈ ٹیم[/pullquote]

نیوزی لینڈ کی اس ٹیم کی کامیابی کی کنجی ان کی تجربہ کار بیٹنگ لائن اپ کے پاس ہے جس کی قیادت موجودہ عہد کے بہترین بلے بازوں میں سے ایک کین ولیمسن کر رہے ہیں۔ روس ٹیلر، مارٹن گپٹل اور ٹام لیتھم وہ دیگر بلے باز ہیں جنہوں نے پورے سال مستقل مزاجی سے کارکردگی دکھائی لیکن اس کے باوجود 2017 میں نیوزی لینڈ کی ٹیم اپنے صرف 50 فیصد میچز جیت سکی (ٹیبل 2 دیکھیئے)۔

تاہم نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کین ولیمسن اور روس ٹیلر کو حاصل ہے جہاں پاکستان کے خلاف ان دونوں ہی کھلاڑیوں کا ریکارڈ انتہائی شاندار ہے۔ ولیمسن اس وقت عمدہ فارم میں ہیں اور نیوزی لینڈ کی مضبوط اور جارح مزاج بیٹنگ لائن کے سب سے اہم رکن ہیں۔ کیویز کو چند بہترین آل راؤنڈرز کا ساتھ بھی حاصل ہے جس سے ان کی بیٹنگ اور باؤلنگ دونوں میں گہرائی بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً کولن منرو نے گزشتہ سال شاندار کھیل پیش کیا اور تقریباً 170 کے اسٹرائیک ریٹ سے بیٹنگ کرتے ہوئے مجموعی طور پر دو سنچریاں اسکور کیں جبکہ انہوں نے 2018 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں اپنے کیریئر کی تیسری سنچری اسکور کی۔

پاکستان کی بیٹنگ کو نیوزی لینڈ کے باؤلرز کے سخت چیلنج کا سامنا ہوگا، ہوم کنڈیشنز میں خصوصاً ٹِم ساؤدھی اور ٹرینٹ بولٹ اپنی رفتار اور سیم موومنٹ سے بہت خطرناک ثابت ہوں گے جبکہ گزشتہ سال اسپنر اِش سودھی کیلئے بھی بہت سازگار رہا۔

[pullquote]جارحیت بمقابلہ جارحیت[/pullquote]

دونوں کپتان سرفراز احمد اور کین ولیمسن ایک ہی انداز میں کرکٹ کھیلنے پر یقین رکھتے ہیں اور وہ ہے جارح مزاجی۔

جارح مزاجی کی بدولت پاکستان نے چیمپیئنز ٹرافی 2017 جیتنے کا اعزاز حاصل کیا اور کین ولیمسن کو کھیل کا یہ انداز اپنے سابق کپتان برینڈن میک کولم سے میراث میں ملا۔ دونوں ہی کپتان مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور حریف کو دوسرا موقع نہ دینے پر یقین رکھتے ہیں۔ تاہم اگر چھٹے نمبر پر موجود پاکستان سیریز میں 5-0 سے کلین سوئپ کرتا ہے تو بھی آئی سی سی کی ون ڈے رینکنگ میں پانچویں نمبر پر موجود نیوزی لینڈ کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہو گا۔ نیوزی لینڈ کے ریٹنگ پوائنٹس 112 جبکہ نیوزی لینڈ سے چھ میچ کم کھیلنے والی پاکستان کی ٹیم کے ریٹنگ پوائنٹس 99 ہیں۔

دوسری جانب ٹی20 سیریز میں شائقین کو انتہائی دلچسپ صورتحال دیکھنے کو ملے گی جہاں شائقین کو دنیا کی صف اول کی دو ٹیموں کو نبرد آزما ہوتے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم حال ہی میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ کر عالمی نمبر ایک ٹیم بنی ہے اور پاکستان کی ٹیم دوسرے نمبر پر موجود ہے۔ اس سے قبل پاکستان نے نیوزی لینڈ کو ہی پیچھے چھوڑتے ہوئے گزشتہ سال کا اختتام ٹی20 کی عالمی نمبرایک ٹیم کی حیثیت سے کیا تھا۔ ٹی20 کی بات کی جائے تو 2017 پاکستان کیلئے بہت شاندار رہا جہاں 2016 میں 53.33 کی اوسط کے مقابلے میں 2017 میں ٹیم کی فتح کی اوسط 80 فیصد رہی۔

نیوزی لینڈ کی ٹیم دونوں فارمیٹس میں مضبوط اور متوازن نظر آتی ہے اور انہیں ہوم گراؤنڈ پر شکست دینے کیلئے کچھ خاص کرنا ہو گا۔ اس سے قبل پاکستان کے اسکواڈ میں شامل بہت کم کھلاڑیوں نے نیوزی لینڈ کا دورہ کیا ہے تاہم نوجوان اور ناتجربہ کار ٹیم کے کھلاڑیوں کیلئے یہ پہلو مثبت ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان پر ماضی میں نیوزی لینڈ آنے والی ٹیم کی ناکامیوں کا دباؤ نہیں ہو گا۔ سیریز کا نتیجہ چاہے جو بھی ہو لیکن اس دورہ نیوزی لینڈ کی بدولت یہ نوجوان ٹیم ایک قدم اور آگے بڑھ سکے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے