سید عمار نقشوانی کس کے ایجنٹ؟

[vc_row][vc_column][vc_column_text]معروف اسلامی سکالر سید عمار نقشوانی صاحب سے ہمارا کوئی تعلق ہے نہ ہی ان سے ابھی تک ملے ہیں اور نہ ہی ان کو اتنا سنا ہے کہ ان کے خیالات و نظریات کے بارے میں کوئی نقد کریں۔ عام طور پر میں‌شخصیات کو اپنے کالم یا مضامین کے لیے موضؤع بھی نہیں بناتا، البتہ ان کے خلاف جاری نفرت انگیز مہم کا تعاقب کرنا ہم نے دو وجہ سے ضروری سمجھا، ایک یہ کہ پاکستان سے بہت سارے دوستوں نے اس حوالے سے استفسار کیا ہے جن کے سوالات و خدشات کا جواب دینے کی اس مضمون میں‌ ضمنی طور پر کوشش کی گئی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ایسی مہم کی حوصلہ شکنی کرنا مقصود ہے جس میں ہر ابھرتے دانشور کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ یہ صرف عمار نقشوانی نہیں ہیں جن کے خلاف ایسی نفرت انگیز مہم چلی ہو بلکہ اس کے زد میں ہر مختلف رائے رکھنے والا آتا جا رہا ہے۔ اہل علم کے خلاف ایسی اشتعال انگیز مہم چلانے والے بھی نفرت و شدت کے اسی طرح کے سوداگر ہیں جیسی شدت پسند تنظیمیں۔

[pullquote]عمار نقشوانی کون ہیں؟[/pullquote]
38 سالہ سید عمار نقشوانی عراق کے تارک الوطن برطانوی شہری ہیں۔ وہ عراق کے ایک موسوی سادات کے ایک مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو برطانیہ میں بستا ہے۔ برطانیہ میں گریجویشن تک کی تعلیم کے بعد شہید بہشتی یونی ورسٹی تہران ایران سے انہوں نے ماسٹر اور ایکزیٹر یونی ورسٹی برطانیہ سے انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ انہوں نے کچھ سال شام میں (خانہ جنگی سے پہلے) حوزہ علمیہ زینبیہ دمشق سے روایتی دینی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ امریکہ کی ہارٹفرڈ سیمینری (یونی ورسٹی) اور کولمبیا یونی ورسٹی اور برطانیہ کی کیمبریج یونی ورسٹی میں اسلامی علوم اور معاصر موضوعات پر تدریس و تحقیق کرتے رہے ہیں۔ وہ چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

سید عمار نقشوانی کو مغربی ممالک کی نئی نسل میں بہت مقبولیت حاصل ہے، لاکھوں مسلم و غیر مسلم جو ان کو بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بھی وہ وقتا فوقتا انٹرویوز دیتے ہیں۔ حالیہ سالوں میں داعش کے خلاف سید عمار نقشوانی بین الاقوامی میڈیا میں بڑی مضبوط مسلم آواز کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان کا نام پچھلے کئی سالوں سے دنیا کے 500 موثر ترین شخصیات کی فہرست میں شامل ہے۔ وہ مختلف بین الاقوامی اسلامی تنظیموں اور علمی انجمنوں کے رکن بھی ہیں۔ وہ بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کی کوششوں کے حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں مقیم شدت پسند شیعہ عالم یاسر الحبیب کی نفرت انگیز اور دل آزار مہم کو سختی سے مسترد کرنے والی توانا آواز بھی وہ ہیں۔ وہ ہر سال مختلف ممالک میں رمضان المبارک اور محرم الحرام میں باقاعدہ مجالس و محافل سے خطاب کرتے ہیں۔ ان کی تقاریر کے ویڈیوز انٹرنیٹ پر بہت مقبول ہیں۔
وہ دنیا کے مختلف ممالک میں لیکچرز دینے اور خطاب کرنے جاتے ہیں، چنانچہ پچھلے ہفتے وہ پاکستان بھی آئے ہوئے تھے جہاں انہوں نے کراچی اور اسلام آباد کے مختلف اداروں اور مراکز میں خطاب کیا اور میڈیا کو انٹرویوز دیے۔ انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل، جامعۃ الکوثر اسلام آباد سمیت مختلف یونی ورسٹیوں اور اداروں میں علمی نشستوں میں مغرب اور اسلام سے متعلق مختلف موضوعات پر لیکچرز دیے۔

[pullquote]سید عمار نقشوانی کے خلاف مہم کون چلا رہے ہیں؟[/pullquote]
سید عمار نقشوانی کے پاکستان میں‌ اس دورے کے بعد پاکستان میں دو طرح کے لوگوں نے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانا شروع کیا۔ مگر بظاہر دونوں طبقات سطحی بنیادوں پر ان پر معترض ہیں۔ ایک وہ طبقہ جو مغرب دشمنی یا مسلکی عینک لگا کر ان پر معترض ہیں دوسرا طبقہ ‘‘سپر انقلابی‘‘ لوگ ہیں ۔ اس پروپیگنڈے میں ان کی نجی معاملات کو بھی اچھال رہے ہیں جس میں مختلف بین المذاہب پروگراموں میں ان کی دیگر مذاہب کے لوگوں سے ملاقاتوں، یونی ورسٹیوں میں جا کر ’’بے حجاب‘‘ لڑکیوں کے ساتھ ان کی تصاویر اور ان کے بازوں پر بنے ٹیٹوز پر اعتراضات شامل ہیں۔

[pullquote]ان پر اعتراضآت کیا ہیں؟[/pullquote]
[pullquote]پہلا اعتراض: بازوؤں پر ٹیٹوز[/pullquote]
ان پر کیے جانے والے چند بنیادی اعتراضات میں سر فہرست ان کے بازوں پر بنے ہوئے ٹیٹوز ہیں۔ واضح رہے کہ یورپ، امریکہ، اسٹریلیا وغیرہ کی سوسائٹی میں یہ عام سی بات ہے اور لڑکے لڑکیاں ٹیٹوز اسی طرح بناتے ہیں جیسے مہندی لگانے یا بال رکھنے یا کٹوانے کے مختلف سٹائلز بنا لیتے ہیں، ٹیٹوز ایک دفعہ بنوانے کے بعد شاید یہ نہیں مٹتے، اس لیے اگر کسی لڑکے نے لڑکپن یا جوانی میں بنا لیے ہوں تو غالباً باقی زندگی میں بھی وہ جسم پر باقی رہ جاتے ہیں۔ اس کو بنیاد بنا کر ان پر مغربی اقدار کو فروغ دینے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اس مسئلے کو سماجی تظاہر کے طور پر دیکھا جائے۔ فقہی طور پر ایک مسلمہ اور جنرل اصول یہ ہے کہ جس چیز کے حرام ہونے پر کوئی شرعی دلیل نہ ہو اسے حرام نہیں قرار دیا جا سکتا۔ یعنی چیزیں اپنی اصل میں اباحت اور حلیت رکھتی ہیں جب تک ان کی حرمت پر شرعی دلیل قائم نہ ہو۔ اگر کوئی دیگر اصول متصادم نہ ہو تو اس عمومی اصول کے پیرائے میں ٹیٹوز کی حلیت و حرمت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ البتہ اس پر صاحبان علم و فقہ ہی صائب رائے دے سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معاملہ مذہبی سے زیادہ سماجی و ثقافتی تنوع کا معاملہ ہے۔

[pullquote]دوسرا اعتراض: مذہبی رسومات[/pullquote]
پاکستان میں سید عمار نقشوانی کے خلاف مہم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ پاکستان میں رائج مذہبی رسومَ اور مسائل پر اپنی تنقیدی رائے رکھتے ہیں اور ممبر سے ہی ان پر کھل کر بات کرتے ہیں جوکہ بہت سوں کو سخت ناگوار گزرتی ہے۔ عمار نقشوانی کے ٹیٹوز پر وہ لوگ اعتراض کر رہے ہیں جو زنجیز زنی جیسی خود اذیتی پر مبنی خون ریزی پر مذہبی استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

[pullquote]تیسرا اعتراض : امریکی و برطانوی ایجنٹ[/pullquote]
ان کو ایک امریکی و برطانوی ایجنٹ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے امریکہ میں قائم ایک مسلم تنظیم Universal Muslim Association of America (UMAA) کے حوالے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ تنظیم ایران مخالف اور امریکہ اسٹبلشمنٹ کی حمایت یافتہ ایک تنظیم ہے جس کی افتتاحی تقریب میں ایک امریکی حکومتی نمائندہ Paul Wolfowitz بھی شریک تھا۔ اور عمار نقشوانی اس تنظیم کے لیے کام کرتے ہیں۔

مذکورہ اعتراض پر عرض یہ ہے کہ اگر کسی سرکاری نمائندے کی کسی ایک تقریب میں محض شرکت سے پوری تنظیم اسٹبلشمنٹ کا مہرہ بن جاتی ہے تو شاید یورپ و امریکہ، کینیڈا اور اسٹریلیا، بھارت سمیت دنیا کے ڈیڑھ سو سے زائد غیر مسلم اکثریتی ممالک میں شاید کوئی بھی قابل ذکر مسجد، تنظیم، ادارہ یا مرکز نہیں بچے گا جہاں ان ممالک کے ماحول اور حالات کے مطابق متعلقہ حکومتی نمائندے اور سیاسی و مذہبی رہنما شامل نہ ہوتے ہوں۔ دوسری بات مذکورہ تنظیم کی سالانہ ایک کانفرنس ہوتی ہے جس میں مختلف علماء اور مذہبی و کمیونٹی رہنما شریک ہوتے ہیں اور یہاں کی مسلم کمیونٹی کے مسائل پر بحث ہوتی ہے۔ ریاست ہائے امریکہ کی تقریبا 35 کروڑ کی آبادی میں کم و بیش دو فیصد مسلم آبادی ہے وہ بھی مختلف مسلکوں اور اقوام میں بٹی ہوئی ہے، معلوم نہیں کہ اس پر بھی منافرت کے نشتر چلا کر کونسے اسلام اور مسلمانوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ حکومت کی انتہائی نا مطلوب خارجہ پالیسی کے باوجود یہاں کی مسلم آبادی کی حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے کہ وہ اپنے وطن سے محبت کے تقاضے بھی اسی طرح پورے کریں جس طرح مسلم اکثریتی ملک میں مطلوب ہیں، چنانچہ دیگر عمارتوں کی طرح یہاں کے بہت سے مسلم مراکز اور مساجد پر امریکہ کا قومی جھنڈا نصب ہے، ان مراکز میں مختلف مذاہب و اقوام اور حکومتی اداروں کے نمائندے بھی پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں۔

نیز اگر عمار نقشوانی امریکہ کے کسی خاص ایجنڈے پر کام کر رہے ہوتے تو پچھلے سال سے ان کا ویزہ منسوخ نہ کیا جاتا۔ ہارٹفرڈ یونی ورسٹی میں حاصل امام علی چیئر کی سربراہی، پروفیسرشپ، پھر ذرائع ابلاغ اور دیگر مجالس میں خطاب کے مواقع ان سے نہ چھنتے۔

[pullquote]چوتھا اعتراض: ضد ولایت فقیہ[/pullquote]

چوتھا اعتراض ان کو مرجعیت، ولایت فقیہ اور ایران کے اسلامی انقلاب کے ایک حریف و رقیب کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کے ایک ویڈیو کو بھی وائرل کیا گیا ہے جس میں وہ نظام ولایت فقیہ پر گفتگو کر رہے ہیں۔ مذکورہ ویڈیو میں سید عمار نقشوانی صاحب نے بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ ایک اجتہادی مسئلے پر مختلف رائے رکھنے والے ہر اہل علم کو ضد ولایت فقیہ کہہ کر اس کی کردار کشی کرنے اور ان پر لعن طعن کرنے کا شرعی و اخلاقی جواز کیا ہے؟

یہاں اس اعتراض پر بات کرنے سے پہلے کچھ بنیادی تصوارت کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ اہل تشیع کے ہاں امام وقت کی غیبت (حاضر و ظاہر نہ ہونا) کی صورت میں تمام عبادات و معاملات (فروع دین) میں کسی جامع الشرائط (شیعہ اثنا عشری، مرد، عاقل و بالغ، اعلم و عادل ) فقیہ کی تقلید کرنا واجب سمجھا جاتا ہے جبکہ عقائد و اصول دین میں تحقیق لازم گردانا جاتا ہے، جامع الشرائط فقیہ یا مجتہد کو عام طور پر مرجع یا مرجع تقلید کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آسان پیرائے میں یوں سمجھیے کہ مرجعیت اور ولایت فقیہ اہل تشیع کے فقہاء کی درجہ بندی کے حوالے سے دو اہم تصورات ہیں۔ مرجعیت میں علمی و دینی زعامت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے جبکہ ولایت فقیہ میں علمی و دینی کے ساتھ ساتھ سیاسی زعامت بھی شامل ہے۔ اصولی طور پر ولی فقیہ کے لیے مرجع ہونا ضروری ہے مگر مرجع کے لیے سیاسی طور پر ولایت و حکومت حاصل ہونا ضروری نہیں۔ فقہاء کے دو موجودہ بڑے مراکز ایران کے شہر قم اور عراق کے شہر نجف میں موجود ہیں۔ ولایت فقیہ کا تصور خود اسی دو لفظی ترکیب سے بھی واضح ہوجاتا ہے، کہ فقیہ کی ولایت یعنی وہ ملک جس میں کسی فقیہ کو حکومت حاصل ہو، یہ ایسے سیاسی نظام کا نظریہ ہے جو اہل تشیع کے ہاں پایا جاتا ہے جس میں وقت کے امام معصوم کی غیبت کے دوران بطور نیابت سیاسی نظام کی تدبیر کے اختیارات ایک جامع الشرائط فقیہ کو تفویض کیا جاتا ہے۔ (اس تصور کے علمی ارتقاء پر بحث الگ تفصیلی مضمون کا متقاضی ہے)

اس تمہید کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات تو معمولی غور و فکر سے واضح ہو جاتی ہے کہ ولایت فقیہ کا قانونی، سیاسی اور عملی دائرہ کار کیا ہے۔ اگر کوئی شخص اس ولایت و حکومت کے جعرافیائی حدود میں نہیں بستے تو اس پر قانونی اور عملی لحاظ سے ولایت فقیہ کے احکامات نافذ نہیں ہو سکتے۔ ہاں عبادت و نجی مذہبی احکام میں آپ ولی فقیہ کی تقلید کر سکتے ہیں یا بطور رہبر و رہنما ان کے سیاسی نظریات و بیانات سے اپنے حالات کے مطابق رہنمائی لے سکتے ہیں۔ قانونی اور عملی طور پر آپ اسی ملک کے قانونی شہری شمار ہوتے ہیں جس میں آپ رہتے ہیں اور آپ پر اسی ملک کے قوانین لاگو ہوتے ہیں نظام ولایت فقیہ کے قوانین نہیں۔

اب آتے ہیں اعتراض کے اوپر: مذکورہ بالا بنیادی اور واضح پہلو کو نظر انداز کر کے انقلاب کے سرگرم کارکنوں کا ولایت فقیہ کی پُرجوش نعرہ بازی میں شامل نہ ہونے والے ہر شخص کی کردار کشی کرنا اُن کی اخلاقی پستی، ذہنی غلامی اور اندھی عقیدت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ معاملہ مذہبی و علمی سے زیادہ انفرادی طور پر نفسیاتی و اخلاقی اور تنظیمی طور پر سیاسی نوعیت کا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ سطحی جذبات پر مبنی اس لعن طعن کے زد میں ماضی کے وہ تمام علما و فقہا اور عصر حاضر کے متعدد علماء و فقہاء بھی آتے ہیں جو نظام ولایت فقیہ کے علمی مباحث اور عملی تفصیلات پر مختلف آراء رکھتے ہیں۔ نیز یہ لعن طعن اتحاد بین المسلمین کے عزم کو بھی اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے کہ جو نظام اپنے ہم مکتب اہل علم کے ساتھ رواداری اور باہمی احترام پر یقین نہ رکھتا ہو وہ مسلمانوں کے دیگر مکاتب فکر اور دیگر مذاہب و ادیان سے وابستہ دنیا میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کے لیے محبت اور احترام و تعاون کا کونسا پیغام دے گا؟۔ بارہویں امام‘ امام مہدی ؑ کے ماتحت ایک عالمگیر الٰہی عادلانہ نظام کانتظار کرنے والے یہ لوگ کونسے عدل و انصاف اور امن و یکجہتی کا انتظار کر رہے ہیں ، تحقیق و انصاف سے دُوری، منافرت و رقابت اور اخلاقیات کی گراوٹ جن کی پہچان بنتی جا رہی ہو؟

مغربی سیاسی نظام جمہوریت (ایران کے صدارتی نظام) کے سہارے پر کھڑا ولایت فقیہ کے اس شیعی اسلامی نظام کے قیام کے باجود خود ایران کے دینی تعلیمی نظام میں بھی تفریق و تعصب کو دُور نہ کیا جا سکا۔ اس کے بہت سے شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں۔ پہلی مثال ایران میں دینی تعلیمی نظام ملکی اور غیر ملکی طلبہ کے لیے تفریق پر مبنی ہے، حوزہ علمیہ قم ( سب سے بڑا دینی تعلیمی مرکز) میں ایرانیوں کے لیے الگ نظام و نصاب اور خارجیوں (انٹرنیشنل سٹوڈنٹس) کے لیے الگ نظام و نصاب موجود ہیں۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں حاصل کی گئی تعلیمی اسناد کو اکثر اوقات حیثیت نہیں دی جاتی، چنانچہ حوزہ میں جا کر عموما فارن طلبہ کو سرے سے دوبارہ اپنا دینی تعلیمی کورس پڑھنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کی تعلیمی اسناد کو بھی حوزے کا تعلیمی نظام عموماً تسلیم نہیں کرتا حالانکہ جن کو پاکستان کی ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی تسلیم کرتا ہے۔

دوسری مثال یہ کہ ایران میں اسی مرجع کو پروموٹ کیا جاتا ہے جو ایرانی ہو یا وہ نظام کے منظور نظر ہوں۔ اہلیت میں بھلے پیچھے ہوں لیکن انہیں ایسے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں کہ وہ مرجعیت کی منازل طے کر پائیں جبکہ باقی کام پروپیگنڈے کے زور پر کیا جاتا ہے ۔ مختلف رائے رکھنے والوں کو پہلے تو ہیچ، بے سواد یا خارجی کہہ کر انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے اگر پھر بھی آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی تو ضد انقلاب، منافقین، طاغوت کے ایجنٹ سمیت طرح طرح سے ان کی کردار کشی کر کے انہیں اٹھنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا جاتا۔ چنانچہ فیصلہ سازی کے اداروں‌کے اعلیٰ قائدانہ منصاب پر غیر ایرانی نہیں‌پہنچ پاتے.

اس کی تھوڑی وضاحت یوں سمجھ لیجیے کہ شیخ اسحاق فیاض (افغانی)، شیخ آصف محسنی (افغانی)، شیخ حافظ بشیر نجفی (پاکستانی)، سید سعید الحکیم (عراقی)، ماضی قریب کے مرحوم فقیہ سید محمد حسین فضل اللہ (لبنان)، شیخ محمد حسین نجفی (پاکستانی) یہ سارے مراجع اور فقہا ہیں،اسی طرح سے شاید درجن بھر دیگر فقہیا موجود ہیں جن کا تعلق ایران سے نہیں، صدیوں سے قائم اجتہادی روایت کے تحت کئی دہائیوں کی محنت شاقہ کے بعد تمام فقہی ابواب و مسائل میں تحقیق و استدلال کے نتیجے میں اپنے مقلدین کے لیے ان کی ’’توضیح المسائل‘‘ چھپی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود انہیں مرجع کی حیثیت سے پروموٹ نہیں کیا جاتا جبکہ خود ایران کے اندر بہت سے ایسے مراجع موجود ہیں جن کی مختلف رائے کے باعث وہ زیر عتاب ہیں۔ اس تفریق کا یہی نتیجہ ہے کہ ایران میں انقلاب کے بعد پوری آزادی، وسائل و اختیارات کے باوجود تقریبا چالیس سالوں میں ایک بھی غیر ایرانی مرجع سامنے نہیں آیا۔ کیا ایران میں پڑھنے والے ایک سو بیس سے زائد ممالک کے علماء و محققین عجوز و عقیم اور ایرانی ہی فطین و زعیم ہو جاتے ہیں؟

دوسری طرح مختلف فوجی آمروں کے ماتحت رہنے اور منظم انداز میں ظلم و ستم سے ویران و برباد کرنے کی باقاعدہ کوششوں کے باوجود حوزہ علمیہ نجف عراق ماضی میں بھی مختلف اقوام و نظریات کے فقہاء کے لیے مشترکہ مرکز رہا ہے اور اس وقت بھی موجود چار بڑے مراجع میں سے چاروں مختلف اقوام سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں علمی تنوع، باہمی رواداری اور اختلاف رائے کا بھرپور احترام دنیا کو نظر آتا ہے۔

ایرانی ریاستی مفادات کی خاطر پاکستان میں مختلف گروہوں اور شخصیات کی سرپرستی کے ذریعے مختلف شیعہ جماعتوں اور اداروں میں رقابت کو پروان چڑھانے کے علاوہ ایران کا پاکستان میں کونسا کردار قابل ذکر ہے؟ اشتہارات، تصاویر، تشہیری اجتماعات، تکلفات اور سڑکوں پر نعرہ بازی پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے علاوہ کونسے بڑے تعلیمی، تحقیقی یا سماجی و اقتصادی یا فلاح و بہبود کے میدان میں قابل ذکر کام کیا گیا ہے؟ چلیں پوری پاکستانی قوم کے لیے نہ سہی خود ہم مکتب اہل تشیع کے لیے کیا کیا ہے؟ کونسا بڑا تعلیمی ادارہ، فلاحی منصوبہ یا تحقیقی مرکز قائم کیا گیا ہے جس کی کریڈیبلٹی مخصوص تنظیمی اور مسلکی خول سے نکل کر علمی میدانوں میں مسلم ہو۔ دکھ اس بات کا ہے کہ کروڑوں روپے (وہ بھی خمس کے) خرچ تو کیے گیے ہیں مگر فضا میں گونچتے امپورٹڈ نعروں، دیواروں پر لٹکتی تصویروں اور سڑکوں پر نکلتی نیم سیاسی مذہبی ریلیوں اور رقابت پر مبنی اجتماعات سے ایران کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی پاکستانی قوم یا اہل تشیع مکتب فکر کو، بلکہ ایسی غیر ضروری و غیر مفید سیاسی مداخلت دونوں ممالک کے لیے اکثر اوقات الٹا نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ پاکستان میں نام نہاد ’’انقلابی طبقہ ‘‘ جو دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کی طرح خود شیعہ کمیونٹی کے اندر بھی ہر اس شخصیت ، ادارہ یا تنظیم کے خلاف زبردست منفی پروپیگنڈہ کرتا ہے جو تعلیمی، دینی اور سیاسی سطح پر اپنے استقلال پر یقین رکھتی ہو اور ایران کا دست نگر بننے کے لیے آمادہ نہ ہو ۔ سید عمار نقشوانی کے خلاف مہم میں یہی رقابت بھی کارفرما ہے۔

خیر ہمارا موضوع یہاں پر سید عمار نقشوانی کے خلاف جاری مہم کے اس پہلو کہ کس طرح انقلاب کے نام پر ہمارے بعض دوست ہر اٹھتی ہوئی توانا آواز کو دبانے اور اس کی کردار کشی کو ’’اسلامی انقلاب‘‘ سمجھتے ہیں‘ کا جائزہ لینا ہے، اس لیے اس سے زیادہ یہاں کچھ عرض نہیں کریں گے۔

آخر میں ہمارے اصولی موقف کے طور پر پہلی بات یہ عرض ہے کہ آزادی فکر و عمل پر یقین رکھنے والے ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ جس نظریے یا نظام سے مطمئن ہو اسے مانے ، اس کی ترویج کرے اور اس کا دفاع کرے۔ ہمیں ذاتی طور پر کسی شخص سے یا ملک، نظریہ، نظام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر مذکورہ بالا سنجیدہ سوالات و مسائل کو اٹھائے بغیر ہم کیسے یک طرفہ نفرت انگیز مہم کے بہاؤ میں بہہ کر آگے بڑھیں۔ اور اگر کسی کے پاس ان سولات و خدشات کے اطمینان بخش جواب ہیں تو ہم اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے میں بالکل دیر نہیں لگائیں گے۔ مہم کا رخ ہماری طرف موڑنے سے بھی آپ کے جذبات کی تسکین ہو سکتی ہے مگر نئی نسل کے اذہان مطمئن کیسے ہوں گے؟

دوسری بات یہ کہ ہر مختلف آواز کو سازش سے جوڑنا شکست خوردہ، بے بس و کمزور ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ جبکہ متحرک اور باشعور ذہن علمی اختلاف کی صورت میں محکم دلائل کے سہارے ایک دوسرے کی رائے پر تبصرہ و نقد کرتے ہیں۔ ہر طرف قحط الرجال کی ناگفتہ بہ صورت حال میں نئی نسل کو معاصر پیرائے میں اپنی دینی شناخت کو اجاگر کرنے کی دعوت دینے میں میں لگا کوئی بھی دانشور غنیمت سے کم نہیں ہے۔ اپنی اسلامی شناخت پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے الحاد کی طرف تیزی سے بڑھتی نسل کو بچانے والے مغربی مسلم دانشوروں اور داعیوں کو سراہنے کے بجائے ان کی کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ہاں اگر سنجیدہ احباب کو سید عمار نقشوانی کے کچھ معاملات یا آراء سے اختلاف ہے تو بے شک علمی انداز میں محکم دلائل سے ان کا علمی تعاقب ضرور کریں مگر یوں ہر اٹھتے انسان کی کردار کشی کریں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے۔

تیسری بات یہ کہ ایک علم دوست معاشرہ تب ہی پروان چرھ سکتا ہے جب وہاں مختلف آراء کی موجودگی کو ایک فطری حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ اختلاف رائے‘ کائنات کی تخلیق میں موجود تنوع و رنگا رنگی، انسانی خلقت و جبلت میں پایا جانے والے صلاحیتوں و مہارتوں کے فرق، سماجی زندگی کے تجربات کا لازمہ اور آزادی فکر و عمل کا ناگزیر نتیجہ ہے جس کے باعث ہی زندگی میں خوب صورتی، اور تہذیب میں ارتقا اور نظام میں بہتری آتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

اس موضوع پر جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ قم کے محقق احسان رضی کے ساتھ ہونے والے مکالمے کو اس لنک میں‌پڑھا جا سکتا ہے:
https://ibcurdu.com/news/59916[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے