پنجاب یونیورسٹی اور قائد اعظم یونیورسٹی سمیت ملک بھر کی جامعات میں طلبہ تنظیموں کے درمیان جھگڑوں کی خبریں اب معمول کی بات بن چکی ہے جس کی وجہ سے آئے روز کلاسز ختم اور یونیورسٹی بند ہو جاتی ہے۔
[pullquote]ویڈیو دیکھنے کے لیے سنٹر میں پلے کے بٹن پر کلک کیجئے .[/pullquote]
یونیورسٹی انتظامیہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا دباؤ برداشت نہیں کرپاتی جبکہ حکمران اس وجہ سے نوٹس نہیں لیتے کہ ان کے بچے ان اداروں میں نہیں پڑھتے ۔سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اپنے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر تنظیم سازی نہیں ہو سکتی تاہم پبلک یونیورسٹیوں میں یہی سیاسی اور مذہبی جماعتیں طلبہ تنظیمیں بنوا کر اپنی افرادی قوت میں اضافہ کرتی ہیں ۔
دور دراز سے آئے بچوں کو اول تو مقامی ماحول پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا ، اگر کچھ محنت کر کے آگے آ بھی جائیں تو یونیورسٹیوں کا ماحول انہیں آگے نہیں آنے دیتا ۔
پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کے اجتماع کے کیمپ پر خود کو بلوچ کہنے والے کچھ غنڈوں نے طلبہ کے روپ میں حملہ کیا جس کے بعد حالات خراب ہو گئے ۔ گذشتہ برس خود کو جمیعت کا کہنے والے کچھ غنڈوں نے پختون کلچر فیسٹول پر حملہ کیا تھا جس کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے تھے ۔
یونیورسٹی میں دو سال سے مستقل بنیادوں پر کوئی وی سی نہیں جس کی ذمہ داری پنجاب حکومت پر ہے ۔ پنجاب حکومت کے نظروں کے نیچے یہ سب کچھ ہو رہا ئے تاہم وہ نظریں ملانے کے بجائے نظریں چرا کر جان چھڑا رہی ہے ۔